پاکستان میں کئی سال سے ترکی کے مختلف ڈراموں کو اردو ڈبنگ کے ساتھ چینلز پر نشر کیا جارہا ہے مگر جو مقبولیت ارطغرل غازی کو ملی ہے، اس کی مثال نہیں ملتی۔ دنیا کے متعدد ممالک میں نشر ہونے کے بعد اب یہ پاکستان ٹیلی ویژن پر نشر کیا جارہا ہے اور فی الحال سیزن 1 چل رہا ہے جبکہ اس کے مجموعی طور پر 5 سیزن ہیں۔
یہ ڈرامہ ایک ایسے خانہ بدوش قبیلے کی کہانی بیان کرتا ہے جو موسموں کی شدت کے ساتھ ساتھ منگولوں اور صلیبیوں کے نشانے پر ہوتا ہے۔ ڈرامے میں 13 ویں صدی کا زمانہ دکھایا گیا ہے اور قائی قبیلہ منگولوں کے حملوں سے بچنے کے لیے نئی منزل تلاش کرتا ہے جس کے لیے قبیلے کے سردار کا بیٹا ارطغرل آگے بڑھ کر کردار ادا کرتا ہے۔ اس ڈرامے کا مرکزی کردار ارطغرل نامی بہادر جنگجو ہیں جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انہوں نے سلطنت عثمانیہ کی بنیاد رکھی۔
ارطغرل ترک زبان کا لفظ ہے جو 2 الفاظ ار اور طغرل سے بنا ہے اور اس کا مطلب جنگجو ہیرو ہے۔
یہاں ایک بات واضح رہے کہ تاریخ میں ارطغرل غازی کے حوالے سے کچھ زیادہ معلومات موجود نہیں ہیں۔ یہ بھی سچ بات ہے کہ ارطغرل غازی کے بارے میں جو کچھ ڈرامے میں دکھایا جا رہا ہے، وہ سب حقیقت پر مبنی نہیں، اس بات کا اعتراف ڈرامہ بنانے والوں نے بھی کیا ہے۔ ڈرامے میں حقیقت کتنی ہے اس بحث سے ہٹ کر یہاں ہم اپنے قارئین کے ساتھ ایک تاریخی دستاویز شئیر کریں گے۔
آپ کو یہ جان کر حیرت ہو گی کہ اردو ادب میں ارطغرل غازی پر چراغ حسن حسرت کی لکھی ایک کتاب موجود ہے جو انہوں نے علامہ محمد اقبال کی خواہش پر لکھی تھی۔
چراغ حسن حسرت نے آج سے 80 برس قبل ارطغرل غازی کی زندگی پر کتاب لکھی تھی۔ یہ عظیم کام علامہ اقبال کی خواہش پر شروع کیے گئے ایک مشن کا حصہ تھا۔ علامہ اقبال کی وفات سے چند ماہ قبل، جون 1937 کا کوئی دن تھا، جب چراغ حسن حسرت جاوید منزل میں حاضر تھے، ان کے ساتھ عبدالمجید سالک اور احمد ندیم قاسمی بھی تھے۔ دورانِ گفتگو علامہ اقبال نے اس بات کا اظہار کیا کہ کچھ عرصہ سے یورپ میں سوانح نگاری کا ایک نیا انداز مقبول ہو رہا ہے، یعنی سوانح نگار جس شخص کے حالات لکھنے بیٹھتا ہے، اس کی عادات و خیالات کو اس انداز میں بیان کر دیتا ہے کہ تصور کی آنکھ اسے دیکھ لیتی ہے۔ اردو میں اس انداز کی کتابیں ابھی نہیں لکھی گئیں۔ اگر کوئی خدا کا بندہ اس کام کا بیڑا اٹھائے اور مسلمان فرماں رواﺅں، عالموں، شاعروں اور ادیبوں کے حالات سیدھی سادی زبان میں اس طرح بیان کر دیے جائیں کہ عام لوگ بھی انھیں ذوق وشوق سے پڑھیں ۔ یہ اُردو کی بہت بڑی خدمت ہو گی۔
علامہ صاحب کی اسی خواہش کو عملی جامہ پہناتے ہوئے چراغ حسن حسرت نے مختلف موضوعات پر قلم اٹھایا، بالخصوص بچوں کے لیے چھوٹے چھوٹے تاریخی، اسلامی، اخلاقی اور سوانحی کتابچے تحریر کیے۔ انھی کتابچوں میں سے ایک ارطغرل بھی ہے۔ 23 صفحات پر مشتمل یہ کتابچہ تقریباً 80 برس قبل لکھا گیا۔