Get Alerts

والد فردوس جمال نے ہمارے خاندان کو سخت اذیتیں دیں؛ بیٹے کا مؤقف

میرے پاس کہنے کو بہت کچھ ہے پر بہت پردوں میں رہ کے بات کر رہا ہوں۔ میرے والد کی جانب سے ٹی وی شو میں بیٹھ کے یہ کہہ دینا بہت آسان ہے کہ میری شادی غلط جگہ ہوئی۔ اصل میں انہوں نے ہمارے ساتھ کیا کیا، یہ عوام نہیں جانتے۔

والد فردوس جمال نے ہمارے خاندان کو سخت اذیتیں دیں؛ بیٹے کا مؤقف

میری والدہ میرے والد فردوس جمال سے خلع لے چکی ہیں اور اب وہ ان کی بیوی نہیں ہیں۔ یہ انکشاف کیا ہے فردوس جمال کے بیٹے حمزہ فردوس نے۔ انہوں نے بتایا کہ آخر کیوں انہوں نے اپنے والد کو اکیلا چھوڑ دیا۔

حمزہ فردوس نے ساڑھے 9 منٹ کی وڈیو میں اس سارے معاملے پر اپنا اور اپنی فیملی کا مؤقف پیش کیا۔ وہ بولے کہ انتہائی دکھ اور درد کے ساتھ یہ وڈیو بنا رہا ہوں۔ کاش مجھے یہ وڈیو نہ بنانا پڑتی۔ میری والدہ نے شادی کے 35، 40 سال بعد میرے والد سے خلع لے لیا۔ ان 40 برسوں میں انہوں نے میرے والد فردوس جمال کی جانب سے دی گئیں انتہا سے زیادہ تکلیفیں، مصیبتیں، ذلتیں اور اذیتیں سہیں۔ وہ یہ سب صرف اس لیے برداشت کرتی رہیں کیونکہ انہیں بہتری کی امید تھی۔ انہیں یقین تھا کہ ایک دن سب ٹھیک ہو جائے گا۔ لیکن یہ تکالیف سہنے کے باوجود سب کچھ بد سے بد تر ہوتا گیا۔

حمزہ فردوس نے کہا کہ کوئی نہیں چاہتا کہ اس کے گھر کی باتیں باہر ڈسکس ہوں۔ مگر جب آپ کو ان گناہوں کی سزا مل جائے کہ جو آپ نے کیے ہی نہ ہوں تو پھر آپ کو بات کرنا پڑتی ہے۔ لیکن اس کے باوجود ان کی والدہ نے انہیں سختی سے منع کیا کہ کوئی سخت بات نہیں کرنی، دھیان سے وڈیو بنانا۔ اپنے والد کے بارے میں حمزہ فردوس نے کہا کہ ان کی بہت سی ایسی بری حرکتیں ہیں کہ جو میڈیا والوں کو ہم سے بھی زیادہ پتہ ہیں۔ مگر عوام کو اس لیے نہیں معلوم کہ اللہ تعالیٰ نے پردہ رکھا ہوا ہے۔ اس لیے وہ ان حرکتوں کا نہیں بتائیں گے۔

اپنی والدہ اور فیملی کے ساتھ مبینہ بدترین برتاؤ کے بارے میں حمزہ فردوس کا کہنا تھا کہ ہمیں ان سے مسلسل تکلیف پہنچ رہی تھی۔ ہم انہیں سمجھاتے رہے، ان سے شکایت کی اور پھر ہم دھاڑیں مار مار کے روتے رہے مگر وہ باز نہ آئے۔ کسی اور نے بھی ہماری فریاد نہ سنی۔ ہم نے اپنے والد کے قریبی لوگوں سے ان کے متعلق بات کی۔ ان کے بہن بھائیوں سے انہیں سمجھانے کی درخواست کی۔ مگر ان لوگوں نے سب کچھ جانتے ہوئے بھی اپنے بھائی کی غلط حرکتوں پر سٹینڈ لیا اور ان کے ساتھ کھڑے ہو گئے۔ ہمارے چچاؤں نے ہمیں مارنے کی دھمکیاں دیں۔

میں نے 18 سال محنت کے بعد گھر بنایا مگر وہ لوگ فائلیں لے گئے۔ ہمیں پیسوں کے قانونی نوٹس بھیجے تاکہ ہمیں سڑک پہ لے آئیں۔ ان لوگوں سے جو جو برا ہو سکا انہوں نے ہمارے ساتھ کیا لیکن اس کے باوجود ہم نے اف تک نہ کی۔ ہم پہ کیا کیا بِیت چکا ہے، یہ آپ سوچ بھی نہیں سکتے۔ اگر ہمیں ہمدردی لینا ہوتی تو بہت پہلے لے لیتے۔ میرے پاس میری ہر بات کا ثبوت ہے مگر اب بس ہوگئی ہماری، بہت تکلیفیں دیکھ لیں ہماری ماں نے۔ اگر میں آج بھی اپنی ماں کے ساتھ نہ کھڑا ہوں تو لعنت ہے۔

بلکہ ہم سب تو اپنے والد کے بھی ساتھ کھڑے رہے۔ والد کو کینسر ہوا تو سب کچھ چھوڑ کے پاکستان آ گیا تھا۔ پاکستان میں کینسر کا علاج بہت مہنگا ہے۔ کسی بیٹے نے تو یہ علاج کرایا ہی ہوگا نا۔ میں بینک کی رسیدیں دکھا سکتا ہوں۔ یہ کہنا نہیں چاہیے کیونکہ ہر بیٹا ہی کرتا ہے۔ ہر بیٹے کا فرض ہے اپنے ماں باپ کی خدمت کرنا، ان کا علاج کرانا۔ ہم سب بہن بھائیوں نے دورانِ علاج اپنے باپ کی انتہا سے زیادہ خدمت کی تو اب بھلا ہم انہیں اس حال میں کیسے دیکھ سکتے ہیں؟ مگر وڈیوز سے یہ تاثر دیا جا رہا ہے کہ بچوں نے ہاتھ کھینچ لیا، باپ نے پوری زندگی محنت کی اور پھر بڑھاپے میں بچوں نے انہیں پھینک دیا۔

میرے والد کے پاس اچھے خاصے پیسے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود انہوں نے ایک گندے سے علاقے میں ٹوٹے پھوٹے گھر میں رہنا شروع کر دیا۔ آخر کیوں؟ اس بات کا ہمیں بھی معلوم ہے اور ہمارے والد فردوس جمال کو بھی۔ مگر لوگوں کو اصل اور پوری بات نہیں پتہ۔ وہ خود ہی مفروضے گھڑ لیتے ہیں اور اس کی سزا ہمیں ملتی ہے۔ رکھیں ہمارے والد کے سر پر قرآن اور پوچھیں ان سے کہ کیا ہم نے انہیں بار بار نہیں کہا کہ کوئی ضرورت نہیں آپ کو کام کرنے کی؟ انہوں نے 6 سال سے کسی ایک ڈرامے میں بھی کام نہیں کیا۔ اس کے باوجود خرچ کیسے چل رہا ہے ان کا؟

میرے پاس کہنے کو بہت کچھ ہے پر بہت پردوں میں رہ کے بات کر رہا ہوں۔ میرے والد کی جانب سے ٹی وی شو میں بیٹھ کے یہ کہہ دینا بہت آسان ہے کہ میری شادی غلط جگہ ہوئی۔ اصل میں انہوں نے ہمارے ساتھ کیا کیا، یہ عوام نہیں جانتے۔