Get Alerts

پاکستان سالانہ 80,000 ٹن مہلک فضلہ درآمد کرتا ہے، وزارت موسمیاتی تبدیلی کا انکشاف

پاکستان سالانہ 80,000 ٹن مہلک فضلہ درآمد کرتا ہے، وزارت موسمیاتی تبدیلی کا انکشاف
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے موسمیاتی تبدیلی کو بریفنگ دیتے ہوئے وزارت موسمیاتی تبدیلی کے حکام نے انکشاف کیا ہے کہ پاکستان بیرونی ممالک سے سالانہ 80,000 ٹن فضلہ درآمد کرتا ہے۔

کمیٹی کو وزارت موسمیاتی تبدیلی کے حکام کی جانب سے Hazardous Waste Policy سے متعلق بریفینگ دی گئی۔ کمیٹی کو بتایا گیا کہ دس سے زائد ممالک سے مہلک فضلہ آتا ہے۔ ان ممالک میں برطانیہ،ایران، متحدہ ارب عمارات ،سعودی عرب، امریکہ، بیلجیم، جرمنی، سپین، کینیڈا، اٹلی و دیگر ممالک شامل ہیں۔

جوائنٹ سیکرٹری وزارت موسمیاتی تبدیلی سید مجتبیٰ نے کمیٹی کو بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان سالانہ بنیادوں پر اپنا 30 ملین ٹن میونسپل سالڈ ویسٹ پیدا کرتا ہے۔ اس میں سے 10 سے 14 فیصد فضلہ نقصان دہ ہوتا ہے۔

بریفنگ میں بتایا گیا کہ 2019ء میں پاکستان میں 624 کنٹینرز سے بھرے مہلک ویسٹ کو ڈمپ کیا گیا۔ حکام نے کمیٹی کو بتایا کہ سالڈ ویسٹ کی درآمد کیلئے این او سی سے پہلے تمام پہلوٶں کا جائزہ لیا جاتا ہے۔

وزیر موسمیاتی تبدیلی شیری رحمان نے کمیٹی کو بتایا کہ بیرونی ممالک پاکستان کی اجازت کے بغیر فضلہ نہیں پھینک سکتے ہیں اور سب کچھ پاکستان کی اجازت سے ہوتا ہے اور جب سے چین نے فضلہ درآمد کرنے پر پابندی عائد کی ہے تو پاکستان میں فضلہ آنے کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔

انھوں نے مزید کہا کہ ری سائیکلنگ کیلئے ویسٹ کی درآمد کی اجازت دی جاتی ہے لیکن اس میں مہلک ویسٹ کا نہ ہونا شرط ہے۔ شیری رحمان نے کہا کہ جب تک ملک میں ویسٹ کی ڈمپنگ اور ری سائیکلنگ کے انفراسٹرکچر تیار نہیں ہوتی اس وقت تک این او سیز کو معطل کردیا جائے۔

سیکرٹری وزارت موسمیاتی تبدیلی نے کمیٹی کو بتایا کہ سالڈ ویسٹ درآمد کرنے کے لئے این او سیز صوبائی ای پی ایز کی اجازت سے وزارت موسمیاتی تبدیلی دیتی ہے اور مہلک ویسٹ سیالکوٹ،پشاور اور کراچی کے مختلف صنعتوں میں استعمال ہوتے ہیں۔

اجلاس میں پاکستان کیلئے کلائمیٹ فنانسنگ کی ضروریات کا معاملہ بھی زیر غور آیا۔ وزارت موسمیاتی تبدیلی کے حکام نے کمیٹی کو بتایا کہ پاکستان نے پیرس معاہدے کے تحت کاربن کے اخراج کو 2030ء تک پچاس فیصد کم کرنا ہے۔ وزیر موسمیاتی تبدیلی شیری رحمان نے کہا کہ پیرس معاہدہ حقیقت کے برخلاف ہے اور توانائی کو دوسرے ذرائع پر منتقلی کیلئے پاکستان کو 2030ء تک 101 ارب ڈالر کی رقم درکار ہے اور پاکستان معاہدہ کر کے پھنس گیا ہے۔

کمیٹی نے صوبہ سندھ کے تھر کے علاقے میں 40 فیصد گیس لیکج سے میتھین گیس سے ماحولیاتی آلودگی پر بھی بحث کی اور سینیٹر تاج حیدر نے کمیٹی کو بتایا کہ لیکج سے ماحولیاتی تبدیلی پر اثرات ہو رہی ہے اور اس مسئلے کو ختم کرنے کے لیے ایک ارب روپے درکار ہیں مگر کوئی سننے کو تیار نہیں ہے۔

سیکریٹری وزارت موسمیاتی تبدیلی نے کہا کہ 2040 تک اضافی ہائیڈرو پاور پلانٹ کیلئے 50 ارب ڈالر اضافی رقم چاہیے جبکہ بجلی کی ٹرانسمیشن لائنز کو جدید خطوط پر استوار کرنے کیلئے 20 ارب ڈالر چاہیے جبکہ کوئلے کے پاور پلانٹس کو سولر پر منتقل کرنے کیلئے 13 ارب ڈالر درکار ہے۔

عبداللہ مومند اسلام آباد میں رہائش پذیر ایک تحقیقاتی صحافی ہیں۔