پی ٹی وی کی آزادی ایک خواب جو کچھ لوگوں کو نواز شریف کی طرح جیل بھیجے بغیر شرمندہ تعبیر نہ ہوگا

پی ٹی وی کی آزادی ایک خواب جو کچھ لوگوں کو نواز شریف کی طرح جیل بھیجے بغیر شرمندہ تعبیر نہ ہوگا
جب بھی کوئی نئی حکومت آتی ہے تو ابتدائی جو بھی دعوے کرتی ہے ان میں یہ نعرہ سب سے پہلے لگایا جاتا ہے، کہ ہم سرکاری ٹی وی یعنی پاکستان ٹیلی وژن کو بی بی سی بنا کر ہی دم لیں گے، آزاد ایڈیٹوریل پالیسی اختیار کی جائے گی، کوئی مداخلت نہیں ہوگی۔ ہم نے بھی اسی آس میں سرکاری ٹی وی کے ساتھ بتیس سال گزار دیے، کہ آج نہیں تو کل یقینی طور پر پی ٹی وی آزاد ہو جائے گا۔ پر وہ دن نہ کبھی آیا اور شاید نہ کبھی آئے۔

پی ٹی وی کو آزادی ملی، پر وقتی ملی، سرکاری ٹی وی کو آزادی دینے کے لئے بڑے بڑے نامور صحافی آتے اور جاتے رہے، پر اپنا قد اور سی وی بہتر کر کے گھر کو ہو لیے، انہوں نے نہ صرف اپنا سی وی بہتر کیا بلکہ بھرپور اور طرح طرح کے طریقے اختیار کر کے پی ٹی وی کو لوٹا۔ میں اگر یہاں ان کے نام بیان کر دوں تو شاید طوفان برپا ہو جائے۔

بینظیر بھٹو کی آزادی کی پالیسی ایک ہی جھٹکے میں ہمیشہ کے لئے گم

میں نے 1986 میں پی ٹی وی کے شعبہ خبر میں ملازمت اختیار کی، جب 1988 میں بینظر بھٹو شہید کی پہلی حکومت بنی تو معروف براڈکاسٹر جاوید جبار کو وزیر اطلاعات و نشریات کا قلمدان دیا گیا۔ انہوں نے آتے ہی اعلان کیا کہ پی ٹی وی اب آزاد ہے، جیسے چاہے خبروں کو دکھایا جا سکتا ہے، پر یہ آزادی اس وقت ختم ہو گئی، جب اسلام آباد میں سلمان رشدی کے ناول شیطانی آیات (satanic verses) کے خلاف جناح ایونیو پر احتجاجی جلوس نکلا تو پولیس اور مظاہرین کی درمیان جھڑپ میں میں پانچ افراد جاں بحق ہو گئے۔ پی ٹی وی نے اس کی خبر آزادانہ اور پروفیشنل طریقے سے دی، پر دوسرے دن اسمبلی میں ایک بھونچال آ گیا اور اپوزیشن نے حکومت کی شدید مذمت کی، ملک بھر میں ناول کے خلاف احتجاج بڑھ گیا، اور حکومت نہ تو احتجاج کو کنٹرول کر سکی اور نہ پی ٹی وی کی آزادی کو برقرار رکھ سکی۔

پی ٹی وی کی تاریخ میں پہلی مرتبہ سیاسی پارٹی کا نمائندہ نیوز روم میں بٹھا دیا گیا، جو ہر اہم اور غیر اہم خبر کو ایڈیٹ کیا کرتا تھا۔ ارشاد راؤ صاحب جو ابھی حیات ہیں، انہیں یہ ذمہ داری سونپی گئی، جنہوں نے جاوید جبار صاحب کو مکمل طور پر پی ٹی وی کے معاملات سے لا تعلق کر دیا، بعد میں انہیں وزارت سے الگ کر کے سائنس اور ٹیکنالوجی کا وزیر بنا دیا گیا۔ یہ آزادی دو ماہ سے بھی کم عرصہ رہ سکی۔ گویا چراغوں میں روشنی نہ رہی، ہمیشہ کے لئے۔ بعد میں آنے والی ہر حکومت نے پی ٹی وی کو اپنے پروپگنڈہ کے لئے استعمال کیا، نون کے علاوہ ہر دور میں کچھ عرصہ پی ٹی وی کو آزادی ملی جو واپس لے لی گئی۔

نون لیگ نے کبھی پی ٹی وی کے لئے کچھ بہتر نہیں کیا، بلکہ گذشتہ دور میں تو نقصان پہنچایا

نون لیگ کی حکومت چاہے کسی بھی دور کی ہو اس نے پی ٹی وی کی آزادی یا بہتری کے لئے کبھی کوشش نہیں کی۔ اس حوالے سے پچھلا دور تو بد ترین تھا، کیونکہ جہاں پی ٹی وی نے بدترین سینسر شپ دیکھی، وہاں مالی طور پر بھی دانستہ نقصان پہنچایا گیا تاکہ ایک مخصوص میڈیا گروپ کو فائدہ پہنچایا جائے۔ پانچ سالوں میں صرف ایک ایم ڈی لگایا گیا وہ بھی صرف دو سال کے لئے۔ اور اس دور میں بھی جس جس طریقے سے خبروں کو سنسر کیا گیا اس پر ایک کتاب لکھی جا سکتی ہے۔ ہاں میں کوشش ضرور کروں گا کہ تمام ادوار کے حوالے سے ایک کتاب لکھی جائے تاکہ ان لوگوں کے بھی معاملات تاریخ کا حصہ بنیں جنہوں نے صحافت کی آڑ میں، اہل نہ ہوتے ہوئے بھی پی ٹی وی میں آ کر نہ صرف اسے لوٹا بلکہ بددیانتی کا مظاہرہ کیا۔ آج انہی لوگوں کو موجودہ حکومت کے گن گاتے دیکھا جا سکتا ہے۔

اب بھی کم از کم تین سو کے قریب ملازمین اپنے واجبات کی ادائیگیوں کے انتظار میں دو دو سال سے بیٹھے ہیں

پی ٹی وی کی صورتحال یہ ہے کہ گذشتہ پانچ سالوں میں اپنی مدت ملازمت مکمل کرنے والوں کو اڑھائی سے سے تین تین سال تک واجبات کے حصول کے لئے انتظار کرنا پڑ رہا ہے۔ اب بھی کم از کم تین سو کے قریب ملازمین اپنے واجبات کی ادائیگیوں کے انتظار میں دو دو سال سے بیٹھے ہیں، پر کسی کو یہ احساس نہیں کہ ان کے بھی بچے ہیں، کوئی پڑھ رہا ہو گا، کسی کی شادی کرنا ہوگی، کسی نے مکان بنانا ہوگا، پر ہر سطح پر بے حسی ہی بے حسی ہے۔ اس حکومت کو بھی ایک ماہ سے زیادہ ہو چکا، آج تک ایم ڈی کی تقرری نہ ہو سکی۔

کلرکوں اور ٹیلیفون آپریٹروں کو پروموشن دے کر پروڈیوسر بنایا گیا

پی ٹی وی کے اصل مسائل کی وجہ پروفیشنل ادارے میں یونین اور اس کی کارستانیاں، اقربہ پروری، میرٹ کے خلاف بھرتیاں، کلرکوں اور ٹیلیفون آپریٹروں اور اسی قسم کے لوگوں کو پروموشن دے کر پروڈیوسر بنایا گیا، آج وہ جنرل مینیجر، پروگرام مینیجر، انتظامی افسر بن چکے ہیں، اور جو لوگ ٹیسٹ انٹرویو دے کر میرٹ پر بھرتی ہوئے وہ دھکے کھا کھا کر گھر جا چکے۔ میرٹ کی پامالی کی انتہا یہاں تک پہنچ گئی کہ ایک صاحب جنہوں نے کبھی خبر تک نہ بنائی، وہ افسروں کی خدمت کر کر کے ان کے گھروں کی سبزیاں ڈھو ڈھو کر ڈائریکٹر نیوز تک بن گئے۔

بھرتیوں کا حال یہ ہے کہ ایک ملازم پنی ملازمت کی تکمیل کے بعد ایک بچہ ملازم کرا سکتا ہے، پر یہاں تو ملازمت کے دوران انتظامیہ، فائنانس اور اکاؤنٹس کے اہلکاروں نے دو سے چار بچے بھرتی کرا لیے، جو نہ صرف مالی بوجھ بنے بلکہ کرپشن اور بد انتظامی کی وجہ بھی ہیں۔

کیا تحریک انصاف ماضی کے تمام ادوار کے مینیجنگ ڈائریکٹروں سے لوٹا ہوا مال برآمد کرے گی؟

تحریک انصاف کی حکومت سے میرا سوال ہے کہ کیا وہ ماضی کے تمام ادوار کے مینیجنگ ڈائریکٹروں کے معاملات کی تحقیقات کروا کر، ان سے لوٹا ہوا مال برآمد کریں گے؟ ان کو بھی نواز شریف کی طرح جیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈلوائیں گے؟ پی ٹی وی سپورٹس کے معاملات کا کیا جائزہ لیا جائے گا اور اس کے نقصانات کی وجوہات کا پتہ لگایا جائے گا؟ کیا پی ٹی وی ہوم کی لئے غیر معیاری پروگراموں کی خریداری، شالیمار ریکارڈنگ کمپنی اور اے ٹی وی کے معاملات اور پچپن، ساٹھ کروڑ کے واجبات کی عدم ادائیگیاں اور اس کے پیچھے کار فرما افراد کا پتہ لگایا جائے گا اور انکے خلاف کارروائی کی جائے گی؟

کسی بھی نئے ایم ڈی کے لئے پی ٹی وی کی بحالی ایک بڑا چیلنج ہوگا، ان کی یہ اولین کوشش ہونی چاہیے کہ سفارشی لوگوں، اینکروں کو باہر کریں، ان میں ایسے بھی ہیں جن کی سیاسی وابستگیاں ہیں اور وہ نجی چینلز سے کرپشن پر نکالے گئے۔ اس کے علاوہ ہر سطح پر پروفیشنل افراد کو لگا کر پی ٹی وی کو پرائیویٹ چینلز کے مقابلے کے لئے تیار کرنا ہوگا۔ یہ مشکل کام نہیں، بس اس کے لئے متوازی ایڈیٹوریل پالیسی دینا ضروری ہوگا۔ جبکہ ریٹائر ہونے والوں کے واجبات کی ادائیگیاں فوری کرنے کا بندوبست کرنا ہوگا۔

مصنف سینئر صحافی ہیں اور ان سے asmatniazi@gmail.com پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔