حکومت ٹی وی پر سیاسی جماعتوں کے مابین انتخابی مباحثہ منعقد کروائے

الیکشن کمیشن کو سیاسی جماعتوں کو ہدایات جاری کرنی چاہئیں کہ وہ اپنے مؤقف کو دلائل کے ساتھ واضح کرنے کے لئے اپنے اپنے منشور اور سابقہ کردار و کارکردگی کی روشنی میں اپنی مستقبل کی حکمت عملی کو عوام کے سامنے رکھیں۔

حکومت ٹی وی پر سیاسی جماعتوں کے مابین انتخابی مباحثہ منعقد کروائے

انتخابات میں ایک ہفتہ باقی ہے اور انتخابات کو متنازعہ بنانے کے خدشات سے لے کر ایک دوسرے پر سہولت کاری اور لاڈلے پن تک کے الزامات کی بھرمار ہے۔ ایسے میں انتخابات سے ممکنہ مفادات کے حصول کی کوششیں پوری طرح سے کامیاب ہوتی نظر نہیں آتیں جس سے نا صرف عوامی مینڈیٹ مشکوک ہوگا بلکہ ریاست کے وسائل اور مستقبل کے ترقیاتی منصوبے بھی متاثر ہوں گے جو کسی بھی طرح سے ملک و قوم کے مفاد میں نہیں۔

ان خدشات، تحفظات اور شکوک و شبہات پر حکومت اور ادارے اپنا مؤقف بھی گاہے بگاہے دے رہے ہیں اور ان پر لگائے جانے والے الزامات کو دور کرنے کی پوری کوشش کی جا رہی ہے مگر اس کے باوجود ان سے مکمل طور پر چھٹکارا ممکن نظر نہیں آ رہا۔ بین الاقوامی جریدوں کی رپورٹس بھی حقائق کو واضح کر رہی ہیں مگر ان تک عوام کی اتنی رسائی نہیں جتنی ان کی سوشل میڈیا کے ذریعے سے پھیلائے جانے والے پروپیگنڈے تک ہے۔ اس کی وجوہات میں دولت کا کمال، تکینکی مہارتیں اور کم شرح خواندگی شامل ہیں جن کے توڑ کے لئے لمبا وقت اور تحقیقی مہارتیں درکار ہیں۔

ویسے تو یہ سیاسی جماعتوں کو چاہیے تھا کہ وہ آپس میں مل کر کوئی ایسا لائحہ عمل ترتیب دیتیں جس سے آئین و قانون پر عمل درآمد کو یقینی بنایا جا سکتا یا پھر عملی طور پر وہ الزامات کی سیاست کو چھوڑ کر کارکردگی کے بیانیے کے ساتھ عوام میں جاتے اور تمام سیاسی جماعتوں کے لئے لیول پلیئنگ فیلڈ کے لئے وہ اپنے اپنے کردار کو واضح نبھاتیں اور اپنے اوپر لگائے جانے والے الزامات کا جواب دیتیں اور سب حکومت سے یک زبان شفاف اور غیر جانبدار انتخابات کے انعقاد کو یقینی بنانے کا مطالبہ کرتیں لیکن ایسا ممکن نہیں ہو سکا کیوںکہ ان کے اپنے اندر بھی ابھی تک وہ اصولی اور جمہوری اقدار والی سیاست پروان نہیں چڑھ سکی جو صحیح معنوں میں جمہوریت کی بنیاد ہوتی ہے جن کی سیاسی شعور اور اعلیٰ اخلاقیات پہلی شرط ہے جو ہمارے اندر بحیثیت قوم ابھی یہ حل ڈھونڈنے سے قاصر ہیں۔

لہٰذا ایسے وقت میں جو فوری طور پر قابل عمل اور نتائج کے لحاظ سے کامیاب حکمت عملی بنائی جا سکتی ہے وہ حکومت کی طرف سے قومی نشریاتی ادارے پر براہ راست تمام بڑی سیاسی جماعتوں کے درمیان مکالمے کی سہولت کی فراہمی کا انتظام ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ الیکشن کمیشن کو سیاسی جماعتوں کو ہدایات جاری کرنی چاہئیں کہ وہ ان خدشات کو دور کرنے کی غرض سے اپنے مؤقف کو دلائل کے ساتھ واضح کرنے کے لئے اپنے اپنے منشور اور سابقہ کردار و کارکردگی کی روشنی میں اپنی مستقبل کی حکمت عملی کو عوام کے سامنے رکھیں اور سیاسی جماعتوں کے مرکزی قائدین کے درمیان مکالمہ ہو تا کہ نا صرف ان کے اپنے خدشات دور ہوں بلکہ عوام پر ان کے جھوٹ پر مبنی سیاسی بیانیے بھی بے نقاب ہوں اور ان کے ایک دوسرے پر الزامات کے جوابات بھی ایک ہی نشست میں سننے کو ملیں تا کہ عوام حقائق کو سمجھتے ہوئے اپنے ووٹ کے حق کے ذریعے سے رائے کا صحیح استعمال کر سکیں۔

ان مکالموں میں اگر ممکن ہو تو اداروں کے نمائندے بھی موجود ہوں جو سیاسی جماعتوں کے خدشات اور ان کے لئے لیول پلیئنگ فیلڈ کے لئے قانونی طور پر اٹھائے جانے والے اقدامات اور اس پر ادارے کی کارروائی کو بھی عوام کے سامنے رکھیں تا کہ عوامی اور سیاسی جماعتوں کی غلط فہمیاں بھی دور کی جا سکیں۔ اس سے عوام کو سیاسی جماعتوں کے قائدین کی علمی، ادبی، آئینی و قانونی، سیاسی اور اخلاقی سوجھ بوجھ کا بھی اندازہ ہو گا جو ہماری بہتری میں رکاوٹ کے اسباب میں سے ایک ہے۔

اب تک ساری جماعتیں اپنا منشور پیش کر چکی ہیں۔ اس براہ راست نشریات کے ذریعے سے مکالمے کی سہولت سے سیاسی جماعتوں کو اپنا منشور عوام تک پہنچانے کے ساتھ ساتھ ان پر اٹھنے والے سوالوں پر اپنے دفاع اور ان کے حقائق سے مطابقت رکھنے پر دلائل کا بھی موقع ملے گا اور جو جماعتیں لیول پلیئنگ فیلڈ نہ ملنے کی شکایات کر رہی ہیں ان کا بھی شکوہ دور ہو جائے گا اور عوام کو اس سے رائے قائم کرنے کے ساتھ ساتھ اعتماد بھی ملے گا۔

تازہ ترین خبروں اور تجزیوں کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں

اس کے علاوہ میں سمجھتا ہوں اگر مفرور ملزموں کے انتخابات میں حصہ لینے میں کوئی قانونی قدغن نہیں تو پھر جو جیلوں میں قید ہیں ان کو اگلے دس دنوں کے لئے پیرول پر رہائی دے دینی چاہیے تاکہ وہ اپنی انتخابی کمپین بھی چلا سکیں اور ان کا انتخابات میں لیول پلیئنگ فیلڈ کا شکوہ بھی ختم ہو جائے گا۔

ایک بڑی سیاسی جماعت پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو کی طرف سے تو مسلم لیگ ن کے قائد کو انتخابات سے پہلے مباحثے کا چیلنج بھی دیا جا چکا ہے جو جمہوری ثقافت کی طرف ایک مثبت قدم ہے اور عالمی سطح پر اس کی مشق پہلے سے رائج ہے۔

اس سے سوشل میڈیا کی تباہی کے نقصانات کو بھی کافی حد تک کم کرنے میں مدد ملے گی اور عوام پر واضح ہو جائے گا کہ کون سی سیاسی جماعت ملک و قوم کے لئے مخلص، ان کے لئے خیر خواہ اور مستقبل کے لئے فائدہ مند ثابت ہو سکتی ہے۔ عوام کو اچھے اور برے میں تمیز کرنے کے لئے ماحول کی فراہمی حکومت کی ذمہ داریوں میں شامل ہے اور اگر ایسا نہ کیا جائے تو پھر ان کو سوشل میڈیا کی جادوگری والی تباہی کے نقصانات کا نشانہ بننے کا مورد الزام نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔ جب تک عوام کو ہر طرف کے مؤقف تک رسائی ہی نہ ہو ان کی سوچوں کو نیوٹرل کیسے کیا جا سکتا ہے؟ سوشل میڈیا کا یہ طریقہ واردات ہے کہ اس کو اگر کسی کی دلچسپی معلوم ہو جائے، خواہ غلطی سے ہی کیوں نہ ہو، تو وہ اس کی مدد کے لئے اس کو اس سے ملتا جلتا مواد بھیجنا شروع کر دیتا ہے اور اس کی سوچوں کو یقین کی حد تک پہنچا کر چھوڑتا ہے جس سے حق کو جاننے کی راہیں ہی بند ہو جاتی ہیں۔

جس طرح سے فوج کے سربراہان نے نوجوانون کی کانفرنس سے خطاب اور سوالوں کے جوابات سے ان کی غلط فہمیاں ختم کی ہیں اس حکمت عملی کو دوسرے اداروں کے سربراہاں تک بھی وسیع کرنا چاہیے۔ اس سے عوام کی منفی سوچیں ختم ہو کر ان کے اندر با اختیار ہونے کا احساس پیدا ہوتا ہے اور ایسے پروگرامز براہ راست نشریات کے ذریعے سے دکھائے جانے چاہئیں۔ اس کانفرنس کے سوالات کی نوعیت اس بات کو واضح کرتی ہے کہ اس میں شامل طالب علموں کی آزادانہ شرکت کو یقینی بنایا گیا تھا اور سوالات کرنے والوں کا چناؤ بھی کسی بندوبست کے ذریعے سے نہیں کیا گیا تھا جو اکثر حقائق کو چھپانے کے لئے حربے کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔

اسی طرح دوسرے اداروں کے سربراہان کو مؤقف سے اپنے اوپر لگائے جانے والے الزامات کی وضاحت کا موقع دیا جانا چاہیے خواہ وہ کسی آن لائن ویب سائٹ پر ہی ہو۔ اس کا طریقہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ حکومت ایک ایسا پورٹل بنائے جس پر عوام کو اپنے خدشات اور سوالات کرنے کی سہولت موجود ہو اور زیادہ دہرائے جانے والے سوالوں کے جامع جوابات شواہد کے ساتھ اس پر دیے جائیں تا کہ بے بنیاد الزامات بے نقاب ہو سکیں۔

سوشل میڈیا کی مقبولیت پر مبنی دھوکے نے عوام کو ورغلا کر ان کی سوچوں کو غلام بنایا ہوا ہے جس سے آزادی کے لئے ان الزامات کی تحقیقات کر کے عوام پر حقائق کو واضح کرنا بھی حکومت کی ذمہ داری ہے۔ جس طرح ججز پر بے بنیاد الزامات کی تحقیقات کی گئی ہیں ایسی ہی تحقیقات ہر ادارے پر لگائے جانے والے الزامات کے متعلق ہونی چاہئیں اور ان کی رپورٹس پبلک ہونی چاہئیں تا کہ عوام کو سچ جاننے کا موقع ملے اور اس کے ساتھ ساتھ جھوٹے بیانیے والے صحافیوں اور سیاست دانون کی بھی فہرسیتں جاری کی جانی چاہئیں اور ان کو کزابوں کی لسٹوں میں شمار کر کے ان کو ریاست کی طرف سے مہیا سہولیات جن کے ذریعے سے عوام کی سوچوں کو خراب کیا جا سکے، پر پابندی عائد کر دی جانی چاہیے۔

اداروں کے اندر بھی جو سیاسی جماعتوں کے ساتھ امتیازی سلوک کا سبب بن رہے ہیں، الیکشن کمیشن کو ایسے عناصر کی بھی تحقیقات کر کے اگر وہ کسی جماعت کے ساتھ ہمدردی کے مرتکب پائے جاتے ہیں تو ان کو تبدیل کر دینا چاہیے کیونکہ ایسے لوگ مخلص نہیں ہو سکتے۔ جن امیدواروں کو اب سپریم کورٹ سے ریلیف مل رہا ہے ان کی درخواستوں پر اعتراضات کا لگایا جانا بھی ایک سوالیہ نشان ہے۔ یہ لوگ ہی دراصل انتخابات کو متنازعہ بنائے جانے کا سبب بن رہے ہیں۔ اس بات کا خیال جیتنے والے امیدواروں یا سیاسی جماعتوں کو بھی کرنا چاہیے کیونکہ یہ کسی اور کی ایما پر ان کی جیت کو متنازعہ بنانے کی سازش بھی ہو سکتی ہے۔