Get Alerts

جنرل فیض حمید نے واضح کر دیا کہ ٹی ایل پی مارچ کا ان کے نوٹی فیکیشن سے کوئی تعلق نہیں: مزمل سہروردی

جنرل فیض حمید نے واضح کر دیا کہ ٹی ایل پی مارچ کا ان کے نوٹی فیکیشن سے کوئی تعلق نہیں: مزمل سہروردی

مزمل سہروردی نے خبر دی ہے کہ قومی سلامتی کمیٹی اجلاس کے بعد ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید نے میڈیا مالکان سے ملاقات میں کہا ہے کہ ٹی ایل پی مارچ کا میرے نوٹی فیکیشن سے کوئی تعلق نہیں ہے۔


نیا دور ٹی کے پروگرام '' خبر سے آگے'' میں گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید نے میڈیا مالکان کو بتایا کہ ٹی ایل پی کیخلاف فورس استعمال کرنے کا فیصلہ کر لیا گیا ہے۔ اگر اموات ہوئیں تو میڈیا مثبت رپورٹنگ کرے کیونکہ قومی مفاد کے ساتھ چلتے ہوئے دشمن کے ایجنڈے پر نہیں چلنا چاہیے۔


مزمل سہروردی کا کہنا تھا کہ اس کے علاوہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کیساتھ رویت ہلال کمیٹی کے سابق چیئرمین مفتی منیب الرحمان اور مولانا محمد بشیر فاروق قادری کی اہم ملاقات ہوئی ہے جس کی تصویر بھی منظر عام پر آ چکی ہے۔ مزمل سہروردی نے دعویٰ کیا کہ یہ ٹی ایل پی اور ملٹری اسٹیبلشمنٹ کی ہائی لیول میٹنگ تھی۔


https://twitter.com/fikrziaulhaq/status/1454451002447314948?s=20

ان کا کہنا تھا کہ حکومت صرف ماحول بنا رہی ہے کہ ہم نے ٹی ایل پی کارکنوں پر گولی چلانے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ آج پنجاب میں میڈیا نمائندوں کو بریفنگ میں بتایا گیا کہ گولی چلانے کے اختیارات رینجرز کے گریڈ 17 افسر کو دیتے ہوئے ریڈ لائن لگا دی گئی ہے کہ جو اس سے آگے جائے گا اس پر فائر کھول دیا جائے گا۔


پروگرام کے دوران شریک روحان احمد نے اسلام آباد کی صورتحال سے آگاہ کرتے ہوئے کہا کہ ٹی ایل پی سربراہ سعد رضوی سمیت ان کے ساتھ گرفتار دیگر اہم رہنما اس وقت وفاقی دارالحکومت میں موجود ہیں۔ ان کی اہم حکومتی شخصیات سے آج ملاقات ہوئی جس میں شرکت کیلئے مارچ کی قیادت کرنے والے دو اہم رہنمائوں جن میں مفتی غلام عباس اور مفتی عمیر الازہری شامل تھے کو بھی بلایا گیا تھا۔


روحان احمد نے بتایا کہ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی، علی محمد خان اور سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے دوپہر 12 بجے ٹی ایل پی قیادت سے ملاقات کی جو تقریباً تین گھنٹے جاری رہی۔ اس کے بعد وہ پیغام لے کر وزیراعظم کے پاس پہنچے تاہم اس حوالے سے تاحال کوئی پیشرفت سامنے نہیں آئی ہے۔


مرتضیٰ سولنگی کا کہنا تھا کہ بنیاد پرستی پاکستان بننے سے ہی شروع ہو چکی تھی۔ قیام پاکستان سے لے کر اب تک مختلف سیاسی گروہوں نے اسے اپنے مفادات اور اقتدار کے حصول کیلئے استعمال کیا۔ ایوب خان نے فاطمہ جناح کیخلاف مذہب کو استعمال کیا کہ اسلام کے اندر ایک خاتون حکمران نہیں ہو سکتی۔ انہوں نے کہا کہ تاریخ کی ستم ظریفی دیکھیں کہ مولانا مودودی فاطمہ جناح کی حمایت کر رہے تھے جبکہ ایوب خان مذہب کو استعمال کر رہے تھے۔ یہ کو کچھ ہو رہا ہے، یہ پچھلے 70 سالوں کی پالیسیوں کا شاخسانہ ہے۔


رضا رومی کا کہنا تھا کہ اس ملک کی اشرافیہ کو لت پڑ گئی ہے کہ وہ مذہب کا استعمال کریں اور اپنی سیاست کو دوام بخشیں۔ میں اس میں شیخ رشید یا عمران خان کو الزام نہیں دیتا یہ اشرافیہ پر ہی الزام ہے جو ان سب کے پیچھے ہے۔