افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہماری عدلیہ کی تاریخ کسی بھی دور میں قابل ستائش نہیں رہی۔ یہ ہمیشہ زور آور کے ہاتھ کی چھڑی اور جیب کی گھڑی بنی رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج اگر عدلیہ عوام کے اعتماد سے محروم ہے تو اس میں 'دیگر عوامل' کے علاوہ اس کا اپنا بھی کردار ہے۔ 1954 میں جسٹس منیر نے عدلیہ کیلئے جو کردار چنا وہ ایک محکوم ادارے کا تھا جو ایک زور آور کے سامنے اپنے آپ کو بے بس پاتا ہے۔ اسی ادارے کے ایک سابق رکن نے کہا کہ بغاوت کامیاب ہو جائے تو وہ انقلاب کہلاتی ہے۔ کیا یہ بات باعث ندامت نہیں تھی؟ کیا اس سے عدلیہ کی توقیر میں اضافہ ہوا؟ کیا اس قسم کی بات کہنے والے کو منصف کی کرسی پر براجمان رہنا چاہیئے تھا؟ کیا اس منصف کے خلاف سخت کارروائی عین فرض نہیں تھی؟ ان سب باتوں کے باوجود ہمیں عدلیہ پر تنقید کا حق کیوں نہیں؟ یہ کوئی مقدس ادارہ نہیں جس پر تنقید نہ کی جا سکے۔ مقدس وہ ادارہ ہوتا ہے جس کی دل سے تقدیس کی جائے نہ کہ جبر سے، کیونکہ جبر آمریت کی نشانی ہے۔ اگر عدلیہ ہتھوڑے کے زور پر عوام کو اپنی عزت کرنے پر مجبور کرنا چاہتی ہے تو پھر یاد رہے کہ عوام کا ریلا آمر کو بھی بہا کر لے جاتا ہے۔
آج ہمارے محترم جج صاحبان ہاتھ میں ہتھوڑا لیے اپنے منصب سے بے بہرہ جو دل میں آتا ہے کہہ گزرتے ہیں۔ چیف جسٹس صاحب اداروں کے افسران سے کہتے ہیں کہ آپ ریاست کے ملازم ہیں حکومت کے نہیں۔ بالکل بجا ارشاد فرمایا لیکن کیا آپ نے اپنے کردار پر بھی غور کیا؟ آپ کی عدالت بے گناہوں کے پھانسی چڑھ جانے کے بعد ان کی بریت کا حکم دیتی ہے۔ وہ جو تاریک راہوں میں مارے گئے ان کا خون کس کے سر ہوگا؟ نواز شریف کے خلاف کچھ ثابت نہیں ہوتا لیکن ان کے مقدمات ایک آمر کے تخلیق کردہ بدنام زمانہ نیب کے حوالے کر دیئے جاتے ہیں لیکن دوسری طرف جہانگیر ترین کے مقدمات ثابت ہونے کے باوجود نیب کو نہیں بھجوائے جاتے۔ کیا یہ دوہرا معیار نہیں؟
عوام بغور دیکھ رہی ہے کہ آپکی عدالت سے نواز شریف، اسحاق ڈار اور دیگر سیاستدانوں کے وارنٹ تو جاری ہو جاتے ہیں لیکن پرویز مشرف کیلئے آپ کا رویہ بالکل مختلف ہے۔ قتل اور آئین توڑنے جیسے سنگین جرائم میں مطلوب آمر کیلئے آپ کی زبان سے شیرینی ٹپک رہی ہوتی ہے۔ سابق آرمی چیف کے خلاف تو آپ نے کیا فیصلہ دینا ہے آپ تو 450 افراد کے قتل میں ملوث ایک ایس ایس پی راؤ انوار کو بھی وی آئی پی کا درجہ دیتے ہیں۔ اس متضاد رویہ پر آپ کچھ بھی کہیں لیکن عوام جانتی ہے کہ آپ کس کے دباؤ کے تحت ایسے فیصلے کر رہے ہیں۔
جس عدالت میں وقت کے وزیر داخلہ کو داخل نہیں ہونے دیا جاتا اسی عدالت میں ایک اہم ادارے کا افسر اسی عدالت کے 'عزت مآب' جج سے ملتا پایا جاتا ہے۔ کیا اس عدلیہ کی تقدیس کرنے کا حکم دے رہے ہیں جناب؟ کیا آپ کی عدالت کے ایک فیصلے کا حوالہ دینے پر بنگلہ دیش کے چیف جسٹس کو استعفا نہیں دینا پڑا؟ کیا آج آپ کی عدالت میں یہ جرات ہے کہ وہ بھٹو کی پھانسی کے حکم کو فخر سے تسلیم کرے؟ کیا آپ کی عدالت سینہ ٹھونک کر کہہ سکتی ہے کہ مارشل لاء کو جائز قرار دینا آئین پاکستان سے انحراف نہیں تھا؟ کیا ان فیصلوں کے بعد بھی آپ ہم سے یہ توقع کرتے ہیں کہ ہم آپ کی تکریم کریں گے؟
انسان خطا کا پتلا ہے لیکن رب کائنات نے معافی کا دروازہ کھلا رکھا ہے کہ کسی بھی وقت راہ راست پر آ سکتا ہے۔ کیا عدل سے مایوس پاکستان کی عوام آپ سے مستقبل میں بغیر کسی خوف و عناد کے فیصلے کی امید کر سکتی ہے؟ واضح رہے اللہ تعالیٰ اپنے ہر بندے کو مہلت دیتا ہے لیکن صرف ایک مخصوص مدت تک۔ اللہ کا عذاب آنے سے پہلے اپنے ماضی پر ندامت کا اظہار کرتے ہوئے اپنی عاقبت سنوارنے کا آپ کے پاس موقع ہے۔ کیا آپ اللہ کی دی گئی مہلت سے فائدہ اٹھا کر اپنی تقدیس کروانا پسند کریں گے؟