جب کسی سے خون کا رشتہ نہ ہو، شناسائی نہ ہو، کبھی روبرو بھی نہ دیکھا ہو، پھر بھی اس کے بارے میں سوچا جا رہا ہو، اس کی یادیں دل میں ہوں، اس کا تصور مانند فردوس ہو، اس کا دکھ اپنا لگے، باالفاظ حسرت موہانی؛
روشن جمالِ یار سے ہے انجمن تمام
دہکا ہوا ہے آتشِ گُل سے چمن تمام!
اور اگر کبھی زندگی میں ملاقات یا فون وغیرہ پر بات بھی ہو جائے تو ایسا لگے؛
دیکھا جو اس صنم کو تو محسوس یہ ہوا
جلوہ خدا کا صورتِ انسان ہو گیا
پھر اگلے ہی لمحے یوں لگے کہ صدیوں کی شناسائی ہے۔ تو ایسا انسان صرف فنکار ہی ہو سکتا ہے۔
پچھلے 30 برسوں میں بہت لکھا جہادیوں اور سیاست دانوں پر۔ کبھی مشکل نہ لگا۔ منٹوں میں 1200 سے 1500 الفاظ لکھ ڈالے۔ لیکن فنکاروں اور فن پر لکھتے قلم تھم جائے۔ لغت چاہے انگریزی کی ہو یا اردو کی، الفاظ وہ نہ ملیں جو کسی سچے فنکار کے فن کا کچھ احاطہ کر سکیں۔ یہی وجہ تھی کہ انہیں خراج تحسین ادھورا ہی پیش کر سکا۔ اب اوپر جاؤں گا تو بنانے والے سے سیکھوں گا وہ رمز جس سے کم از کم فنکاروں کا حق تو ادا ہو سکے۔
کل پرسوں دل بہت رنجیدہ ہوا یہ خبر پڑھ کر کہ فردوس جمال اب ہمارے درمیاں نہیں رہے۔ افضال صاحب، اسماعیل تارا اور اب جمال صاحب! دل سے صدا نکلی کہ کاش یہ خبر جھوٹی ہو۔ اسی ہفتے اپنے دوست ڈاکٹر تابش حاظر، اپنی مرحوم والدہ کی سہیلی بلقیس خانم اور پھر رشید ماموں خالق حقیقی کے پاس سدھارے۔ خوشی کا ٹھکانہ نہ رہا جب ٹوئٹر پر فردوس جمال ابھرے، اللہ تعالی کی بڑائی بیان کی، اپنی موت کی خبر کی تردید کی، وزیر اعظم شہباز شریف (اللہ انہیں خوش رکھے) کا شکریہ ادا کیا ایک کروڑ کی مالی مدد کے لئے جو ان کے کینسر کے علاج کی مد میں ہے۔ اور پھر ایک بہت بڑا جملہ بول گئے کہ جو لوگ اپنے مذموم سیاسی مقاصد کے حصول کے لئے میری موت کی جھوٹی خبر پھیلا رہے ہیں کہیں ایسا نہ ہو کہ ان کی اپنی سیاست کی موت واقع ہو جائے۔ بہت اعتماد سے نپی تلی گفتگو عاجزانہ مگر پر وقار طریقے سے کی۔ آج کل کے فنکار تو سکرپٹ بھی ڈھنگ سے نہیں پڑھ سکتے، فی البدیہہ بولنا تو دور کی بات!
جمال صاحب میرے بزرگ صحافی دوست امتیاز گل کے کزن ہیں۔ امتیاز واقعی سینیئر صحافی۔ آج کل تو ہر ٹٹ پونجیا اپنے نام کے ساتھ 'سینیئر' کا دُم چھلا لگائے پھرتا ہے۔ امتیاز کی ایک خوبی جو انہیں ممتاز کرتی ہے وہ ہے مزاج میں عاجزی اور خط و کتابت چاہے بذریعہ آج کے جدید اور پھرتیلے طریقوں سے ہو، کا جواب ترنت دیتے ہیں۔ میں نے درخواست کی جمال صاحب کے نمبر کی۔ ان کی مہربانی انہوں نے فوراً بھیج دیا۔ میں نے وائس میسج کیا۔ بات 'وارث' سے شروع کی۔ پاکستانی ڈرامے کی بات ہو اور 'وارث' کا ذکر نہ ہو!! یہ ایسا ہی ہے کہ مغربی کلاسیکل موسیقی کا ذکر ہو مگر موزارٹ کے بغیر، طبلے کا بیان ہو مگر بنا ذاکر بھائی (استاد ذاکر حسین)، گانے کی محفل ہو مگر گانے والا بڑے غلام علی خان اور امیر خان صاحب کے اثر سے بچ نکلے۔
فردوس جمال بھی امتیاز بھائی کی طرح ہیں۔ فوراً واٹس ایپ پر صوتی پیغام آیا۔ میرے لئے اس سے بڑھ کر اور کیا تحفہ یا اعزاز! پیار، دعائیں نیک تمنائیں سب کچھ تھا اس میں۔ اور ایک حیران کن بات۔ آواز بالکل ایسے جیسے مرحوم یوسف خان صاحب (دلیپ کمار) گفتگو فرما رہے ہوں۔ انداز بھی وہی۔ ٹھہراؤ بھی وہی اور دانش و حکمت بھی ویسی۔ اور ایسا کیوں نہ ہو۔ اداکار ہو اور دلیپ کمار صاحب کا اثر نہ ہو؟ ناممکن۔ لیکن جمال صاحب کا اپنا انداز اداکاری تھا۔ 'وارث' وارث ہو نہ سکتا اگر ' چودھری انور' کو نکال دو، بھلے ہیرو 'چوہدری حشمت' رہے۔ اور قابل تحسین بات کہ وارث کے ختم ہوتے ہی فوراً چودھری انور کے اثر سے باہر۔ نانا پاٹیکر کی طرح ساری عمر 'انا سیٹھ' نہ بنے رہے۔
'وارث' پھر بھی 'وارث' نہ ہو گا اگر 'مولا داد' (شجاعت ہاشمی)، 'چوہدری نیاز' (اورنگزیب لغاری)، 'چوہدری یعقوب' (منور سعید)، 'دلاور یعنی شہزادہ' (مرحوم عابد علی)، اور 'شیر محمد' (مرحوم سجاد کشور) نہ ہوتے۔ ان سب نے مل کر 'وارث' کو امر کیا۔ یہی 'وارث' کے اصل وارث تھے۔ میرے گھر میں پانچ نسلیں اس کی شیدائی۔۔ میرے نانا، میرے والدین، میں، میرے بچے، میرے بچوں کے بچے! کمال نہیں؟
'وارث' کے آغاز میں جمال صاحب نے ' چودھری انور' کی شکل میں ایک اکھڑ و الہڑ، لاپروا اور نیم شرارتی نیم بدمعاش نوجوان کا کردار انتہائی خوبصورتی سے نبھایا۔ اس طرح کہ دیکھنے والے انور سے نفرت بھی کریں اور اس کے سین کے آنے کے منتظر بھی رہیں۔ انتہائی بے اعتنائی اور مہارت سے چادر کو اپنے دائیں ہاتھ سے کندھوں پر ڈالنے والی جمال صاحب کی ادا پنجاب کے 'نویں نویں بدمعاش ہونے' والے محاورے کی بھرپور عکاسی کیا کرتی تھی۔
پھر اسی ڈرامے میں کس عمدگی سے انہوں نے 'پچھتاوے' کی عکاسی اداکاری سے کی جب انور اپنے بھائی چودھری نیاز کو قتل کرنے کے بعد قابیل کی طرح شرمندہ و شرمسار تھا۔ انور کی 'لڑائیاں' اپنے بڑے بھائی چودھری نیاز سے جس میں وہ بدتمیزی پر بھی اتر آتا۔ اور ایسی ہی بدتمیزی کا مظاہرہ اپنے چچا چودھری یعقوب کے ساتھ اور پھر منور سعید (چودھری یعقوب) کا انور ( فردوس جمال) کو جواب کہ انور میں نیاز نہیں! لازوال لازوال!!! نہیں بھولتا، نہیں نکلتا دماغ سے یہ ڈرامہ۔ لگتا ہے اپنا ذہن منجمد ہو گیا 'وارث' کے بعد۔ کوئی اور ڈرامہ حواس پر چھا ہی نہیں سکا۔ 'وارث' پر تو میں پوری کتاب لکھ ڈالوں۔ ایسا شاہکار ڈرامہ!
پھر ایک آمنا سامنا چودھری انور کا مولا داد سے۔ مولا داد انور کا نوکر۔ بقول انور، مولا داد اس کا نوکر کم دوست زیادہ۔ پستول دیتا ہے مولا داد کو کہ نیاز کو ختم کر دے۔ مولا داد انکار کر دیتا ہے یہ کہتے ہوئے کہ چودھری انور اپنے مطلب کے دوست ہو! ایک ایک ڈائیلاگ یادگار۔ کم از کم پچاس سے زیادہ دفعہ یہ پورا ڈرامہ دیکھ چکا ہوں۔ دل نہیں بھرتا۔ روز اس کا کوئی نہ کوئی سین لگا کر دیکھتا ہوں۔ اس ڈرامے کا ایک ہی بورنگ حصہ تھا۔۔ غیر ضروری آغا سکندر اور طاہرہ نقوی کا ٹین ایج رومانس جسے رگیدا گیا۔ میں نے کانٹ چھانٹ کر کے 'وارث' کا اپنے لئے ایک ایڈیشن بنایا ہے۔ وہی دیکھتا ہوں۔
اچھا 'وارث' کے تمام اداکاروں میں ایک قدر مشترک جو پائی وہ ان کی عاجزی۔ کوئی 20 برس پہلے گاڑی بلیو ایریا کے طویل اشارے پر رکی۔ اگلی گاڑی میں منور سعید کو دیکھا۔ پشت سے ہی پہچان گیا۔ فوراً ہینڈ بریک لگائی۔ ملا۔ 'وارث' کا ذکر ہوا۔ وہ بہت خوش ہوئے۔ یہ بھی بتایا کہ آپ کا وہ انٹرویو بھی دیکھا ہوا ہے جس میں آپ نے بتایا کہ آپ علی گڑھ سے پڑھے اور وہاں ہاسٹل میں سب کا کھانا ہڑپ کر جایا کرتے تھے۔ بہت حیران ہوئے کہ کوئی نوجوان اتنی پرانی باتیں یاد رکھ سکتا ہے۔ میرے سر پر ہاتھ رکھا۔ دعا دی۔ اب میں 53 برس کا ہوں۔
پھر اتفاقاً سجاد کشور سے ملاقات ہوئی۔ ان کے پاس 60 کی دہائی کا ویسپا سکوٹر تھا اور مجھے ویسپا سے بھی عشق۔ اسی ویسپا پر انہوں نے مجھے سیر کرائی۔ ایک زوردار کک ماری اور وہ فوراً چالو! پھر اسی طرح ایک مرتبہ جہاز میں شجاعت ہاشمی سے ملاقات ہوئی اور ذکر یہاں بھی 'وارث' کا۔ بہت خوش ہوئے۔ انہوں نے گلے لگایا۔
20 برس قبل اتفاقاً گلوکار شوکت علی صاحب سے دہلی میں سر راہ ملاقات ہوئی۔ میں نے ذکر کیا پنجابی میں: 'سر تہاڈا اپنا پرچم ایک ہے میں اج وی سندا واں'۔ میرا ماتھا چوما انہوں نے۔ پہلے وہ سمجھے میں کوئی بھارتی ہوں۔ جب پتہ چلا کہ پاکستانی ہوں اور سیاحت کے لئے دہلی آیا ہوں تو مزید خوش ہوئے۔
شاید ان سب حضرات نے یہ سوچ رکھا ہو کہ نئی نسل (اس وقت ہمارا شمار اسی کیٹگری میں تھا) ان کے کام سے واقف نہ ہو گی۔ تب ہی انہیں حیرت ہوتی کہ کیسے کوئی اتنے پرانے کام کو یاد رکھ سکتا ہے۔ میڈیا میں تو آنکھ اوجھل پہاڑ اوجھل والا معاملہ ہے۔ ریٹنگ کے چکر میں ہر لمحے اوٹ پٹانگ حرکتیں کرنا پڑتی ہیں۔ ہر تیسرے دن پی ٹی آئی والے زرداری اور نواز شریف کے مرنے کی جھوٹی خبریں سماجی میڈیا پر شائع کرتے ہیں۔ خدارا اپنی سیاست میں معصوم فنکاروں کو تو نہ گھسیٹیں۔ فنکار کسی خاص سیاسی جماعت کا نمائندہ نہیں ہوتا۔ وہ سب کا مشترکہ اثاثہ ہے۔ 90 کی دہائی کے آخر میں نور جہاں کی موت کی جھوٹی خبریں شائع ہوئیں۔ اس وقت بی بی سی اردو نے ان سے گفتگو کی۔ میڈم نے دکھی لہجے میں تردید کی۔ ایسے ہی عطاء اللہ عیسیٰ خیلوی کے ساتھ ہوا۔ ایسا کرنے والے صحافی نہیں، دلال مانے جاتے ہیں۔
'وارث' کے وقت این سی اے (نیشنل کالج آف آرٹس) ٹائپ کوئی ادارہ ڈرامے کی تعلیم و تربیت کے لئے نہ تھا۔ پھر بھی 'وارث' کی ہر شے بے مثال بنی۔ یہی کہا جا سکتا ہے کہ 'وارث' سے جڑے تما م افراد خداداد صلاحیتوں کے مالک تھے۔ جب میں نے یہ سوال جمال صاحب کے سامنے رکھا تو بہت زبردست جواب آیا:
"کبھی کائنات میں حکمِ الہیٰ سے ایک خاص قسم کی حرکت ہوتی ہے جس کی بدولت نئی کہکشائیں ظہور میں آتی ہیں۔ ایسے ہی زمین پر کچھ ارتعاش ہوتا ہے خاص لمحوں میں۔ کبھی جنگیں وجود میں آتی ہیں۔ کبھی لازوال فن پارے تخلیق ہو جاتے ہیں۔ ان سب کے پیچھے حکمِ الہیٰ ہوتا ہے۔ 'وارث' کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا۔ ایسی چیزوں کو دوبارہ پیدا نہیں کیا جا سکتا۔ میرا کوئی کمال نہیں 'وارث' میں!"
سچ کہا جمال صاحب نے۔ ایک دفعہ ناہید صدیقی رقص کر رہی تھیں اسلام آباد نیشنل لائبریری میں۔ 1997 کی بات ہے۔ سامنے استاد سلامت علی خان بیٹھے ہیں۔ ناہید نے کتھک کا وہ روپ پیش کیا جو کم از کم میں نے تو آج تک نہ دیکھا۔ پھر اس کے بعد کئی بار ناہید کو دیکھا۔ مگر وہ رقص دوبارہ دیکھنے کو نہ ملا!
میرے دوست سرمد صہبائی جو عمر میں میرے والد سے ایک دو برس چھوٹے مگر مجھے ہر قسم کی بدتمیزی کی اجازت انہوں نے دے رکھی ہے۔ جمال صاحب کے بارے میں کہتے ہیں کہ محمد نثار حسین صاحب بہت بڑا نام تھا پی ٹی وی پر۔ وہ ایک ایسا ڈرامہ کر رہے تھے جس میں ایک بڑی عمر کی حسین عورت (جس کا کردار مہناز رفیع ادا کر رہی تھیں) کا عشق ایک نوجوان سے چلنا تھا۔ سرمد نے نثار صاحب سے پوچھا کہ بھئی کون سا لڑکا کاسٹ کرنا ہے۔ تو انہوں نے کہا ایک نیا لڑکا ہے۔ فردوس جمال نام ہے۔ شاید سرمد کے کچھ تحفظات ہوں۔ مگر نثار صاحب نے کہا کہ یہ لڑکا بہت آگے جائے گا اور پھر ایسا ہی ہوا۔
ہم سب فردوس جمال صاحب کی جلد صحت یابی اور دائمی خوشی کے لئے دعاگو ہیں!
Contributor
محمد شہزاد اسلام آباد میں مقیم آزاد صحافی، محقق اور شاعر ہیں۔ انگریزی اور اردو دونوں زبانوں میں لکھتے ہیں۔ طبلہ اور کلاسیکی موسیقی سیکھتے ہیں۔ کھانا پکانے کا جنون رکھتے ہیں۔ ان سے اس ای میل Yamankalyan@gmail.com پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔