ادارہ برائے سماجی انصاف نے کوسموپولیٹن کلب لاہور کے اشتراک سے دستاویزی فلم 'ہم سایہ' کی رونمائی کیساتھ ساتھ ماہرین کی گفتگو منعقد کی۔ دستاویزی فلم کم عمر بچیوں کے جبری تبدیلی مذہب کے واقعات کی سچی کہانیوں پر مبنی ہے۔ فلم 2023 میں وینس بین الثقافتی فلم فیسٹیول میں انسانی حقوق پر بہترین دستاویزی فلم کے ایوارڈ کیساتھ ساتھ پانچ دفعہ عالمی طور پر بشمول 2024 میں سپین میں منعقدہ ساتویں فیکنووا فلم فیسٹیول میں دکھائی جا چکی ہے۔
ماہر انسانی حقوق پیٹر جیکب، نبیلہ فیروز بھٹی اور پروفیسر ڈاکٹر سارہ رضوی جعفری نے پاکستان میں کم عمری کی شادی اور جبری تبدیلی مذہب کے مسئلے پر بات کرتے ہوئے زور دیا کہ بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی جبری تبدیلی مذہب، حکومتی عدم توجہ کی وجہ سے سنگین تر ہو گئی ہے۔
ایگزیگٹیو ڈائریکٹر ادارہ برائے سماجی انصاف پیٹر جیکب نے بتایا کہ حالیہ سال اگست کے مہینے تک جبری تبدیلی مذہب کے 35 واقعات رپورٹ ہو چکے ہیں، جس میں سے 11 واقعات پنجاب میں اور 24 صوبہ سندھ میں پیش آئے۔ جبکہ 2021 سے 2024 تک جبری تبدیلی مذہب کے 404 واقعات درج ہوئے ہیں۔ مگر حکومت نے ان حقائق کے باوجود یو این کی ٹریٹی باڈیز، عالمی کنونشن برائے شہری و سیاسی حقوق اور عالمی کنونشن برائے نسلی امتیاز کا خاتمہ کے حالیہ جائزے میں مؤقف پیش کرتے ہوئے کم عمری کی شادی اور جبری تبدیلی مذہب کے واقعات کی نفی کی۔ انہوں نے مزید کہا کہ ملکی موجودہ قوانین کم عمری کی شادی اور جبری تبدیلی مذہب کو روکنے کا قانونی حل فراہم نہیں کرتے۔ اس لیے جبری تبدیلی مذہب کے عمل کو جرم قرار دیتے ہوئے، تبدیلی مذہب کے مناسب طریقہ کار کے لئے مناسب قانون سازی ضروری ہے، خصوصاً اقلیتی برادری سے تعلق رکھنے والی کم سن بچیوں کے لیے۔
ایسوسی ایٹ پروفیسر، چئیر پرسن ڈیپارٹمنٹ آف سوشیالوجی فارمن کرسچن کالج یونیورسٹی ڈاکٹر سارہ رضوی جعفری نے کہا کہ پاکستان میں مذہبی انتہا پسند سمجھتے ہوں گے کہ کمزور اقلیتی بچیوں کو مذہب تبدیل کروا کر دین کی خدمت کر رہے ہیں، حالانکہ اسلام اس عمل کی اجازت نہیں دیتا۔ ان واقعات کے پس منظر میں خوفناک حقائق پوشیدہ ہیں جن میں کمزور خواتین کو دھمکیوں، حملے اور عصمت دری کا سامنا کرنا پڑا۔ تبدیلی مذہب کے بعد اکثر خواتین ناصرف اپنی شناخت کھو دیتی ہیں بلکہ وہ خاندانی طور پر اپنائے نہ جانے کے خوف اور صدمے کا سامنا کرتی رہتی ہیں۔ جس کے نتیجے میں خواتین کی جسمانی اور دماغی صحت پر شدید اثرات کے ساتھ ساتھ دیگر سماجی تعصبات جیسے کہ ازدواجی زندگی کے مسائل، بچوں کی دیکھ بھال کے مسائل، خاندان سے علیحدگی کے مسائل درپیش رہتے ہیں۔ پاکستان میں ان مسائل کے حل کے لیے ناصرف قانون سازی کی ضرورت ہے بلکہ ایسے اقدامات کی ضرورت ہے جس سے متاثرین کی ذہنی و جسمانی بحالی ممکن ہو سکے۔ متاثرہ خواتین کا ایک ڈیٹا بیس تیار کیا جائے گا، سماجی کارکنوں/ سماجی تحفظ کے افسران کے ذریعے متاثرین کی زندگی اور صحت کی مسلسل نگرانی بھی کی جائے گی۔
انسانی حقوق کی کارکن نبیلہ فیروز بھٹی نے واضح کیا کہ کم عمری کی شادی اور جبری تبدیلی مذہب پاکستان کا سنگین ترین مسئلہ ہے جس کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ فوجداری ترمیمی ایکٹ 2017 کے سیکشن چار کے تحت غیر مسلم کم سن بچی سے جبری شادی قابل تعزیر جرم ہے جس کی سزا پانچ سال ہے۔ مگر اس قانونی تحفظ پر حکومتی عدم توجہ کی بنا پر عمل درآمد نہیں ہو رہا۔ جس سے حکومت کی جبری تبدیلی مذہب کے مقدمات کے روک تھام کے لئے سنجیدگی واضح ہوتی ہے۔
گفتگو کے شرکا اور تمام ماہرین نے اتفاق کیا کہ کم سن بچیوں کے تحفظ، رازداری، ذہنی و جذباتی بحالی، اور منصفانہ قانونی شراکت کے لیے جلد از جلد قانون سازی کی جائے اور حکومت خصوصی اقدامات کرتے ہوئے نابالغ بچیوں کے مقدمات کی تحقیقات اور عدالتی کارروائی میں بلا معاوضہ قانونی خدمات فراہم کرے۔