سوشل میڈیا کے بغیر آج کی زندگی تصور کیے جانا بھی محال ہے۔ کم از کم شہری علاقوں کی ماڈرن زندگی تک تو یہ ایک مکمل سچ ہے۔ واٹس ایپ سے لے کر فیسبک، انسٹا گرام اور ٹوئٹر تک سب کا ہماری زندگی کے ہر پہلو پر براہ راست اثر ہے۔ وہ سماجی ہو یا سیاسی، قانونی ہو یا مذہبی سوشل میڈیا کی پہنچ سے باہر نہیں۔ معاشی پنڈتوں کے کھاتے دیکھیں تو بھی پتہ چلتا ہے کہ انٹرنیٹ کی بدولت چلنے والے سوشل میڈیا نے بازار کے تصور کو جو وسعت اور انقلاب نما جدت دی ہے وہ پہلے نہ تھی۔ انکے بقول یہاں سیل اینڈ پرچیز کے لیے ایک وسیع و عریض منڈی کے ثمرات میسر ہیں۔ ان معاشی پنڈتوں کی بات کا وزن مان بھی لیا جائے تو بھی ایک بات طے ہے کہ انٹرنیٹ کے زور پر چلنے والے اس سوشل میڈیا پر جس مرضی نے استعمال کے لئے جو مرضی خریدا اور بیچا ہو، اس پر غیر محسوس طریقے سے جو جنس ہاتھوں ہاتھ خریدی گئی وہ ہے شناخت۔ یہ چاہے، مذہبی ہو یا قومی، ریاستی ہو یا نظریاتی، معاشرتی ہو یا پھر معاشی، شناخت نام کی اس جنس کو جو بنیادی اہمیت آج کی دنیا میں ہے وہ شاید ہی کسی تاریخی موڑ پر دفن واقعات میں سے کوئی مورخ نکال پائے۔ تاہم، جو تصادم اس شناخت جنس کی خرید و فروخت نے معاشروں کے ہر تار و پود کو ہلا کر رکھا دیا ہے۔ ہر سطح پر مخالفین اور ساتھی برگیڈیں تشکیل پا چکی ہیں۔ مسلمان ساتھی اور ہر غیر مسلم مختلف درجے پر دشمن، ہر پاکستانی قبول جو قابل قبول پاکستانی شناخت کو نہ مانے وہ غدار، خواتین کے حق میں کہنے والے فیمنسٹ ہیں۔ اب کوئی فیمنسٹ ہو گیا تو وہ ملحد ہے، غدار اور مغرب کا ایجنٹ ہے۔ اب اگر آپ خواتین اور مردوں کے تعلق پر اس بات سے اتفاق نہ کریں تو آپ خواتین بیزار یا misogynist شخص ہیں، آپ میڈیا کی آزادی کی بات کریں ملک میں آزاد رائے دہندگی کی بات کریں تو آپ ملک مخالف۔ اگر آپ میڈیا کی ذمہ داری گنوا دیں تو آپ اتھاریٹیرین۔ آپ فوج کی جانب سے روا رکھی جانے والی آئین شکنی پر تنقید کریں تو پیسے لینے والے غیر ملکی ایجنٹ جب کہ فوج کے حق میں بات کریں تو فوج کے ٹاؤٹ۔ سیاسی حکومت پر تنقید کریں تو ایک طبقہ کہتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کی سازش ہے۔ اگر نہ کریں تو حکومت کے لفافے۔ یہی کچھ بھارت اور دیگر دنیا میں ہو رہا ہے۔ بھارت میں دیکھیے، مودی کی حمایت فاشسٹ قوتوں کا ساتھ تو کہیں معاشی گرو کی تعریف و توصیف۔ بنیاد پرست مسلمان ہیں تو دہشت گرد، لو جہادی، سیکولر ہیں تو ملحد۔ کانگریسی ہو تو دیس واسی، نہ ہو تو آتنک وادی۔ امریکہ میں چین کے حق میں بات کرے تو امریکہ کے خلاف سازشی۔ چین میں امریکی طور کی بات کی تو چین کی ریاست کا غدار۔ شناخت کی جنس نے جو ایک عجیب اور تباہ کن شعور کی شبیہہ معاشروں میں پیوست کی ہے وہ صرف اور صرف تقسیم پیدا کر رہی ہے۔ جہاں کوئی بھی بیانیہ درست نہیں ہے۔ جہاں دوسرے بیانیے کو جگہ دینے کی کوئی روش نہیں ہے۔ ایک دوسرے کا رد ان شناختی اکائیوں کی بنیاد ہے۔ اس صورتحال نے اپنے اپنے بیانیے کو سرخرو کرنے واسطے طاقت کی بھوک کو جنم دیا ہے جس کی وجہ سے اصولوں کی سیاست فیشن سے آوٹ ہو چکی ہے۔ دھتکارے ہوئے بیانیوں کے عرق سے پیدا ہونے والے ان متصادم شناختی سیاسی ماحولیاتی کڑواہٹ کا شکار ہو چکے ہیں۔ اور ایسا پوری دنیا میں ہے۔ برازیلی صدر کے ساتھ حال میں ہی ہوا ایک واقعہ اس کی مثال ہے۔ بولسنارو کو ویکسین نہ لگوانے کی وجہ سے آسٹریلیا کے ایک ریستوران نے اندر داخل نہ ہونے دیا تو انہوں نے کابینہ ممبران کے ہمراہ باہر کھڑے ہو کر پیزا کھایا اور تصاویر اپلوڈ کیں۔ اب صدر کے حامیوں اور مخالفین میں جو گھمسان کا رن پڑا اس میں وہ ایک دوسرے کو گھٹیا سے گھٹیا شناختی لیبل سے نوازتے رہے اور ہر جانب ویکسین ایک سازش یا ایک نعمت سے شروع ہونے والی نعرہ بازی انتقام، انتقام کے نعروں میں ڈھل گئی۔ تاریخ یہ بتاتی ہے کہ جب معاشروں کے درمیان شناخت کے معاملے پر عدم اطمینان سے غیر یقینی پیدا ہو تو طاقت کی اشتہا فاشزم، نازی ازم جیسے منفی، بے رحم مگر طاقت ور ترین نظریات کی قبولیت کے لئے راہ ہموار کرتی ہے۔ ابتر معاشی صورتحال اس میں جلتی پر تیل کا کام کرتی ہے۔ جس کے بعد ریاست اور اس کے بعد خطے اور خطوں کے بعد پوری دنیا جنگ عظیم کی لپیٹ میں آ جاتی ہے۔ اس وقت بھی یہی صورتحال ہے۔ دنیا کی سیاسی دیگ اس وقت ابل رہی ہے۔ نئی صف بندیاں، طاقت کی نئی خوفناک بھوک، نئی غیر یقینیاں، نئی ہولناکیاں اور تناؤ ۔۔۔۔ اس سب کے درمیان امید، بھروسہ، اعتماد یرغمال نظر آتا ہے۔ اس ابلتی دیگ کو اگر سنبھالا نہ گیا تو ایٹم کے دور میں دنیا تیسری جنگ عظیم بھی جلد دیکھ سکتی ہے۔