بلوچستان حکومت کی جانب سے گوادر میں مظاہرین کو منتشر کرنے اور امن وامان کی صورتحال کے پیش نظر ایک ماہ کے لیے دفعہ 144 کے نفاذ کے باوجود احتجاج جاری ہے۔ 100 سے زائد مظاہرین کو گرفتار کر لیا گیا۔
گوادر میں ’حق دو تحریک‘ کے بنیادی حقوق کی فراہمی کے لیے کئی ماہ سے جاری پرامن احتجاج کے باعث صورتحال معمول پر نہیں آ سکی ہے۔ مظاہروں کی قیادت کرنے والے مولانا ہدایت الرحمٰن نے کہا کہ لوگ موٹروے یا اورنج لائن نہیں بلکہ محض اپنے بنیادی حقوق جیسے پانی، بجلی اور نوکریاں مانگ رہے ہیں۔
مولانا ہدایت الرحمٰن کی زیر قیادت حق دو تحریک کے کارکنوں اور حامیوں نے گوادر میں اپنا احتجاج جاری رکھا اور تحریک کے تمام افراد اور کارکنوں کی رہائی کا مطالبہ کیا۔
حکومت نے گوادر میں گزشتہ چار دنوں سے موبائل فون نیٹ ورک اور انٹرنیٹ سروس بھی معطل کر رکھی ہے تاہم اب بجلی کی فراہمی بھی معطل ہو گئی ہے۔ گوادر اور پسنی اورماڑہ، جیونی، سربندر اور پیشکان سمیت باقی علاقوں میں دکانیں، مارکیٹیں اور کاروباری و تجارتی مراکز بھی بند رہے۔ ساحلی ضلع کے دیگر علاقوں میں چوتھے روز بھی شٹر ڈاؤن ہڑتال جاری ہے۔
جمعرات کو بھی شہر کی سڑکوں پر مظاہرین اور پولیس میں آنکھ مچولی کا سلسلہ جاری رہا۔ پولیس نے مزید 25 کارکنوں کو گرفتار کر لیا جس کے بعد گرفتار ہونے والے افراد کی تعداد 100 سے تجاوز کر گئی ہے۔ جس کے بعدصوبائی حکومت نے گوادر میں ایک ماہ کے لیے ضابطہ فوجداری کی دفعہ 144 نافذ کر دی۔
محکمہ داخلہ بلوچستان کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ دفعہ 144 کے تحت گوادر کے ساحلی شہر میں ہر قسم کے جلسے، احتجاج، دھرنے اور پانچ یا اس سے زائد افراد کے اجتماعات پر پابندی ہوگی۔ اس کے علاوہ اسلحے کی نمائش پر بھی پابندی عائد کر دی گئی۔
یاد رہے کہ بلوچستان کے ساحلی ضلع گوادر میں ’گوادر کو حق دو تحریک‘ کی جانب سے غیرقانونی ماہی گیری کے خاتمے، سرحدی تجارت آسان کرنے، لاپتہ افراد کی بازیابی، غیرضروری چیک پوسٹوں کے خاتمے سمیت دیگر مطالبات کے حق میں 27 اکتوبر سے دھرنا دیا جا رہا تھا۔