پیپلز پارٹی کا یومِ تاسیس: بلاول کو پرانی سیاست سے پیچھا چھڑانا ہوگا

پیپلز پارٹی کا یومِ تاسیس: بلاول کو پرانی سیاست سے پیچھا چھڑانا ہوگا
آج پیپلز پارٹی کا باونواں یعنی 52nd یومِ تاسیس ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی ذوالفقار علی بھٹو کی قیادت میں 30 نومبر 1967 کو وجود میں آئی۔ لیکن یہ جماعت آج اس جماعت کا عشرِ عشیر بھی نہیں جو یہ اپنے عروج کے دور میں تھی۔ ایک وقت میں پاکستان کے ’چاروں صوبوں کی زنجیر‘ کہلانے والی جماعت آج اگر محض ایک صوبے کی جماعت ہے تو اس کی وجہ محض محلاتی سازشوں یا ریاستی اداروں اور دہشتگردوں کی طرف سے کی گئی قتل و غارت نہیں۔ اس میں پیپلز پارٹی کی اپنی غلطیاں بھی شامل ہیں۔



ایسے موقع پر تلخ تاریخ کو یاد رکھنا بھی ضروری ہوتا ہے۔ بینظیر بھٹو کو گزرے ابھی زیادہ عرصہ نہیں بیتا۔ اور آصف علی زرداری تو لمحہ موجود میں بھی پاکستانی سیاست کا ایک انتہائی اہم حصہ ہیں۔ لیکن پیپلز پارٹی کی پہلی حکومت 1971 میں بنی تھی۔ 1973 میں ملکی آئین بنا جس میں حکومت کی آئینی مدت پانچ سال طے کی گئی اور پیپلز پارٹی کی آئینی مدت بھی 14 اگست 1973 سے ہی شروع ہوئی جس دن ذوالفقار علی بھٹو نے وزارتِ عظمیٰ سنبھالی۔ 1977 میں انہوں نے قبل از وقت انتخابات کروانے کا فیصلہ کیا۔ پیپلز پارٹی کو اقتدار میں آئے آئینی اعتبار سے محض ساڑھے تین برس بیتے تھے لیکن دراصل اقتدار اس کو 1971 میں ہی منتقل ہو چکا تھا۔ چھ سال کے بعد ایک نیا مینڈیٹ ذوالفقار علی بھٹو کو ضروری محسوس ہوا، اور انہوں نے مارچ 1977 میں پاکستان کے دوسرے جمہوری انتخابات کا اعلان کر دیا۔

تاہم، ذوالفقار علی بھٹو انتخابات میں اپنی فتح کے حوالے سے زیادہ پرامید نہیں تھے۔ انہیں خدشہ تھا کہ ان کی جماعت نے جس طرح 1970 انتخابات میں پنجاب اور سندھ میں بڑی کامیابی حاصل کی تھی، وہ اس مرتبہ ان کو نصیب نہ ہو پائے گی۔ لہٰذا انہوں نے انتخابات میں حکومتی مشینری کا استعمال کرتے ہوئے اپنے مخالفین کو اٹھوانا شروع کر دیا۔ نتیجتاً بھٹو صاحب نہ صرف خود بلامقابلہ منتخب ہو گئے بلکہ چاروں صوبوں میں وزرائے اعلیٰ کے امیدوار بھی بلامقابلہ منتخب ہوئے۔ انتخابات کے نتائج سامنے آئے تو بھٹو صاحب کی حیرت کا کوئی ٹھکانہ نہ تھا۔ ملک بھر سے پیپلز پارٹی نے کلین سوئیپ کر دیا تھا۔

ڈاکٹر مبشر حسن اپنی کتاب The Mirage of Power میں لکھتے ہیں کہ لاہور میں آٹھ  کی آٹھ نشستیں جیتنے پر بھٹو صاحب حیرت زدہ رہ گئے۔ انہیں یقین دلایا جا چکا تھا کہ وہ بغیر دھاندلی کے انتخابات جیت ہی نہیں سکتے۔ انہوں نے پریشان ہو کر مبشر حسن سے پوچھا کہ کیا لاہور میں دھاندلی کی گئی ہے، جس پر مبشر حسن کا جواب تھا کہ ایسا کچھ نہیں ہے، لوگ آپ کے ساتھ ہیں۔



تو پھر ایسا کیا ہوا کہ چار ماہ کے اندر حکومت کو برطرف کر کے مارشل لا لگا دیا گیا اور پھر بھٹو صاحب کو پھانسی بھی دے دی گئی، مگر ملک میں کوئی بھونچال نہ آیا؟

پولیٹیکل سائنس کی ایک بنیادی تھیوری ہے کہ کوئی بھی حکومت خواہ کتنی ہی مقبول ہو، وہ صرف اس وقت تک قائم رہ سکتی ہے جب تک اس کی اپوزیشن اس بات پر متفق ہے کہ حکومت کو ہٹایا نہیں جانا چاہیے۔ ایک بار جب آپ کے تمام مخالفین فیصلہ کر لیں کہ آپ کو ہٹایا جانا چاہیے تو حکومت کو بچایا نہیں جا سکتا۔

بھٹو صاحب نے اپنی حکومت کے دوران ہر وہ کام کیا جس سے ان کے مخالفین ان کے دشمن ہو جائیں۔ شیخ مجیب الرحمان سے دشمنی وہ اس سطح پر لے گئے کہ جہاں بنگالیوں سے بات کرنے کے لئے جانے والے نمائندہ وفد تک کو روک دیا کہ جو وہاں جائے گا اس کی ٹانگیں توڑ دی جائیں گی۔



1970 کے انتخابات میں تین کامیاب ترین جماعتیں شیخ مجیب کی عوامی لیگ، بھٹو صاحب کی پیپلز پارٹی اور عبدالولی خان کی نیشنل عوامی پارٹی تھیں۔ یہ تینوں بائیں بازو کی جماعتیں تھیں، اور عام حالات میں نظریاتی حلیف سمجھی جا سکتی تھیں۔ مگر عوامی لیگ کے ساتھ معاملات یہاں تک پہنچ گئے کہ بنگال ٹوٹ کر بنگلہ دیش بن گیا۔ اور اس کے بعد نیپ پر بھی بھٹو صاحب نے ہر طرح کی سختیاں روا رکھیں۔ یہاں تک کہ نیپ کے خلاف غداری کے مقدمات بنا کر اس کے تمام لیڈران کو جیلوں میں ڈال دیا گیا۔

نتیجہ یہ نکلا کہ جب بھٹو صاحب پر برا وقت آیا تو ان کا ساتھ دینے کے لئے کوئی نظریاتی حلیف موجود نہ تھا۔

آج پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نواز دونوں ملک کی بڑی جماعتیں نظریاتی طور پر ایک دوسرے کی مخالف ہیں، لیکن جمہوریت کے لئے ان دونوں نے ایک میثاق پر دستخط کیے تھے۔ زرداری صاحب جو مفاہمت کے چیمپیئن سمجھے جاتے ہیں، فروری 2018 میں اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مل کر سینیٹ میں صادق سنجرانی کو چیئرمین بنوانے میں پیش پیش تھے۔ بلوچستان میں مسلم لیگ حکومت گرنے میں بھی کہا جاتا ہے کہ ان کا ہاتھ تھا۔ لیکن آخر میں پیپلز پارٹی سندھ میں پہلے سے بھی کم اکثریت کے ساتھ حکومت بنانے میں کامیاب ہوئی، مسلم لیگ کو پنجاب بھی نہ مل سکا، اور اس وقت زرداری صاحب جیل میں ہیں جب کہ نواز شریف صاحب بیماری کے نام پر جلا وطنی اختیار کر چکے ہیں۔



سیاسی جماعتیں اگر اپنی صفوں میں ایک بنیادی ایجنڈے پر اتفاق نہیں کریں گی تو تاریخ میں گم ہو جائیں گی۔ افسوس، کہ بار بار اس غلطی کا احساس کر کے اس کا ازالہ کرنے کا عہد کرنے والی جماعتیں ہر بار یہی غلطی دہراتی بھی ہیں۔ اس یومِ تاسیس پر پیپلز پارٹی کے نوجوان لیڈر بلاول بھٹو زرداری بھی اس تاریخ کو مدنظر رکھیں، اور اپنی جماعت کو اس سیاست سے دور رکھیں، جس نے ان کے نانا کی جان لی اور جس کی وجہ سے ان کے والد آج قید و بند کی صعوبتوں کا شکار ہیں۔

ویب ایڈیٹر

علی وارثی نیا دور میڈیا کے ویب ایڈیٹر ہیں.