دنیا بھر میں بسنے والے ہر مسلمان ہی نہیں، ہر دردِ دل رکھنے والے ذی شعور شہری کا دل فلسطین کے لیے درد سے چھلنی ہے۔ بے بس عوام سوچتے ہیں کہ کیا کر گزریں کہ مشکل میں گھرے فلسطینی بھائیوں کی کچھ مدد ہو سکے۔ ایسے میں بہت سی آوازیں اسرائیلی مصنوعات کے بائیکاٹ کے لیے بھی اٹھ رہی ہیں۔ یہ بائیکاٹ کی تجویز نئی نہیں۔ 2006 میں جب پہلی بار ڈنمارک میں رسول اکرمﷺ کے خاکے شائع ہوئے تھے، تب بھی پاکستان میں بالخصوص اور مسلم دنیا میں بالعموم ڈنمارک اور ناروے میں بنی اشیا کے بائیکاٹ کی مہم چلائی گئی۔ لیکن اس وقت بھی جہاں اخبارات میں لکھے جانے والے کالم من گھڑت اعداد و شمار شائع کر کے یہ ثابت کرنے کی کوششوں میں مصروف تھے کہ یہ بائیکاٹ یورپی ممالک کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دے گا، حقائق اس وقت بھی بہت واضح تھے۔ اور وہ یہی تھے کہ زیادہ تر مصنوعات جو پاکستان یورپ سے درآمد کر رہا تھا، ان کی درآمد رکنے سے پاکستان کی معیشت پر تو اثر پڑ سکتا تھا، یورپ کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑنے والا تھا۔
اس کے باوجود اس مہم نے زور پکڑا اور نتیجتاً لاہور میں کئی مقامات پر مشتعل ہجوم نے عمارتوں، گاڑیوں اور دیگر املاک کو آگ لگا دی۔ ان میں مال روڈ پر واقع کے ایف سی کی فرنچائز بھی شامل تھی اور نیلا گنبد پر واقع مکڈونلڈز کی بھی۔ مکڈونلڈز نے تو دوبارہ یہ فرنچائز کھولی ہی نہیں۔ کچھ سالوں کے بعد کے ایف سی البتہ مال روڈ پر بحال ہو گئی۔ تاہم ہمارا بائیکاٹ کا شوق تھما نہیں۔ چند برس بعد فیس بک اور یوٹیوب کے خلاف ایسی ہی مہم شروع کر دی گئی۔ فیس بک پاکستان میں متعدد بار بند کی گئی اور یوٹیوب تو 2012 میں ایسی بند ہوئی کہ پھر پیپلز پارٹی اپنے باقی ماندہ دور میں اسے کھول ہی نہ پائی۔ اپنی حکومت آنے کے دو برس بعد مسلم لیگ ن نے اسے بحال کیا لیکن اس بار یوٹیوب نے یوٹیوب PK ورژن پاکستان کو دیا جس کے بارے میں کہا گیا تھا کہ پاکستان خود سے لنکس کو بلاک کر سکے گا۔ دنیا بھر میں جس وقت یوٹیوب مانیٹائزیشن زوروں پر تھی، پاکستان میں اطلاعات کی ترسیل کا یہ عالمی اہمیت کا حامل پلیٹ فارم بند پڑا تھا۔ اور پڑوس کے ممالک یوٹیوبنگ کی دنیا میں اس دوران کہاں سے کہاں نکل گئے۔
اب ایک بار پھر مکڈونلڈز کے بائیکاٹ کی مہم چلائی جا رہی ہے۔ اس مہم میں پاکستانی اداکارہ اشنا شاہ پیش پیش ہیں جنہوں نے ٹوئٹر پر اس بائیکاٹ کے لیے باقاعدہ ٹوئیٹس بھی کیں۔ کسی بھی فوڈ چین یا مصنوعات کا بائیکاٹ کرنے یا اس کے خلاف مہم چلانے کا حق تو سبھی کو ہے لیکن کیا ایسی کسی بھی مہم کا حصہ بننے سے قبل حقائق کو جاننا ضروری نہیں؟
اشنا شاہ کی مہم کے پیچھے مکڈونلڈز اسرائیل کا یہ فیصلہ کارفرما ہے کہ وہ اسرائیلی فوجیوں کو مکڈونلڈز کے meal فراہم کر رہا ہے۔ یہ بات درست بھی ہے۔ لیکن کیا اس کا مکڈونلڈز پاکستان سے کوئی تعلق ہے؟ تو جواب یہ ہے کہ جی نہیں۔ مکڈونلڈز اسرائیل کا مکڈونلڈز پاکستان سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ پاکستان میں مکڈونلڈز کی ملکیت تقریباً مکمل طور پر پاکستانی کاروباری گروپ Laksons کے پاس ہے۔ جی ہاں، مکڈونلڈز پاکستان کو SIZA Foods Ltd نامی پاکستانی کمپنی چلاتی ہے جو کہ پاکستان کے معروف کاروباری گروپ Laksons کی ملکیت ہے۔
اب آ جائیے اس طرف کہ آیا مکڈونلڈز پاکستان جو پیسہ پاکستان میں کما رہا ہے، یہ اسرائیل جا رہا ہے یا نہیں۔ اس کا جواب بھی نفی میں ہی ہے۔ پاکستان کا قانون اس بات کی اجازت ہی نہیں دیتا کہ کوئی بین الاقوامی کاروباری ادارہ پاکستان میں کام کرے اور اس کا تمام تر منافع پاکستان سے باہر لے جائے۔ قانون کے مطابق پاکستان سے حاصل ہونے والے کل ریونیو کا 95 فیصد پاکستان میں ہی رہتا ہے جبکہ بقیہ محض 5 فیصد حصہ امریکہ میں مکڈونلڈز کو جاتا ہے۔ امریکہ میں بھی مکڈونلڈز ایک کمپنی کے طور پر رجسٹرڈ ہے جس کے شیئرز کوئی بھی خرید سکتا ہے۔
اب اس بائیکاٹ کے حامی یقیناً اپنے فلسطینی بہن بھائیوں کے غم میں نڈھال ہیں۔ وہ یہی چاہتے ہیں کہ پاکستانی عوام کسی بھی حیثیت میں فلسطینیوں کی کسی بھی طرح کی مدد کر سکتے ہیں تو انہیں ضرور کرنی چاہئیے۔ یہی وجہ ہے کہ ملک بھر میں اس وقت فلسطینی بہن بھائیوں کی مدد کے لئے جگہ جگہ کیمپ لگے ہوئے ہیں اور ٹرک کے ٹرک بھر بھر کر ان کی امداد کے لئے روانہ ہو رہے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ سفاک اسرائیلی فوج نے غزہ جانے والی امداد کے تمام راستے بند کر دیے ہیں، باوجود اقوامِ متحدہ کی واضح قراردادوں کے کہ ناصرف غزہ میں جنگ کو فوری طور پر بند کیا جائے بلکہ امداد کے لئے جانے والے تمام راستوں کو بھی کھولا جائے۔ مکڈونلڈز پاکستان نے بھی اس سلسلے میں ایدھی فاؤنڈیشن کو ایک کروڑ روپے کا عطیہ دیا ہے تاکہ وہ غزہ میں اسرائیلی بربریت کے شکار فلسطینی بھائیوں کی مدد کر سکیں۔
مکڈونلڈز پاکستان اور ایسی دیگر کئی بین الاقوامی کاروباری کمپنیاں پاکستان میں ہزاروں افراد کو روزگار فراہم کر رہی ہیں۔ مکڈونلڈز پاکستان کا اسرائیل سے کوئی تعلق بھی نہیں۔ اس کا 95 فیصد ریونیو بھی پاکستان میں خرچ ہو کر ہماری ہی GDP میں اپنا حصہ ڈال رہا ہے۔ جو 5 فیصد امریکی کمپنی کو جا بھی رہا ہے وہ بھی سٹاک ایکسچینج میں لسٹ ہوئی ایک کمپنی ہے جس کے شیئرز کوئی بھی شہری خرید سکتا ہے۔ تو سوال یہ اٹھتا ہے کہ پھر ہم یہ بائیکاٹ کر کے نقصان اسرائیل کو پہنچا رہے ہیں، یا پھر پاکستان کو؟