حکومتِ پاکستان نے انسانی حقوق کی سب سے بڑی تنظیم کو مفلوج کرنے کی کوشش کی، گارڈئین کی رپورٹ

حکومتِ پاکستان نے انسانی حقوق کی سب سے بڑی تنظیم کو مفلوج کرنے کی کوشش کی، گارڈئین کی رپورٹ
معروف برطانوی جریدے دی گارڈئین کی ایک رپورٹ کے مطابق وزیر اعظم پاکستان عمران خان ، اور ان کی حکومت پر الزام لگایا گیا ہے کہ وہ پاکستان میں بڑھتے ہوئے جبر زیادتیوں اور ظلم و ستم کے خلاف ہونے والے احتساب کو روکنے کے لئے ملک کے آزاد انسانی حقوق کے نگراں ادارے کو "سبوتاژ" کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

قانون سازوں ، کارکنوں اور وکلاء نے برطانوی جریدے گارڈین کو بتایا کہ عمران خان حکومت نے پاکستان کے قومی کمیشن برائے انسانی حقوق (این سی ایچ آر) کو یہ معلومات دینے پر سزا دی ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کے ذریعے انسانی حقوق کی پامالی اور تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ ملک چلانے میں ایک مضبوط کردار ادا کرتی ہے۔

پیر کے روز ، اسلام آباد ہائیکورٹ نے حکومت کو نیشنل کمیشن فار ہیومن رائٹس کے سربراہ کے خالی عہدے کو پُر کرنے کی ہدایت کی ، علاوہ ازیں حکومت پر الزام لگایا گیا کہ وہ نئے کمیشن کے ممبران اور چیئرپرسن کی تقرریوں کو جان بوجھ کر دو سالوں سے روک رہی ہے اور نگرانی کی حالت میں چھوڑ کر اسے التواء کا شکار کر دیا گیا ہے جبکہ حکومت کے  محاسبہ کرنے کے باعث اپنے فرائض سرانجام دینے سے قاصر ہے۔

دوران سماعت انکشاف کیا گیا تھا کہ وزارت انسانی حقوق کی غلط سمری انسانی حقوق کمیشن کے چئیرپرسن اور ممبران کی تقریری میں تاخیر کی وجہ بنی۔

سینیٹ کمیٹی برائے انسانی حقوق کے چیئرمین مصطفی نواز کھوکر نے گارڈین سے بات کرتے ہوئے کہا: "جب سے یہ حکومت اقتدار میں آئی ہے ، نیشنل کمیشن فار ہیومن رائٹس غیر فعال رہا ہے۔ ہم نے یہ مسئلہ دو یا تین بار اٹھایا ، اور اس کے بعد انسانی حقوق سے متعلق سینیٹ کمیشن اس نتیجے پر پہنچا کہ حکومت جان بوجھ کر کمیشن کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔

تقریبا دو سالوں کے دوران این سی ایچ آر نے کام نہیں کیا ہے جس کی وجہ سے پاکستان میں میڈیا کی آزادی اور انسانی حقوق کی پامالی کے  ساتھ ساتھ ایجنسیوں کے ذریعے لاپتہ افراد کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔

NCHR پاکستان میں نسبتاً ایک نیا ادارہ ہے۔ اس کے مخصوص کردہ اختیارات میں انسانی حقوق کی پامالیوں کی آزادانہ تحقیقات کرنا ، حکومت کو انسانی حقوق سے متعلق امور اور قانون سازی کے بارے میں مشورہ دینا ، حکومت کے انسانی حقوق کے قوانین پر عمل درآمد کا جائزہ لینا اور قومی سیاسی ایجنڈے پر اس مسئلے کو فروغ دینا شامل ہے۔

اگرچہ یہ ادارہ 2012 میں قائم کیا گیا، لیکن کمیشن کو صحیح طریقے سے کام کرنے میں تین سال لگے۔ مئی 2019 میں کمیشن کی پہلی میعاد ختم ہو چکی تھی۔ یہ حکومت کے وزارت انسانی حقوق کی ذمہ داری تھی کہ وہ اپنے نئے ممبروں کی تقرری کی نگرانی کرے ، جن کے بارے میں سمجھا جاتا ہے کہ یہ غیر سیاسی تقرری ہیں۔

مصطفیٰ نواز کھوکھر نے گارڈئین کو بتایا کہ تقریبا دو سال بعد ، کسی کو بھی اس کمیشن کا نگران مقرر نہیں کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ خان کی حکومت انسانی حقوق کے حوالے سے بے بس ہے۔

مصطفی نواز کھوکر نے کہا کہ، "عمران خان کو اسٹیبلشمنٹ نے اقتدار میں لائی اور وہ اس کو چیلنج یا یااحتساب نہیں کرنا چاہتے۔" اگر ایسے آزاد ادارے کو مناسب طریقے سے کام کرنے کی اجازت دی جاتی ہے تو پھر اس حکومت کا اصل امیج بین الاقوامی سطح پر سامنے آ جاتا، یہ نہیں چاہتے کہ انسانی حقوق کی پامالیوں کو اجاگر کیا جائے۔

کمیٹی میں عہدے داروں کے لئے ایک اشتہار پہلے مئی 2019 میں دیا گیا مگر بغیر وضاحت کے واپس لے لیا گیا۔ ایک اور اشتہار جولائی 2019 میں جاری کیا گیا ، لیکن پہلے کے برعکس ، ایک شرط شامل کی گئی تھی کہ کمیشن کے کسی بھی رکن کی عمر 65 سال سے زیادہ نہیں ہونی چاہئے ، جسے پھر غیر قانونی قرار دے کر چیلنج کیا گیا۔

پاکستان کے سینیٹ کے ایک وکیل اور سابق قانونی مشیر اختر چیمہ نے گارڈئین سے بات کرتے ہوئے کہا کہ عمر کی حد کی پابندی این سی ایچ آر میں تقرریوں میں تاخیر کا ایک سوچا سمجھا حربہ ہے۔ "حکومت کو معلوم تھا کہ اس قانون کو عدالت میں چیلنج کیا جائے گا اور انتخاب کے عمل میں تاخیر کی جائے گی ، کیونکہ یہ قانون آئین کے منافی ہے اور بالکل ایسا ہی ہوا۔

پاکستان انسانی حقوق ، سیاسی حقوق اور تشدد سے متعلق متعدد بین الاقوامی کنونشنوں کا دستخط کنندہ ہے۔ اختر چیمہ نے الزام لگایا کہ این سی ایچ آر کاان کنونشنوں کی خلاف ورزیوں کی نگرانی کرنا ہے ،اس پر کام نے حکومت کو ناراض کیا جس میں اس نے اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے کی گئی انسانی حقوق کی پامالیوں کو پیش کیا۔

انہوں نے نیشنل کمیشن فار ہیومن رائٹس کی ان رپورٹوں ؤ کا حوالہ دیا ، جس میں اس نے ریاستی  حکام کی جانب سے اقلیتوں کے حقوق کی منظم خلاف ورزی ، اور اوکاڑہ میں کسانوں کے حقوق کی بات کی جن کی زمین پر فوج نے زبردستی قبضہ کیا ہوا ہے۔

انہوں نے کہا ، "پاکستان میں بہت سارے گرے ایریاز ہیں جن پر بات نہیں ہو سکتی جبکہ کمیشن کو عدالتی اختیار حاصل ہے کہ وہ انکوائری شروع کرے ، انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر نجی شکایات وصول کرے ، انکی مکمل تحقیقات کرے اور اپنی رپورٹوں کو شائع کرے ، لیکن اس سب سے حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کو پریشانی ہوتی ہے۔

" نیشنل کمیشن فار ہیومن رائٹس  نے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے چند واقعات رپورٹ کرنے کی کوشش کی اسی وجہ سے اسے سزا دی گئی۔"

دوسری جانب پاکستان کی انسانی حقوق کی وزیر ، شیریں مزاری نے ان تمام الزامات کی تردید کی کہ حکومت انسانی حقوق کی پامالیوں کی تحقیقات میں رکاوٹیں کھڑی کر رہی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ اس نے اکتوبر 2020 میں این سی ایچ آر کے عہدوں کو پھر سے تبدیل کردیا ہے۔ این سی ایچ آر کی تقرریوں میں دیر کی وجہ اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کے دستخط نہ کرنے کی وجہ سے ہے۔

شیریں مزاری نے کہا کہ ، "وزیر اعظم پاکستان نے دسمبر میں حزب اختلاف کے رہنما کو ترجیحات کی ایک فہرست ارسال کی تھی ، لیکن اپوزیشن لیڈر نے ابھی تک ہمیں اپنے نامزد کردہ نام نہیں بھیجے۔" "ہم نے ان کے ناموں کو بھیجنے کے لئے انہیں بار بار یاد دلاتے رہے ہیں۔ سستی صرف اپوزیشن کی طرف سے ہے ، حکومت کی نہیں۔

تاہم ، جب حکومت نے کمیشن کے لئے اپنے نام اپوزیشن لیڈر کو ارسال کئے تو وہ جیل میں تھے۔ (شہباز شریف کو پچھلے سال 28 ستمبر کو منی لانڈرنگ کے الزامات کے تحت گرفتار کیا گیا تھا)۔

نیشنل کمیشن فار ہیومن رائٹس  کے پہلے چیئرمین علی نواز چوہان نے کہا کہ کمیشن نے چار سال کے عرصہ میں 35 رپورٹیں شائع کیں ، جس میں پاکستان میں تشدد کے وجود سے متعلق ایک تفصیلی رپورٹ بھی شامل ہے ، اس رپورٹ خان کی حکومت کو ناراض کردیا ،جو بارہا اس جبر کے وجود کی تردید کرتے رہے۔

علی نواز چوہان نے کہا کہ سابقہ ​​حکومت نے بھی کمیشن کے کاموں پر پابندی عائد کردی تھی ، لیکن خان صاحب کے اقتدار میں آنے کے بعد صورتحال بد ترین ہوگئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ بات واضح ہے کہ پاکستان تشدد کے بین الاقوامی کنونشنوں پرعملدرآمد نہیں کررہا ہے۔ کمیشن کو اس کے کام یا رپورٹنگ کی سزا دینے کے بجائے حکومت کو انسانی حقوق کے معاملات حل کرنے پر توجہ دینی چاہئے۔

علی نواز چوہان نے کہا کہ "وہ چاہتے ہیں کہ ہم پاکستان کا مثبت امیج پیش کرنے کے لئے جھوٹ بولیں ، لیکن مجھے یقین ہے کہ انسانی حقوق کو یقینی بناتے ہوئے ہی پاکستان کے امیج کو بہتر بنایا جاسکتا ہے۔"