تنقید سے پہلے اپنی غلطیاں تسلیم کریں؛ سپریم کورٹ کا جین میریٹ کو خط

کیا 1953 میں ایرانی تیل پر قبضہ جمانے کے لیے محمد مصدق کی منتخب جمہوری حکومت کا تختہ الٹنے کی کارروائی کو سات دہائیوں تک دبائے رکھنے کے بعد اب سامنے نہیں لایا جانا چاہیے؟ کیا یہ اقدام مجرمان اور متاثرین کے لیے کچھ نہ کچھ تشفی کا باعث نہیں بنے گا؟

تنقید سے پہلے اپنی غلطیاں تسلیم کریں؛ سپریم کورٹ کا جین میریٹ کو خط

لاہور میں عاصمہ جہانگیر کانفرنس کے موقع پر پاکستان میں تعینات برطانوی ہائی کمشنر جین میریٹ نے تقریر کرتے ہوئے سپریم کورٹ آف پاکستان کے اس فیصلے پر تنقید کی تھی جس میں پاکستان تحریک انصاف کو انٹرا پارٹی الیکشن نہ کروانے کی پاداش میں انتخابی نشان سے محروم کر دیا گیا تھا۔ چیف جسٹس سپریم کورٹ قاضی فائز عیسیٰ کی ہدایت پر رجسٹرار سپریم کورٹ نے جین میریٹ کے اس اعتراض کے جواب میں ان کے نام خط لکھا ہے جس میں انتخابی نشان سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے اور بعض دیگر معاملات کو واضح کیا گیا ہے۔ اس خط کے مندرجات درج ذیل ہیں؛

محترمہ مس جین میریٹ!

حکومت برطانیہ کی جانب سے جمہوریت اور انتخابات کی اہمیت اور آزاد معاشرے کی ضرورت پر جس دلچسپی کا اظہار کیا گیا اور یہ دلچسپی عاصمہ جہانگیر کانفرنس کے موقع پر آپ کی تقریر سے ظاہر ہوئی، یہ رجحان خوش آئند ہے۔

پاکستان میں انتخابات قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں کی مدت ختم ہونے کے 90 روز میں ہونے چاہیے تھے مگر اس وجہ سے وقت پر نہ کروائے جا سکے کیونکہ صدر پاکستان اور الیکشن کمیشن کے مابین الیکشن کی تاریخ دینے کے اختیار سے متعلق اختلاف موجود تھا۔ سپریم کورٹ نے یہ معاملہ محض 12 روز میں سلجھا دیا اور یوں پورے پاکستان میں عام انتخابات 8 فروری 2024 کو منعقد ہو گئے۔

ماضی میں کئی سیاست دانوں کو سپریم کورٹ اس بنا پر الیکشن لڑنے سے نااہل قرار دے چکی ہے کہ وہ صادق اور امین کے اخلاقی معیار پر پورے نہیں اترتے۔ تاہم موجودہ سپریم کورٹ کے 7 رکنی لارجر بنچ نے ماضی کے اس فیصلے کو کالعدم قرار دیتے ہوئے تسلیم کیا کہ سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ آئین اور قانون کی روح سے غیر مطابقت رکھتا ہے۔

سیاسی جماعتوں میں جمہوری رویہ رائج کرنے سے متعلق پارلیمنٹ کا منظور کردہ الیکشن ایکٹ 2017  سیاسی جماعتوں کے اندر جمہوریت کو فروغ دینے، شخصیت پرستی اور ڈکٹیٹرشپ کا راستہ روکنے کے لیے مقررہ مدت کے بعد انٹرا پارٹی الیکشن کروانا لازمی قرار دیتا ہے۔ جمہوری اصولوں کی پاسداری یقینی بنانے کے لیے الیکشن ایکٹ قرار دیتا ہے کہ اگر کوئی سیاسی جماعت مقررہ وقت پر انٹرا پارٹی الیکشن نہیں کرواتی تو وہ انتخابی نشان کے لیے نااہل قرار پاتی ہے۔ ایک سیاسی جماعت جس نے خود بھی اس قانون کے حق میں ووٹ دیا تھا، انٹرا پارٹی الیکشن کروانے میں ناکام ثابت ہوئی۔ سپریم کورٹ نے اپنا فیصلہ قانون کے عین مطابق سنایا۔ لہٰذا معذرت کے ساتھ، مذکورہ فیصلے سے متعلق آپ کی تنقید غیر منصفانہ تھی۔

یہ بھی قابل ذکر ہے کہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ موجودہ چیف جسٹس ہی نے عوامی اہمیت کے مقدمات براہ راست عوام کو دکھانے کا حکم دیا۔ اس حکم سے عوام سپریم کورٹ کی پوری کارروائی خود دیکھنے کے قابل ہوئے تاکہ شفافیت کے ساتھ دیکھ سکیں کہ سپریم کورٹ میں کس عمل سے گزر کر فیصلوں تک پہنچا جاتا ہے۔ انٹرا پارٹی انتخابات اور انتخابی نشان سے متعلق کیس کی کارروائی بھی بہت سے دیگر مقدمات کی طرح پوری قوم کو براہ راست دکھائی گئی تھی۔

تازہ ترین خبروں، تجزیوں اور رپورٹس کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں

یہ بات خوش آئند تھی کہ آپ نے اپنی تقریر میں بار ہا 'آزاد معاشروں' کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ان کا قیام فعال جمہوریت کے لیے نہایت ضروری ہوتا ہے۔ آپ کو یہ جان کر خوشی ہو گی کہ سپریم کورٹ نے معلومات تک رسائی کے عوامی حق کو تسلیم کیا ہے اور اسے خود پر بھی لاگو کیا ہے۔

ماضی کی فاش غیر جمہوری غلطیوں پر اڑے رہنے سے موجودہ اور آنے والی نسلوں کا نقصان ہوتا ہے اور تشدد کا دائروی سفر جاری رہتا ہے۔ ہمیں سچائی کو تسلیم کر لینا چاہیے کیونکہ سچ ہمیں نجات دلاتا ہے۔

کیا 1953 میں ایرانی تیل پر قبضہ جمانے کے لیے محمد مصدق کی منتخب جمہوری حکومت کا تختہ الٹنے کی کارروائی کو سات دہائیوں تک دبائے رکھنے کے بعد اب سامنے نہیں لایا جانا چاہیے؟ کیا یہ اقدام مجرمان اور متاثرین کے لیے کچھ نہ کچھ تشفی کا باعث نہیں بنے گا؟ کیا اس اقدام سے باہمی اعتماد یا ممکنہ طور پر دوستی اور امن کی کونپل نہیں پھوٹے گی؟

جسے 'یہودی صیہونی خواہشات' کے طور پر بیان کیا جاتا ہے، برطانوی حکومت نے 2 نومبر 1917 کو محض ایک فرد، یعنی اپنے ہی ایک شہری کو خط لکھ کر اسے آباد کار کولونیل ریاست قائم کرنے کے فیصلے سے آگاہ کیا۔ اس فیصلے سے متعلق مقامی لوگوں کی رائے پوچھی گئی جو سب سے زیادہ متاثر ہوئے اور نا ہی اس میں برطانوی عوام کی مرضی شامل کی گئی۔ یہ فیصلہ یکطرفہ طور پر برطانوی حکومت نے کیا، نہ کہ برطانوی پارلیمنٹ نے۔ بیلفور اعلامیہ وہ بنیاد بنا جس پر ایک نسلی ریاست کا قیام عمل میں لایا گیا۔ وہ لوگ جو ہمیشہ سے وہاں رہتے آئے تھے، انہیں اس نسلی ریاست سے بے دخل کر دیا گیا؛ انہیں محصور کر دیا گیا، ان کی توہین کی گئی، انہیں حقوق سے محروم کیا گیا، ان پر بہیمانہ تشدد کیا گیا، انہیں اپاہج بنایا گیا اور بہت سوں کو قتل بھی کیا گیا۔

آئیے ہم نسلی برتری کی بنیاد پر آبادکاری کے تعصب سے چھٹکارا حاصل کریں۔ ایک قوم کی پہچان ہی یہ بن کر رہ گئی ہے کہ اس نے ہزاروں کی تعداد میں بچوں اور لاکھوں کی تعداد میں معصوم شہریوں کی جان لی ہے اور یہ بہت قابل نفرت بات ہے۔ آئیے ہم سب مساوات، امن اور انسانیت کی آواز بننے کے لیے اٹھ کھڑے ہوں۔

آئیے ایمانداری دکھائیں اور آزاد معاشرے کی روح کے مطابق، جیسا کہ آپ نے اپنی تقریر میں حوالہ دیا ہے، ماضی کی غلطیوں کا اعتراف کریں۔ اور نسلی برتری اور اس سے جڑے کمتر انسانی حیثیت جیسے تصورات سے چھٹکارا حاصل کریں۔

سپریم کورٹ آف پاکستان نے اپنی ماضی کی غلطیوں کو تسلیم کیا ہے، تفصیل کے ساتھ ان پر غور کیا ہے اور یہ یقینی بنانے کے لیے ایسے اقدامات اٹھائے ہیں کہ یہ غلطیاں دوبارہ نہ ہوں۔ چونکہ برطانوی شہنشاہ چارلس III کی حکومت نے آزاد معاشروں اور جمہوریت کی ضرورت پر زور دیا ہے اور سپریم کورٹ آف پاکستان کے فیصلوں پر تنقید کی ہے، آپ کو خود بھی ان اصولوں کی پاسداری کرنی چاہیے۔