دینو جوگی کی کہانی دنیا کیلئے مثال، بھیک مانگ مانگ کر بچوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کردیا

دینو جوگی کی کہانی دنیا کیلئے مثال، بھیک مانگ مانگ کر بچوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کردیا
علم حاصل کرنا ہو تو کوئی مشکل، کوئی روایت اور کوئی پیشہ اس جنون کو روکنے میں ناکام ہو جاتے ہیں۔ ایسی ہی ایک مثال تھرپارکر میں مقیم خانہ بدوش قبیلہ کے فرد دینو جوگی کی ہے جو خود تو گداگری اور سانپ کے کرتب دکھانے کے پیشے سے وابستہ ہے لیکن اپنے بچوں کو اعلیٰ تعلیم دلوا رہا ہے۔

یہ جوگی قبیلہ ناصرف گداگری کرتا ہے بلکہ اپنے خاندانی پیشے سانپ کے کرتب دکھا کر دردر بھیک مانگتا ہے۔ یہ لوگ ملک بھر کے ہر شہر اور قصبے میں جا کر اپنا فن دکھا کر بھیک مانگتے ہیں۔ انھیں کوئی پیسے دیتا ہے تو کہیں سے آٹا، چاول مل جاتے ہیں۔ اس طرح ہی وہ اپنا اور اپنے بچوں کو پیٹ پالتے ہیں۔

ان کا کوئی مستقل ٹھکانہ بھی نہیں ہوتا۔ قافلے بنا کر خواتین بچوں سمیت گھومتے پھرتے ہیں۔ جوگی قبیلہ کے لوگ تھر کے علاقے میں زیادہ مقیم ہیں۔ اپنی چھوٹی چھوٹی جھگیاں بنا کر بیٹھے رہتے ہیں۔



تاہم اب انہوں نے اپنا کچا ہی سہی مگر بچوں کے مستقبل سنوارنے کے لیے ٹھکانہ بنایا ہے۔ تھرپارکر کے بئراجی سنگم کے علاقے میں اس وقت زیادہ جوگی آباد ہیں۔ انہوں نے اپنا پیشہ تو نہیں چھوڑا مگر در در کی ٹھوکریں کھانے کے بعد یہ سیکھا ہے کہ تعلیم سے ہی سب کچھ ممکن ہے۔

تھر کے بئراجی سنگم کے گائوں ارباب خان صاحب میں بھی 200 کے قریب جوگی خاندان آباد ہیں۔ ان میں ہی دینو جوگی بھی شامل ہے جس نے لوگوں کے طعنے سن سن کر یہ عہد کر لیا تھا کہ جو بھی ہو جائے، اسے اپنے بچوں کو تعلیم دلانی ہے۔

دینو جوگی کے دو بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں۔ اس نے اپنے دونوں بیٹوں کو سکول بھیجنا شروع کیا۔ جب جوگیوں کے بچے پرائمری سکول میں پڑھنے کے لئے جانے لگے تو علاقے کے لوگ بھی حیرانی سے دیکھتے کہ اب یہ بچے بھی پڑھیں گے۔



دینو جوگی اپنے سانپوں کو لے کر کرتب دکھانے جاتا، مگر اپنے بچوں کو سکول بھیجتا رہا۔ یہ سکول بھی گائوں سے چار کلومیٹر دور تھا۔ مگر بچے روزانہ پیدل سکول آتے جاتے رہے۔

دینو نے اپنے بڑے بیٹے کو تعلیم دلانے کی ٹھان لی تو ان کے بھائیوں نے بھی اپنے بچے ساتھ بھیجنا شروع کئے۔ اب یہ بچے جوان ہو چکے ہیں اور یونیورسٹی میں زیر تعلیم ہیں۔

جوگی برادری میں ایک روایت یہ بھی ہے کہ یہ اپنے بچوں کی شادیاں کم عمری میں کروا دیتے ہیں اور اس وقت تک بیٹی کو رخصت نہیں کرتے جب تک یہ یقین نہ ہو جائے کہ ان کا داماد بھیک مانگ کر ان کی بیٹی کو پال سکتا ہے۔



مگر دینو نے ایسا نہیں کیا اور اپنی خاندانی روایت سے بغاوت کر دی۔ اس کے عزم کی وجہ سے ہی آج جوگیوں کے 4 نوجوان یونیورسٹی کے طالبعلم ہیں اور سینکڑوں بچے سکول میں زیر تعلیم ہیں۔

اس خانہ بدوش قبیلہ کا ایک نوجوان بابو جوگی بھی ہے جو سندھ یونیورسٹی میں فزکس ڈپارٹمنٹ میں زیر تعلیم ہے۔ اس کا والد دینو جوگی گداگری سے جو بھی کماتا ہے اس کا بڑا حصہ اپنے بیٹے کی تعلیم پر خرچ کر رہا ہے۔



بابو کے والد دینو جوگی کا پختہ ارادہ ہے کہ وہ اپنی محنت سے اپنے بیٹے کو تعلیم مکمل کرائے گا۔ دینو جوگی کو جو بھی بھیک ملتی ہے، وہ اسے اپنے بیٹے کو بھیج دیتا ہے۔

بابو جوگی نے یونیورسٹی کے طلبہ کو دیکھ کر اپنا حلیہ تو تبدیل کیا ہے مگر گھر کے حالات بدلنے میں ابھی بھی بہت وقت لگے گا۔

مریم صدیقہ صوبہ سندھ کے ضلع تھرپارکر کی واحد خاتون صحافی اور ایک نجی نیوز چینل سے وابستہ ہیں