جب جماعت کو دیوار کے ساتھ لگایا جائے گا تو دو بیانیوں کی کنفیوژن ہوگی: محمد زبیر

جب جماعت کو دیوار کے ساتھ لگایا جائے گا تو دو بیانیوں کی کنفیوژن ہوگی: محمد زبیر
ن لیگ کو الیکشن میں ہونے والی پے در پے شکستوں کے بعد اب محسوس یہ ہو رہا ہے کہ پارٹی مکمل طور پر دباو میں ہے۔ جہاں کشمیر و سیالکوٹ الیکشنز میں چلائی جانے والی مہم پر پارٹی کے اندر سوچ و بچار چل رہی ہے تو وہیں تحریک انصاف کی جانب سے ن لیگ کے خوب لتے لیئے جا رہے ہیں۔ میڈیا کے اندر مخصوص حلقوں نے ایک بار پھر زور و شور سے ن لیگ کی دھڑے بندی اور اس میں ہونے والی ممکنہ شکست و ریخت کے بارے راگ الاپنا شروع کردیا ہے۔ گو کہ ن لیگ اس حوالے سے ہر دعوے کو بے بنیاد کہہ کر ٹالتی نظر آرہی ہے تاہم اب مسلم لیگ ن کے ترجمان اور مرکزی رہنما محمد زبیر نے کہا ہے کہ اتفاق کرتا ہوں کہ پارٹی میں دو بیانیئے ہیں۔ انہوں نے جیو کے ایک پروگرام میں بات کرتے ہوئے کہا کہ پارٹی میں دو بیانیے کے حوالے سے کنفیوژن سے درست بیانیہ لوگوں کے سامنے نہیں آسکتا۔
انہوں نے کہا کہ جس طرح ان کی جماعت کو دیوار میں چن دیا گیا ہے، ایسے ماحول میں پارٹی میں اختلاف ہونا فطری ہے کہ پارٹی میں کون سا بیانیہ لے کر چلیں۔
شہباز شریف کی صدارت چھوڑنے سے متعلق دھمکی کی خبریں اور تردید
گزشتہ روز سے سوشل میڈیا اور دیگر مرکزی ذرائع ابلاغ میں شہباز شریف سے متعلق خبریں شائع ہوئی ہیں جن کے مطابق آزاد کشمیر انتخابات میں حکمت عملی نظر انداز کرنے پر شہباز شریف سخت ناراض ہوگئے ہیں اور انہوں نے پارٹی کی صدارت کا عہدہ چھوڑنے کی دھمکی دے دی ہے۔ سیاسی ذرائع کا کہنا ہے کہ پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر حمزہ شہباز کے روکنے پر فی الحال شہباز شریف خاموش ہیں،‏ حمزہ شہباز نے شہباز شریف کو معاملہ نواز شریف کے سامنے اٹھانے کی یقین دہانی کرائی ہے۔
تاہم نیا دور سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے شہباز شریف کے قریبی ذرائع کا کہنا تھا کہ اس خبر میں کوئی صداقت نہیں۔ انہوں نے اسے مضحکہ خیز قرار دیتے ہوئے کہا کہ ایسی خبریں پھیلانے کا ٹاسک کچھ مخصوص طبقات کی جانب سے دیا جاتا ہے اور اس کا مقصد صرف ن لیگی کارکنان میں بددلی پھیلانا ہے لیکن ایسی بھونڈی کوششیں نہ پہلے کبھی کامیاب ہوئی ہیں نہ اب ہو رہی ہیں۔

بظاہر ن کیگ کے اندر بھی نمایاں ہونے کے لیئے ایک کشمکش جاری ہے۔ اور یہ کشمکش مکمل طور پر سیاسی نوعیت کی ہے۔ اس لیئے مفاہمتی دھڑا مزاحمتی کو اور مزاحمتی مفاہمتی کو  ہمیشہ نیچا دکھانے کے لیئے کوشاں ہے۔  تاریخی طور پر دیکھا جائے تو شاید یہ صورتحال تقریبا ہر سیاسی جماعت، ہر نظریاتی جماعت کو درپیش تھی۔ مذہبی سیاسی جدوجہد کرنے والی مقدس ہستیوں کے ساتھی ہوں یا پھر کمیونسٹ انقلاب کے لانے والے۔ پاکستان کے تناظر میں  دیکھا جائے تو مسلم لیگ کے اولین دنوں میں بھی یہ کشمکش جاری رہی اور بھٹو کی پیپلز پارٹی کب اس سے خالی رہی؟۔ جب کہ خود حکمران جماعت تحریک انصاف کے دھڑوں کا تو شاید شمار ہی نہیں۔ مسئلہ مختلف بیانیوں کا نہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ پاکستانی پاور پالیٹکس  کے تناظر میں 2023 کا الیکشن جیتنا لازم ہے۔ چاہے وہ مزاحمتی بیانیہ جیتوائے یا مفاہمتی بیانیہ۔۔ لیکن ابھی تک اگر مزاحمتی بیانیہ ن لیگ کی کشتی پار نہیں لگا سکا تو مفاہمتی بیانیے کے ساتھ تو وہ ہوئی کہ امن کے سفیر شہباز شریف کو ہی اندر کردیا گیا۔ البتہ اگر دیکھا جائے تو سب تک ن لیگ کو جو سیاسی سپیس حاصل ہو سکی ہے وہ مزاحمتی بیانیئے سے ہی ہے۔   مزاحمت و مفاہمت یا یہ دونوں یا ان میں سے کوئی نہیں۔ ن لیگ 2023 کا الیکشن ہارنا شاید برداشت نہ کرسکے۔