تحریر: (بریگیڈیئر ریٹائرڈ محمود صادق) پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کو ایک سال ہوگیا ہے مگر معاشی طور پر ہیجانی کیفیت برقرار ہے۔ ایک سال سے حکومت معاشی میدان میں مشکلات کے ساتھ ساتھ ہچکچاہٹ کا شکار ہے۔ اگر یہ حکومت اقتدار کی باگ دوڑ سنبھالتے ہی آئی ایم ایف کا پیکج لے لیتی اور فوری معاشی تنظیم نو شروع کر دیتی اور اسکے ساتھ ہی سیاسی و انتظامی کرپٹ مافیا پر مربوط اور مضبوط ہاتھ ڈالتی تو آج پاکستان کی معاشی صورتحال اگر مختلف منظر نہ بھی پیش کرتی لیکن کم از کم آج سے بہتر ضرور ہوتی۔
کیا کوئی اس معاشی ہچکچاہٹ سے غریب آدمی پر ہونے والے منفی اثرات کی قیمت ادا کرے گا یا کم از کم کوئی اسکی ذمہ داری قبول کرنے کو تیار ہے؟
مانا کہ حکومت نے کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کو 30 فیصد تک کم کر دیا ہے اور تجارتی خسارے میں بھی 14 فیصد کمی کی ہے۔ مان لیتے ہیں کہ بیلنس آف پیمنٹ کے خطرے کو بھی عارضی طور پر ٹال دیا گیا ہے۔ بیرونی قرضوں کی مد میں حکومت نے بڑی ادائیگیاں بھی کی ہیں۔ پی آئی اے، پاکستان پوسٹل سروس اور پی ٹی وی جیسے اداروں میں بھی بہتری آئی ہے۔ اس کے ساتھ صفائی کی مہم، درخت لگانے کے دعوے، ایئر پورٹس پر سہولیات، مہمند ڈیم کا افتتاح، سیاحت، کامیاب جوان پروگرام، صحت کارڈ، احساس پروگرام اور پناہ گاہ جیسے اقدام کو بھی صحیح سمت قرار دے دیتے ہیں۔
اس کے ساتھ فاٹا میں انتخابات اور ترقی کی کوشش بھی حکومت کے کھاتے میں ڈال دیتے ہیں۔ خارجہ پالیسی میں حکومت کی کامیابیاں بھی خراج تحسین کی مستحق ہیں مگر آج کی حقیقت یہ ہے کہ اچھے کاموں کی یہ نازک فہرست مہنگائی اور معاشی بد حالی کے طوفان میں ہچکولے کھا رہی ہے اور پوری تحریک انصاف ان اچھے اقدامات کو ڈوبنے سے بچانے میں مصروف ہے۔
سب سے فوری، ظاہری، حقیقی اور بڑی بات یہ ہے کہ عام آدمی کی قوت خرید انتہائی کم ہو گئی ہے۔ روز مرہ استعمال کی اشیاء پر ٹیکس نے مہنگائی کو ایک نئی سطح پر پہنچا دیا ہے۔ مستقبل قریب مہنگائی میں اضافے اور ملازمت و کاروبار میں مندی کا بگل بجا رہا ہے۔
آج کی ایک اور خوفناک حقیقت یہ بھی ہے کہ بیرونی سرمایہ کاری کم ترین اور مہنگائی بلند ترین سطح کو چھو چکی ہے۔ ڈالر اور “انٹرسٹ ریٹ” اپنی آنکھ مچولی جاری رکھے ہوئے ہیں۔
پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے اب تک جو اقدامات کئے ہیں ان کے اثرات کسی عام یا خاص آدمی کے لیے جھٹکے سے کم محسوس نہیں ھوے۔ تحریری شہادتیں، اندراج اور تصدیق کے عمل جاری ہیں۔ بجٹ کے بعد کافی سارے معاشی شعبوں، صنعتوں اور کاروباروں نے نیچے کی طرف غوطہ کھایا ہے۔ اس میں گاڑیوں، پراپرٹی اور ٹرانسپورٹ کا کاروبار شامل ہیں۔ جس ملک میں برآمدات حاصل کرنے کے عمل میں شامل را میٹریل تک درآمد ہو رہا ہے وہاں درآمدات پر عائد ٹیکس اور روپے کی قدر میں گراوٹ کے ساتھ ہماری برآمدات کیسے بڑھ پائیں گی؟ ٹیکس کے علاوہ گیس کی مد میں چھوٹ کا خاتمہ پیداواری لاگت کو بڑھائے گا۔ ایسی صورت میں کیا ہماری ایشیا عالمی منڈی میں مقابلہ کر پائیں گی؟ حقیقت یہ ہے کہ آج کا کاروباری اس معاشی تنظیم نو کے بعد جن مراعات کے لیے ہڑتال کر رہا ہے وہ حکومت نہیں دے سکتی۔
معاشی ترقی میں سست رفتاری سب کو نظر آ رہی ہے اور ایسے حالات میں انتہائی بلند اور غیر حقیقی ریونیو ہدف ایک مڈٹرم بجٹ کی نوید سنا رہے ہیں۔ ٹیکسوں کو بڑھا کر ریونیو کے مقرر کردہ حداہف حاصل کرنا ایک بہت بڑا چیلنج ہوگا۔ جس سے شبر زیدی کس طرح نبرد آزما ہوتے ہیں یہ تو وقت ہی بتائے گا۔
کراچی، فیصل آباد، لاہور اور پشاور جیسے شہروں میں جاری معاشی اندراج کتنی دیر میں مکمل ہو جائے گا؟ معاشی تنظیم نو کے لیے درکار قانون سازی اور طریقہ کار کا عمل کب تک مکمل ہو جائے گا؟ کیا پاکستان آئی ایم ایف کے مقررہ حدائف حاصل کر پائے گا؟ اگر ورلڈ بینک کچھ دن پہلے جاری ہونے والی 2015 سے 2018 کی رپورٹ کو دیکھا جائے تو ہمارے زیادہ تر معاشی پیمانے اور طریقے کم ترین معاشی خطوط اور سطح پر ہیں۔ ورلڈ بینک کی نظر میں تو ہمارے قرضوں کا ریکارڈ تک ٹھیک نہیں ہے
حکومتی اخراجات میں کمی اپنی جگہ مگر ظاہری فرق تب آئے گا جب ریاست کے معیشت سے منسلک اداروں اور شعبوں کی کارکردگی میں بہتری اور طور طریقوں میں اصطلاحات مکمل ہوں گی۔ برآمدادت کی بنیاد مضبوط اور وسیع کرنا اور کاروباری ماحول کو بہتر بنانا جس میں بیرونی سرمایہ کاری اور پرائیویٹ سیکٹر زیادہ سے زیادہ شریک ہو ایک بنیادی اور لازمی ضرورت ہے۔
غار کی دوسری طرف سے آنے والی روشنی صرف حکومتی وزیروں کو نظر آرہی ہے۔ اگر ہمارے وزیر تجارت کی اس بات کو مان بھی لیا جائے کہ جتنی ابھی کوشش ہو رہی ہے وہ پاکستانی تاریخ میں پہلے کبھی نہیں ہوئی پھر بھی ایک غریب آدمی کے لیے معیشت کا پہیہ آخر کب تک آہستہ آہستہ ہی سہی چلنا شروع ہو جائے گا؟ قوم کو کب تک یہ تکلیف برداشت کرنا ہو گی؟ کیا قوم کو یہ جاننے کا حق نہیں؟
کیا اس حقیت سے انکار کیا جاسکتا کہ اگلے 16 سے 24 ماہ میں معاشی ترقی کو دوبارہ زندہ کرنا ممکن نہیں ہو گا بلکہ صرف اسے مستحکم، دیرپا اور پائیدار بنانے کے لیے بنیاد ڈالنے کا عمل ہی ممکن ہو گا۔ اس دوران خزانہ اور موجودہ اکاؤنٹ خسارہ پر بھی قابو پائے جانے کی کوشش کی جائے گی۔
پاکستانی عوام کی برداشت اور تکلیفیں سہنے کے حوصلے کو دیکھتے ہوئے میری ذاتی رائے میں تحریک انصاف کے لیے وقت ابھی بھی ہاتھ سے نہیں نکلا ہے۔ اگر موصوف وزیر ریلوے کے 90 دنوں کی پیشگوئی کسی ریلوے حادثے کا شکار ہو گئی تو پھر شاید بہت دیر ہو جائے گی۔ اس سے پہلے کہ معاشی بد نظمی عملا" نالائقی اور نااہلی بن کر سیاہ اور ان مٹ نشان چھوڑ دے پاکستان تحریک انصاف کو معاشی ہچکچاہٹ کا یہ داغ دھونا پڑے گا۔
داغ کپڑوں پر چل جاتے ہیں اور مٹ بھی جاتے ہیں مگر پارٹی کی کارکردگی پر داغ نہ صرف تاریخ کا حصہ بن جائے گا، بلکہ اسکی قیمت بھی چکانی پڑے گی۔ اگر 22 سالہ جدوجہد کے بعد اقتدار ملا ہے تو شاید اتنا ہی وقت لگ جائے دوبارہ موقع ملنے اور اس داغ کو دھونے میں۔