Get Alerts

ستانوے فیصد مسلمان آبادی اس خوف میں مبتلا ہے کہ یہاں یہودی سازش ہورہی ہے

ستانوے فیصد مسلمان آبادی اس خوف میں مبتلا ہے کہ یہاں یہودی سازش ہورہی ہے
بنیے اور ملا کا قصہ تو بعد میں، پہلے تو میری اپنی سن لیں،

پانچ سال ہوئے ہیں، میرے ساتھ اکثر ایسا ہی ہورہا ہے، جب سردیاں شروع ہوتی ہیں، تو سال بھر میں جو چھٹیاں بچاکر رکھی ہوتی ہیں انہیں گذارنے کیلئے سندھ جانے کا پروگرام ہوتاہے، لیکن ہر بار فیض آباد بندہی ہوتا ہے، گذشتہ سال ایسا کچھ نہ ہوا تو ایک خوشگوار سی پریشانی نے جکڑ لیا، سوچا کہیں اس سے زیادہ تو برا نہیں ہوگا، حالات کے ڈسے ہم جیسے لوگ، جنہیں اچھے حالات میسر ہوجائیں تو انہیں ایک اور خوف لاحق رہتا ہے کہ یہ اچھے دن آنے والے برے دنوں کا پیش خیمہ تو نہیں، اس بار بھی ایسا ہی ہوا ہے، ہم نے سندھ جانے کی تیاری کیا پکڑی تو لبیک والوں نے پچھلے سالوں کی طرح اس بار بھی راستے بند کردیئے۔ اب ریاست مدینہ والوں کا انتظار ہے کہ وہ اپنی رٹ قائم کرتے ہیں کہ لیٹ جاتے ہیں، ہم تو انگلی دانت میں دبائے ناخن چبا رہے رہیں ، اور سوچ رہے کہ اس بار معلوم نہیں چھٹیاں نصیب بھی ہونگی یا نہیں؟

لیکن ملا اور بنیے کا قصہ کافی پرانا ہے اس لیئے اس کا بیان بعد میں،

پہلے بابری مسجد کو شہید کرنے کے بعد ہونے والے احتجاج میں جو کچھ پکے مسلمانوں نے کیا اس کی رو داد بیان کرنا ضروری ہے، لگ بھگ انتیس سال پہلے کی بات ہے، بھارت سے خبر آئی کہ بابری مسجد شہید کردی گئی ہے، ملک بھر میں بھارت کے خلاف جلوس نکلے، نئی جوانی اور ایمان زوروں پر تھا، اور پھر جب آس پاس ایک جیسا ہی ماحول ہو تو کوئی بھی مضبوط انسان ہو خود کو اس سے الگ نہیں رکھ سکتا، ہم تو ویسے بھی کسی کھاتے میں نہیں تھے۔ پیش امام صاحبان اور ان کو تنخواہیں دینے والے معززین شہر جلوس میں آگے آگے تھے، ہمارے شہر بدین میں اس وقت چند ہی ایسے ہندو تھے، جن کے بدن کی چمڑی پر دولت کی معمولی سی چمک تھی، باقی تو کولھی، میگھواڑ کاریے تھے، جن کے بدن پر کپڑے اور توے کی روٹی چھوٹی تھی، تب بھی اور آج بھی ہے۔ اللہ اکبر کے نعرے بلند ہورہے تھے، جلوس کے شرکا کے جذبات دیدنی تھے، ایمان بلندی پر تھا، بدین شہر کے قائد اعظم روڈ پر رواں دواں جلوس جیسے جیسے آگے بڑھتا، جذبہ ایمانی سے سرشار جانبازوں کی تعداد میں اضافہ ہورہا تھا، کولھی میگھواڑ یا کاریے، جن کی درجن بھر دکانیں مشکل سے ہی تھیں نے نعروں کی ہیبت سے اپنے کاروبار کو بند کرکے گھروں میں پناہ لے لی ، ان کے ادھ ننگے بچے سڑک پر کھڑے دیکھتے رہے، پہلے حیران اور اس کے بعد وہ بھی دینی نعروں کے ردھم میں شامل ہوگئے، جلوس بڑھتا جارہا تھا، جب وائن شاپ پر پہنچا تو آواز آئی کہ اندر چلو، پھر توڑ پھوڑ شروع ہوگئی، لاٹھیوں والے لاٹھیاں برسا کر بابری مسجد کی شہادت کا بدلہ لے رہے تھے، جب کہ باقی دارو کی بوتلیں اٹھا کر بھارت کے خلاف اپنا غصہ ٹھنڈا کرنے کا بندوبست کر رہے تھے، وائن شاپ کا اسٹاف اپنی جان بچاکر بھاگ چکا تھا، اور اسٹور کو خالی کرنے کا کام جلوس میں شامل لوگوں نے کردیا۔ کسی نے سانس کے اگلے لمحے کی ضمانت نہ ہونے کے فلسفے پر عمل کیا ، کڑاک سے پوا کھولا اور وہیں موڈ بنانا شروع کردیا۔ توڑ پھوڑ اور دارو لوٹنے کا جواز یہ تھا کہ محبت اور جنگ میں سب جائز ہوتا ہے، لیکن کون ان کو سمجھاتا کہ محبت اور جنگ کی اپنی حدود ہوتی ہیں، سب کچھ کہیں بھی جائز نہیں ہوتا۔

اب آتے ہیں بنیے اور ملا کے قصے کی طرف، دہائیوں سے پاکستان کی بائیں بازو کی جماعتوں میں یہ قصہ عام رہاہے، ملا نے بنیے کو کیسے وہابی قرار دیکر اس کی دکان بند کرادی تھی۔ بات کو آگے بڑھانے سے پہلے اس بات کا جاننا ضروری ہے کہ بنیے کو وہابی قرار دینے کے پیچھے نیت کیا تھی۔

یہ کوئی تیس چالیس سال پہلے کی بات ہے، جب ہم بہت چھوٹے تھے، ان دنوں ربیع الاول کو عرس کا مہینہ کہا جاتا تھا، بارہ ربیع الاول کی رات کو مولود کی محفل ہوتی، پاکستان کی ایک بڑی اکثریت سنی ہے، جیسے جیسے دنیا تبدیل ہوئی تو دیوبندی سنی ہوگئے اور ہم جو اپنے آپ کو فخریہ سنی کہلواتے تھے وہ بریلوی ہوگئے۔

وہابی، بے چارے کیونکہ اقلیت میں تھے، قران و حدیث کی بات کرتے، سخت گیر ہوتے، اکثریت کو بدعتی کہتے، نتیجے میں سنیوں کی اکثریت جو اب بریلوی ہے، انہیں قطعی اچھا نہ سمجھتی، وہابی ان کو مشرک کہتے تو یہ ان کو مسلمان ماننے کو تیار ہی نہ ہوتے، اس طرح کے ماحول کے دنوں میں ایک گاؤں میں مسجد کے پیش امام مولوی نے بنیے کو وہابی قرار دیا تو بنیے کا حال خراب ہوگیا، یہ قصہ اس طرح بیان ہوتا ہے کہ بنیے سے مولوی روزانہ ادھار پر گھر کا راشن لیتا تھا، لیکن قرضہ واپس کرنے کیلئے وہ تیار نہ تھا، ایک دن بنیے نے مولوی کو راشن دینا بند کردیا، تو مولوی کو بڑا غصہ آیا، جمعہ کی نماز کے وقت مولوی نے اپنے خطبے میں جماعتیوں سے کہا کہ اپنے گاؤں کا بنیا وہابی ہوگیا ہے لہذا اس سے اب کوئی بھی سودا نہ لے، مولوی صاحب کی ہدایت کا نتیجہ یہ نکلا کہ گاؤں کے لوگوں نے بنیے سے سودا لینا بند کردیا، اور بنیا پریشان کہ اب کرے تو کیا کرے، دو چار روز صورتحال دیکھی، جب گاؤں کے لوگوں کا رویہ تبدیل نہ ہوا تو بنیئے نے مولوی سے مذاکرات کیئے، پرانا قرضہ معاف اور روزانہ کا راشن مفت دینے پر اتفاق ہوگیا، اگلے جمعے کو مولوی صاحب نے مسجد سے اعلان کیا کہ اپنے گاؤں کا مولوی توبہ تائب ہوگیا ہے، اب وہ وہابی نہیں رہا، اس لیئے اس سے سودا سلف لیا جاسکتا ہے۔

مولوی صاحب کے اعلان نے بنیے کی دکان کو دورباہ آباد کردیا۔

یہ واقعات ہمارے معاشرتی رویوں کی عکاسی کرتے ہیں، مولوی سے بگاڑو گے، تو کافر کہلواؤگے، فوجی سے بگاڑو گے تو غدار اور ملک دشمن ٹھرائے جاؤگے، گاؤں کے وڈیرے سے سوال کروگے تو دیس نکالا ملے گا، ( ایک زمانہ تھا، جب گاؤں ہی دیس تھا، دوسرے گاؤں جاؤ تو وہ پردیس ہوتا تھا)

دنیا بھر میں وڈیرے کا نام کوئی بھی ہو لیکن اس کی گرامر ایک ہی ہے، وہ اپنی طاقت کو برقرار رکھنے کیلئے مولوی بھی رکھتا ہے تو گالیاں دینے والے لوفر بھی پالتا ہے،حکومتی پاور کیلئے ووٹ بھی لوگوں سے لیتا ہے اور ان لوگوں کو ذلیل کرنے کیلئے پولیس کا تابعدار بھی ہوتا ہے۔ نتیجے میں اس کی آپیشاہی برقرار رہتی ہے۔

پاکستان میں تحریک لبیک کے نام پر جو کچھ ہورہا ہے وہ لوگوں کیلئے نیا نہیں ہے، ستانوے فیصد آبادی مسلمان ہونے کے باوجود اس خوف میں مبتلا ہے کہ یہاں یہودی سازش ہورہی ہے، کل تک تحریک انصاف والے لبیک کے دھرنے میں نہ صرف بنفس نفیس موجود ہوتے تھے، بلکہ حلوہ پوریوں اور بریانی کی دیگوں کے ساتھ ان کے لیڈران بھی شریک ہوا کرتے تھے، کل مقصد یہ تھا کہ ن لیگ کی حکومت کے خلاف مذہبی نفرت کو بھڑکایا جائے، آج یہ ہی کام عمران خان کیلئے ہورہا ہے۔ پیپلزپارٹی کے دور حکومت میں جب راجہ پرویز اشرف وزیراعظم تھے تو انہوں نے یوم عشق رسول ﷺ منانے کا اعلان کیا تھا، اس دن ملک بھر کے شہروں میں جو کچھ ہوا وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ، گوگل کرلیں سب کچھ مل جائے گا۔ ان واقعات کے کچھ دن بعد اسلام آباد میں ایک ٹیکسی ڈرائیور نے مجھے بتایا کہ ہمارے محلے میں ایک شخص نے جذبات میں آکر اپنی ٹیکسی کو آگ لگادی۔ اب بیروزگار بیٹھا ہے۔

ہم وہ جم غفیر ہیں جنہیں کسی یہودی کو سازش کرنے کی ضرورت نہیں، ہم پکے مسلمان ہونے کا دعویٰ بھی کرتے ہیں لیکن عمل میں ہم کہاں کھڑے ہیں اس بارے میں سوال کریں تو جان خطرے میں پڑجاتی ہے۔

جاتے جاتے ایک مشورہ یہ ہے کہ گوگل کریں کہ دنیا کا وہ کون سا 'نمبر ون' ملک ہے جہاں فحش ویڈیوز سب زیادہ دیکھی جاتی ہیں؟

آپ کو جواب مل جائے تو اپنے رویوں پر ضرور سوچیں، اور خود سے سوال کریں کہ دنیا جہاں سرحدیں بے معنی بنتی جارہی ہیں، عالمی کرنسی کا نیا تصور تیزی سے پھیلتا جارہا ہے، علم پر اجارہ داری ختم ہوتی جارہی ہے، گوگل کھولیں دنیا کی ہر معلومات غلط یا صحیح مل جاتی ہے، اس دور میں اگر گوگل سرچ پر پاکستان میں سب سے زیادہ فحش ویڈیوز سرچ کی جاتی ہوں تو ہمارے خلاف کسی کو کیا سازش کرنے کی ضرورت ہے۔

مسئلے کا حل یہ ہے کہ معاشرے کی کھڑکیاں کھولیں، گھٹن کم کریں، انسانی جذبات کی ضروریات کو حقیقت جانیں اور ان کیلئے راستہ بنائیں، جو لوگ اپنے پیسوں سے اپنی شام کو اچھا بنانا چاہتے ہیں ان کیلئے آسانیاں پیدا کریں، دلیل کو جگہ دیں تو معاشرہ ایک اچھی سمت کی طرف چل پڑے گا۔ مذہب کو معاشرے کی بھلائی کیلئے استعمال کریں نہ کہ سیاست کیلئے!!

مصنف اسلام آباد میں مقیم سینیئر سیاسی رپورٹر ہیں۔ ملکی سیاست پر ان کے مضامین و تجزیے مختلف ویب سائٹس اور اخبارات میں شائع ہوتے رہتے ہیں۔