بچوں کی خواہشیں پوری کرنا ہی محبت کا ثبوت نہیں

بچوں کی خواہشیں پوری کرنا ہی محبت کا ثبوت نہیں
بچہ جب دنیا سے اپنے تعلق کو سمجھنے کی کوشش کرتا ہے تو اس کے اندر خواہش ابھرتی ہے کہ بڑوں کی طرح اس کی بھی اپنی دنیا ہو جہاں اس کی بھی اپنی ملکیت کی اشیا ہوں۔ وہ بڑوں کی نقل کر کے خود کو بھی اس دنیا میں مالک اور خود مختار تصور کرنا چاہتا ہے۔ کھلونوں کی صورت میں بڑوں کے استعمال کی اشیاء کی نقل اسے اپنی جسامت کے لحاظ سے ایسی متناسب معلوم ہوتی ہیں کہ مانگے کی چیز کا تاثر نہیں رہتا۔ اسی لئے وہ اسے خود سے زیادہ قریب اور اپنی محسوس ہوتی ہیں۔ ان ننھی منی اشیاء کے ساتھ وہ اپنی تخیلاتی دنیا تخلیق کرتا ہے، اس میں رہتا بستا ہے اور اپنی مرضی کے تعامل سے انوکھا لطف حاصل کرتا ہے۔ اس طرح کھلونوں کو بچوں کی زندگیوں میں مرکزی حیثیت حاصل ہو جاتی ہے۔

جب ہم چھوٹے تھے تو اپنے کزنز کے ساتھ مل کر کچی مٹی کے کھلونے بنایا کرتے تھے۔ برتن، پھل، جانور، مکان، سڑکیں۔ لکڑی کے ٹکڑوں کو جوڑ کر ننھے فرنیچر بھی بنائے جاتے۔ اچھی والی مٹی ڈھونڈنے کے لئے محنت بھی کرنی پڑتی تھی اور گلیوں میں گھومنا بھی پڑتا تھا۔

گرمیوں کی چھٹیاں اسی قسم کےکاموں میں گزرتی تھیں۔

مختلف شکلوں والے پتھر، سیپیاں اور رنگین شیشےجمع کرنا، کوئی زیور ٹوٹ جائے تو اس کے موتی یا نگینے سمیٹ کر کسی بقچی میں جمع کر لینا، کوئی کپڑے کا خوبصورت ٹکڑا یا کاغذ مل جائے تو اسے بھی چھپا لینا۔ اور اس طرح ہمارے پاس خزانے کا چھوٹا سا صندوق بن جایا کرتا تھا۔

کھیل کھیل میں پتے اور پھول جمع کر کے ان کے کھانے تیار کرنا، لکڑیوں کو توڑ کر آگ جلانا اور ہاتھوں کو مٹی سے بھر لینا۔

مہنگے کھلونے شاذونادر تحفتاً مل جاتے ورنہ چھوٹے موٹے برتنوں اور فطرت کے خزانے کی مدد سے خود کھلونے تخلیق کر کے کام چلانا پڑتا تھا۔
بچے فطرت کے خزانے سے اپنے طور اپنا تعلق استوار کرتے۔ مٹی، پتھر، لکڑی، پانی، پھول اور پتوں میں کھیلتے بڑے ہو جاتے۔ اور ان کھلونوں سے لطف اندوز ہو لینے کے بعد ان کو تلف کرنا کوئی چیلنج نہ تھا۔ زمین فطرت کا یہ خزانہ بڑی فراخ دلی سے واپس اپنے دامن مین سمیٹ لیتی۔

زمانہ بدل گیا۔  بازار پلاسٹک کے مہنگے اور فینسی کھلونوں سے بھر گئے۔
یہ کھلونے سرمایہ دار کے بینکوں کا پیٹ بھرنے کے لئے بنائے جانے لگے۔

ہالی وڈ بچوں کے لئے فلمیں تیار کرتا ہے اور سرمایہ دار بچوں کے معصوم جذبوں کا استحصال کرتے ہوئے کھلونوں کے نام پران کے پسندیدہ کرداروں کے پلاسٹک کے دیدہ زیب مگر مہنگے نمونے تیار کر کے بازار بھر دیتا ہے۔ بچے کو کھلونا کھیلنے کے لئے چاہیے ہو تو ایک گڑیا اور چند گاڑیاں بھی کافی ہوتی ہیں۔ مگر آج کل فلموں کے کرداروں اور ان کی اشیاء جمع کرنے کا شوق محرک بن جاتا ہے۔ نت نئی فلمیں اور ان کے sequels بنتے ہیں، نئے کھلونے اور ان کے نئے ورژن چاہیے ہوتے ہیں اور اس طرح خواہشات کا ایک لامتناہی سلسلہ چلتا رہتا ہے۔

کھلونے اب بچوں کی چھوٹی سی معصوم دنیا میں ان کے کھیلنے کی ایک بہت ذاتی سی چیز نہیں رہے، یہ تو سٹیٹس سمبل بن گئے ہیں۔ بچے ایسے کھلونے صرف کھیلنے کے لئے بھی نہیں خریدتے بلکہ اب collections متعارف کروائی جانے لگی ہیں۔ بچے دیوانے ہوکر کھلونوں کی ذخیرہ اندوزی کرتے ہیں۔ کتاب مہنگی لگتی ہے کہ ایک بار پڑھ کر ضائع ہو جائے گی، خریدنے کی کیا ضرورت؟ مگرمشین سے ڈھالی ہوئی حقیقی شے کی بالکل ننھی سی کاپی یعنی ایک کھلونا مہنگے داموں خرید لیا جاتا ہے۔

ہر گھر میں اور بازاروں میں اس ڈھیر کو دیکھ کر خیال آتا ہے کہ جیسے پلاسٹک کے ان کھلونوں کے انبار تلے کرہ ارض کا دم گھٹ رہا ہے۔ سوچیے، ہم اس عظیم الشان ڈھیرکو تلف کہاں کریں گے؟

گزرے وقتوں میں بچے بے قیمت اشیاء کو خزانہ سمجھ کر عزیز رکھتے تھے۔ اب سامان کی اتنی کثرت کا نتیجہ یہ ہے کہ بیش قیمت کھلونے سے بھی کچھ دنوں کے بعد دل بھر جاتا ہے اور نئے کی خواہش مچلنے لگتی ہے۔
ہم نے مقدور بھر بچوں کو مہنگے پلاسٹک کھلونوں کے نشے سے دور رکھنے کی کوشش کی۔ جب سستے اور چھوٹے کھلونے سے بچے خوش ہو جاتے ہیں تو انہیں مہنگے کھلونوں کی ہوس میں کیوں مبتلا کیا جائے؟ خریدتے ہوئے دل چاہے کتنا ہی للچائے خیال رکھتے ہیں کہ مہنگےکھلونے نہ خریدے جائیں، بار بار نت نئی فرمائشیں پوری نہ کی جائیں، اور بچوں کو سمجھایا بھی جاتا رہے۔

جب بیٹی نے شرماتے ہوئے اصرار کیا، "مجھے ڈول ہاؤس چاہیے" تب ہم نے انہیں کہانی سنائی کہ ان کی عمر میں ہم نے لکڑی کےٹکڑوں اور تختوں کو جوڑ کر کئی منزلہ گڑیا گھر خود بنایا تھا۔ اس میں خود بنا کر پردے اور قالین لگائے۔ یہاں تک کہ اس کے لان میں کیاریاں بنا کر حقیقی پودے بھی لگائے تھے۔ آپ بھی اپنا ڈول ہاؤس خود بنائیے۔

بس تب سے وہ اپنی کزنز کے ساتھ مل کراپنے لئے استعمال شدہ گتے کے ڈبوں سے گڑیا کے گھر اور محلات بناتی ہیں۔ ان کے بھائی ڈاؤن ٹاؤن اور کثیر المنزلہ گیراج، ریسنگ ٹریکس اور شہر کے ماڈل بناتے ہیں۔ استعمال شدہ کاغذ سے جانور، پرندے، جہاز، لیپ ٹاپس، فون، آئی پیڈز، بستے اور مختلف اشیاء بنائی جاتی ہیں۔ پرانی چادریں ، قمیضیں اور دوپٹے کاٹ کر اپنے لئے stuffed  کھلونے، کشنز، اور تکیہ غلاف بنا لیتی ہیں۔ ان کی رنگین پنسلوں کے لئے گتے کی بنائی گئی چیریز کی شکل کے پین ہولڈرز پائے جاتے ہیں۔

یہ ایک چھوٹی سی کوشش ہے کہ بچوں کو جدید کھلونوں کے نام پر چھوٹی عمر سے ہوس اور ذخیرہ اندوزی اور دکھاوے سے محفوظ رکھا جا سکے، ان کی تخلیقی صلاحیت بھی پروان چڑھے، اور کرہ ارض کے نظام تنفس پر پلاسٹک کے انبار کابوجھ کچھ کم ہو۔

مگر پھر بھی ایک خلش ہے کہ آج ہمارے بچے مٹی میں ہاتھ نہیں لتھڑ سکتے، پانی میں بھیگتے نہیں، پتوں اور لکڑی کے ٹکڑوں کو بڑی احتیاط سے چھوٹی صندوقچیوں میں جمع نہیں کرتے کہ ان کے پاس بیش قیمت کلیکشن ہوتے ہیں۔

آج بچے سکرینوں پر نظریں جمائے رکھتے ہیں اور گلیوں میں گھوم کر کچی مٹی اور انوکھے پتھر ڈھونڈنے نہیں جا سکتے۔ شاید اس لئے کہ گلیاں صاف ستھری ہیں، درخت کاٹے جا چکے، پتھر کوٹ کر بہتر اور ہموار سڑکیں بچھا دی گئی ہیں اور گلیوں محلوں میں اجنبی درندوں کی آبادیاں بڑھ گئی ہیں۔

مصنفہ طب اور نفسیات کی طالبہ، کینیڈا میں رہائش پذیر ہیں اور کمیونیٹی ورک میں دلچسپی رکھتی ہیں۔ اردو اور انگریزی ادب سے خاص لگاؤ ہے، چھوٹی عمر سے میگزینز میں لکھ رہی ہیں۔