وقت آگیا ہے کہ الیکشن کا ایسا نظام ہو کہ الیکشن لڑنے والے کو دھاندلی سے ہارنے کا ڈر نہ ہو: وزیر اعظم کا اسمبلی سے خطاب

وقت آگیا ہے کہ الیکشن کا ایسا نظام ہو کہ الیکشن لڑنے والے کو دھاندلی سے ہارنے کا ڈر نہ ہو: وزیر اعظم کا اسمبلی سے خطاب

وزیراعظم عمران خان  کا قومی اسمبلی اجلاس سے خطاب میں ایک جانب اپوزیشن کو انتخابی اصلاحات پر بات کرنے کی دعوت دی ہے دوسری جانب ملک کی ممکنہ خارجہ پالیسی کے حوالے سے بھی واضح پالیسی بیانات دیئے ہیں۔ 


انتخابی اصلاحات پر اپوزیشن کو مذاکرات کی دعوت

وزیراعظم نے  اپوزیشن کو انتخابی اصلاحات پر مذاکرات کی دعوت دیتے ہوئے کہا کہ ملک میں 1970 کے بعد تمام انتخابات متنازع رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے کوشش کی ہے کہ الیکشن کو قابل قبول بنایاجائے، ہم نے پوری اصلاحات کی ہے جس پر ابھی بحث نہیں ہوئی اور  وقت آگیا ہے کہ الیکشن لڑیں لیکن فکر نہ ہو کہ مجھے دھاندلی سے ہرادیا جائے گا۔


وزیراعظم کا کہنا تھاکہ پہلے دن تقریر کرنے کی کوشش تو تقریر نہیں کرنے دی گئی، ہم نے 133 میں سے 4 حلقے ڈیمانڈ کیے تھے، عدالت میں جا کر کیس لڑکر وہ حلقے کھلے، 2013 کے الیکشن پر جوڈیشل کمیشن کی سفارشات ہیں، ہم اس نتیجے پر آئے کہ ای وی ایم لائی جائے، اگر اپوزیشن کی اور تجویز ہے تو ہم سننے کیلئے تیار ہیں۔ ان کا کہنا تھاکہ ای وی ایم مشین ہوتو پولنگ ختم ہونے پر سب رزلٹ آجاتا ہے، اگر ہم اصلاحات نہیں کریں گے تو ہر الیکشن میں یہی سلسلہ ہوگا۔

امریکا کو فوجی اڈے دینے کا معاملہ اور خارجہ پالیسی بیان

اپنی تقریر کے دوران امریکا کو فوجی اڈے دینے اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کا حصہ بننے سے متعلق وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ غیرت کے بغیر نہ کوئی انسان کوئی کام کرتا ہے اور نہ ہی کوئی ملک اٹھتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ 'جب میں اپوزیشن میں بیٹھتا تھا اور پیپلزپارٹی بھی ہمارے ساتھ بیٹھی تھی تو یہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ ہم دہشت گردی کے خلاف امریکا کی جنگ کا حصہ بن رہے ہیں،اپنی زندگی میں پاکستانی ہوتے ہوئے مجھے سب سے زیادہ ذلت اس وقت محسوس ہوئی تھی'۔
وزیراعظم نے کہا کہ 'یہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ ہم امریکا کی فرنٹ لائن اسٹیٹ بن جائیں گے، اس وقت اسمبلی میں میری ایک نشست تھی مگر میں اس وقت بھی کہتا تھا کہ اس جنگ سے ہمارا کیا تعلق ہے، القاعدہ افغانستان میں ہے، مسلح طالبان افغانستان میں ہے، ہم نے کیا کیا ہے جو ہم ان کی جنگ کا حصہ بنیں'۔

عمران خان نے اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے کہا کہ میں چاہتا ہوں کہ میری قوم ہمیشہ کے لیے یہ سیکھے کہ کوئی قوم اس وقت آگے بڑھتی ہے جب وہ اپنی غلطیوں سے سیکھے، ہم نے اس وقت جو حماقت کی، میں ان میٹنگز میں شریک تھا۔

وزیراعظم نے کہا کہ 'فیصلہ کیا گیا تھا کہ امریکا بڑا ناراض ہے، اس کے لیے زخمی ریچھ کا لفظ استعمال کیا گیا کہ کہیں بھی ہاتھ ماردے گا لہذا ہمیں اس کی مدد کرنی چاہیے لیکن ہم نے اس کے بعد جو کیا، کیا قوم کسی اور کی جنگ میں شرکت کرکے اپنے 70 ہزار لوگوں کی قربانی دیتی ہے؟

عمران خان نے کہا کہ 'اپنے ملک سے 150 ارب ڈالر گئے ہوسکتا ہے اس سے بھی زیادہ گیا کیونکہ یہاں تو کوئی کرکٹ ٹیم نہیں آتی تھی تو کوئی سرمایہ کار کیسے آتا یہاں تو انہوں نے ملک کو دنیا کی سب سے زیادہ خطرناک ترین جگہ قرار دے دیا تھا جو وہ کہتے رہے ہم کرتے رہے'۔
کیا ہم سب کمتر انسان ہیں؟
انہوں نے کہا کہ 'امریکا ہمارا دوست ہے تو کبھی سنا ہے کہ آپ کا دوست اپنے ملک میں بمباری کررہا ہو، وہ آپ کا اتحادی ہے اور ڈرون حملے کررہا ہو اور ان حملوں میں جو لوگ مرتے تھے ان کے گھروالے جاکر پاکستانی فوج اور پاکستان سے بدلہ لیتے تھے، اس طرح دونوں طرف پاکستانی مررہے تھے'۔

عمران خان نے کہا کہ 'میں جب کہتا تھا کہ کیوں اجازت دی ہے تو کہا جاتا تھا کیونکہ پاکستان ان کے پیچھے جارہا ہے لہذا ہمیں ایسا کرنا پڑتا ہے'۔

اپنی بات جاری رکھتے ہوئے وزیراعظم نے سوال کیا کہ '30 سال سے لندن میں ہمارا ایک دہشت گرد بیٹھا ہوا ہے، ہم اسے ڈرون ماریں گے تو کیا برطانیہ اجازت دے گا؟ اگر ہم لندن میں ڈرون حملہ کرتے ہیں تو اس کی اجازت دی جائے گی؟ وہ اجازت نہیں دیں گے تو ہم نے اجازت کیوں دی ؟'۔

انہوں نے کہا کہ 'کیا ہم سب -ہیومن ہیں؟ آدھے انسان ہیں؟ ہماری جان کی اتنی قیمت نہیں؟ اجازت دی گئی اور لوگوں سے جھوٹ کہا گیا کہ ہم ڈرون حملوں کی مذمت کرتے ہیں، یہ ذلت تھی کہ پہلے انہیں اجازت دیتے ہیں، پھر اتنا حوصلہ نہیں کہ لوگوں کو بتاتے بلکہ مذمت کی'۔