مریض: ڈاکٹر صاحب آپ نے نرس تو بہت اچھی رکھی ہوئی ہے۔ اُسے دیکھتے ہی میں ٹھیک ہو گیا۔
ڈاکٹر: ہاں جانتا ہوں! تھپڑ کی آواز باہر تک آئی تھی۔
ایک تھپڑ کا تذکرہ پاکستان مسلم لیگ کی رہنما مریم نواز نے بھی کیا تھا، جو غالباً لانگ مارچ کے حوالے سے تھا۔ لانگ مارچ کے اختتام پر سب حیرت اور حیرانگی میں تھے۔ کسی کو یقین ہی نہیں آرہا تھا کہ عمران خان آئے اور آ کر واپس لوٹ بھی گئے۔
پاکستان تحریک انصاف کے سپورٹرز، عہدیدار اور وہ صحافی صاحبان جو اس کو ناصرف حقیقی آزادی مارچ قرار دے رہے تھے بلکہ وہ عمران خان کے اس لانگ مارچ کو بارہ مصالحے کی چاٹ بنا کر بیچنا بھی چاہتے تھے، عمران خان کی واپسی کے اعلان پر حیران رہ گئے۔
عمران خان سے بہت بڑی غلطی ہوئی بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ اس مارچ کا فیصلہ عمران خان کے سیاسی کیرئیر کی سب سے بڑی غلطی تھی۔ عمران خان اگر لانگ مارچ کرنا چاہتے تھے، ضرور کرتے مگر اتنی جلدی اور افراتفری میں اس کی تاریخ کا اعلان نہ کرتے۔
عمران خان کو لانگ مارچ کی تاریخ دینے سے قبل حکومت اور طاقتور اداروں پر پریشر بڑھانا چاہیے تھا۔ وہ اس مارچ سے قبل اپنی پارٹی کے رہنماؤں سے طویل مشاورتیں کرتے۔ ہر پہلو کا بہت باریک بینی سے جائزہ لیتے، مگر ایسا کچھ نہ ہوا۔ اپنی حکومت کا تختہ اُلٹنے کے بعد عمران خان نے طوفانی جلسوں کا شیڈول طے کیا۔ جلسے کئے۔ نئی حکومت اور اسٹیبلشمنٹ پر دباؤ بڑھانے کی کوشش کی، جس میں وہ کسی حد تک کامیاب بھی ہوئے مگر عمران خان نے خود اپنی کامیابی کو ناکامی میں بدل دیا۔
آج حکومت بے حد خوش ہے۔ وہ جانتی ہے کہ اب عمران خان دوبارہ اسلام آباد آنے سے قبل ہزار بار سوچیں گے۔ لانگ مارچ کے اختتام پر اگرچہ عمران خان نے حکومت کو چھ دن کا وقت دیا ہے کہ وہ اسمبلیاں تحلیل کر کے جون میں الیکشن کا اعلان کرے، مگر پی ٹی آئی کے اس الٹی میٹم سے حکومت کو اب کوئی فرق پڑنے والا نہیں ہے۔
ایک کنجوس آدمی ریسٹورنٹ میں داخل ہوا اور آڈر دیا کہ آٹھ آنے کا سالن اور ایک روٹی لے آؤ۔ ویٹر تھوڑی دیر میں سالن اور روٹی لے کر واپس آیا تو کنجوس آدمی نے دیکھا کہ سالن میں مکھی پڑی ہے۔ اُس نے غصے سے ویٹر کو کہا، سالن میں مکھی ہے۔ ویٹر نے برجستہ جواب دیا۔ تو آٹھ آنے کے سالن میں کیا بھیڑ بکری آتی ہے؟
ایسا ہی حال کچھ پاکستان تحریک انصاف کے حقیقی آزادی مارچ کے ساتھ ہوا۔ تین چار دن کے نوٹس پر عمران خان نے مارچ کا اعلان کیا اور پھر پی ٹی آئی کا سوشل میڈیا اُسے حقیقی آزادی مارچ بھی قرار دیتا رہا، مگر وہ یہاں یہ بات بھول گئے کہ پاکستانی شادیوں پر جانے کی تیاریاں بھی مہینوں پہلے شروع کر دیتے ہیں۔ یہ تو پھر لانگ مارچ تھا جس پر پاکستان تحریک انصاف کا بہت کچھ داؤ پر لگا ہوا تھا۔
پاکستان تحریک انصاف کا یہ آزادی مارچ یقیناً خان صاحب کیلئے بھی ایک ڈراؤنا خواب بن چکا ہوگا۔ کیونکہ بقول خون ان کے وہ 20 لاکھ لوگوں کو لانگ مارچ اور دھرنے کی دعوت دے چکے تھے۔ خان صاحب نے دو ٹوک اپنے جلسوں میں کہا تھا کہ ہم اسلام آباد آکر دھرنا دیں گے اور انتخابات کا اعلان کروا کر ہی واپس لوٹیں گے۔ مگر پھر کسی نے خان صاحب کو بتایا کہ سر اس بار فرمائشی پروگرام نہیں ہے، اس بار ہم خود آئے ہیں اور ہمارے لندن والے کزن طاہر القادری صاحب بھی اس بار ساتھ نہیں ہیں۔ یہ دھرنا ہمیں اپنے بل بوتے پر دینا ہوگا۔ وہ سارے مسائل جب خان صاحب کے سامنے رکھے گئے اور انہوں نے خود بھی آکر دیکھ لیا کہ آزادی کے خواہش مند تو گھروں سے ہی نہیں نکلے تو واپسی کا راستہ ہی بہتر ہوگا۔
مجھے ایک لطیفہ یاد آ رہا ہے۔ بیوی مزے مزے سے گول گپے کھا رہی تھی۔ 20 سے 30 کھا لیے تو پھر اُس نے شوہر سے پوچھا، 10اور کھا لوں؟ شوہر: ناگن! کھا لے۔ بیوی نے شوہر کو تھپڑ مارا اور بولی۔ ناگن کس کو بولا؟ شوہر: ارے جان، میں نے تو کہا ہے نہ گن، کھالے اور جتنے کھانے ہیں۔
پاکستان تحریک انصاف کا حقیقی آزادی مارچ جب اسلام آباد پہنچا تو وہاں بھی معاملہ بندے گننے اور نہ گننے پر آٹھہرا۔ 20 لاکھ بندوں کو اسلام آباد لانے کا دعویٰ ہو چکا تھا۔ حقیقی آزادی کے لانگ مارچ کے غبارے سے ہوا نکل چکی تھی۔ مجھے یہ سوال کرنے کی اجازت دیں کہ پی ٹی آئی کو یہ غلط فہمی کیوں ہوئی کہ وہ 20 لاکھ لوگوں کو اسلام آباد لانے میں کامیاب ہو جائیں گے؟ غالباً 20 لاکھ بندوں کی فگر بھی خان صاحب نے اس لیے دی تھی کہ اُنہیں پتہ تھا کہ جب محترمہ بے نظیر بھٹو 88ء میں انگلینڈ سے واپس وطن لوٹی تھیں تو لاہور میں 20 لاکھ کے لگ بھگ افراد اُن کے استقبال کیلئے پہنچے تھے۔ لاہور کی سڑکوں پر حقیقی معنوں میں لوگوں کا سمندر تھا۔ اُن عوام کو کسی ادارے نے سڑکوں پر لانے کا کارنامہ سرانجام نہیں دیا تھا۔ یہ لاکھوں لوگ خود اپنی مرضی سے پورے پاکستان سے اپنے قائد کے استقبال کیلئے لاہور میں جمع ہوئے تھے۔
1988ء میں محترمہ بے نظیر بھٹو پاکستان کی وزیراعظم بنیں۔ 88ء کے الیکشن میں اور اس سے قبل جس طرح لاکھوں لوگ محترمہ شہید بینظیر بھٹو کیلئے سڑکوں پر آئے تو اس بات پر زیادہ تعجب نہیں کیا جا سکتا تھا کہ وہ بھاری اکثریت سے انتخابات جیت جائیں گی۔ مگر شاید فیصلے کہیں اور بھی لئے جاتے ہیں۔ محترمہ کو الیکشن میں سادہ اکثریت دی گئی اور وہ بھی صرف دو سال بعد قومی اسمبلی تحلیل کر کے چھین لی گئی۔
محترمہ بے نظیر بھٹو نے قومی اسمبلی کی تحلیل اور اپنی برطرفی کو غیر آئینی اور غیر قانونی قرار دیا اور یہ بھی کہا کہ اُنہیں شک ہے، پاکستان پیپلز پارٹی کو نئے انتخابات کے ذریعے دوبارہ اقتدار میں آنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
محترمہ بے نظیر بھٹو کے مقابلے میں عمران خان کو ذرا برابر شک نہیں کہ اُنہیں دوبارہ اقتدار میں آنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ لہٰذا وہ فوری انتخابات میں جانا چاہتے ہیں، جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ پروگرام بدل چکا ہے۔ غلطی کو سدھارنے کا تہیہ کیا جا چکا ہے۔ الیکشن اس سال ہوں یا اگلے سال، خان صاحب کسی خوش فہمی میں نہ رہیں اور اگلے کسی بھی حقیقی آزادی یا غیر حقیقی آزادی لانگ مارچ کو شروع کرنے سے قبل اچھی طرح سوچ سمجھ کر فیصلہ کریں، ورنہ اس بار کی طرح دوبارہ بہت بڑی غلطی کے ساتھ واپس جانا پڑے گا۔
ٹیگز: Election, establishment, Imran Khan, Long March, pakistan, PTI, اسٹیبلشمٹ, الیکشن, پاکستان, پی ٹی آئی, عمران خان, لانگ مارچ