پاکستانی قوم بھی بس کسی چیز کے پیچھے لگ جائے تو معاملہ رفع دفع کروانا مشکل ہو جاتا ہے۔ ’پاؤری ہو رہی ہے‘ والی meme کو اس وقت تک رگڑا جاتا رہا جب تک کہ اس سے نفرت نہیں ہو گئی۔ اب دو دن سے سوشل میڈیا پر ایچیسن کالج کا ایک مبینہ خط گھوم رہا ہے جو غالباً کسی بچے کے والد کو لکھا گیا ہے کہ آپ کے مطابق آپ کی سالانہ آمدنی ’محض‘ 18 لاکھ ہے، لہٰذا آپ ہمارے سکول میں اپنے بچے کو پڑھانا afford نہیں کر سکتے۔ چنانچہ بچے کا داخلہ مسترد کیا جاتا ہے۔
عوام ناراض ہیں کہ ایچیسن کالج نے صاف صاف کیوں کہہ دیا کہ تم مڈل کلاس سے تعلق رکھتے ہو، تمہارا خواب ضرور ہو سکتا ہے کہ اب تم نے نامساعد حالات کے باوجود مناسب تعلیم حاصل کر کے ایک مناسب نوکری کر لی ہے تو تمہارے بچوں کو برہمنوں کے بچوں کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے اور پڑھنے لکھنے کا موقع ملنا چاہیے، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ تمہاری سب خواہشات پوری بھی کی جائیں۔ یہ اشرافیہ کا سکول/کالج ہے، یہاں اشرافیہ ہی آتی ہے، اور اشرافیہ ہی نکلتی ہے۔ دنیا جانتی ہے، we make chiefs۔
اس میں سیخ پا ہونے والی کیا بات ہے؟ کس کو نہیں پتہ تھا کہ یہاں تعلیم بہت مہنگی ہے؟ اور یہیں نہیں، لاہور گرامر سکول، سلامت اکیڈمی، بیکن ہاؤس، لکاس، سب جگہ ہی تعلیم حاصل کرنا ایک عام مڈل کلاس خاندان میں بچوں کے باپ کا خواب ہی ہو سکتا ہے۔ یہ خط صرف حقیقت بتا رہا ہے۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ عزتِ نفس کا خیال رکھنے کی خاطر بندے کو تھوڑا زہر میں شہد ملا کر کھلایا جاتا تو بہتر تھا۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیوں؟ یہ نظام تو یہاں ایسے ہی موجود رہتا۔ میرے ایک بھائی نے ٹوئٹر پر کہا ایچیسن کو گرا کیوں نہ دیا جائے؟ میں نے پوچھا اس سے کیا ہوگا؟ جب طبقاتی نظام اپنی جگہ موجود ہے تو اس کی نشانی کو گرانے سے کیا ملے گا؟ کچھ کرنا ہے تو نظام کو تبدیل کریں۔ یہ اینٹ اور چونے کے در و دیوار گرانے سے کیا ہوگا؟
چند سال قبل لاہور گرامر سکول کا ایک نوٹس بھی انٹرنیٹ پر یونہی وائرل ہوا تھا۔ اس میں کہا گیا تھا کہ 9 ستمبر تک بچے کی فیس جمع کروا دیں ورنہ اسے سکول نہ بھیجیں۔ اگر یہ بچی اس کے بعد کلاس میں نظر آئی تو اسے کلاس سے باہر نکال کر گھر فون کر دیا جائے گا کہ آ کر لے جائیں۔ براہِ مہربانی سکول اور بچی کو اس مشکل صورتحال میں مت ڈالیں۔ ہم نے چار دن سوشل میڈیا پر بین ڈالے، اور پھر اپنی اپنی زندگیوں میں مشغول ہو گئے۔
حقیقت یہ ہے کہ لاہور گرامر سکول اور ایچیسن کو تو چھوڑیے، ان سکولوں کی ہوشربا فیسوں کے باعث گلی محلوں کے چھوٹے،
چھوٹے سکول خود کو انگریزی میڈیم لکھتے ہیں اور تیسری جماعت کے بچے کی پانچ سے سات ہزار روپے فیس رکھ چھوڑی ہے۔ ماں باپ بیچارے بچوں کے کزنز اور اپنے دوستوں کے بچوں کو جن سکولوں میں جاتا دیکھتے ہیں، اس کے دباؤ میں ان نوسربازوں کے ہاتھوں لٹنے پر مجبور ہیں۔ اور پھر یہ سکول ان مجبور والدین سے ماہانہ ہزاروں روپے اینٹھنے کے بعد بھی کوئی بین الاقوامی سطح کی تعلیم نہیں دے رہے۔ بچے انگریزی چھوڑیے، اردو کے بھی دو سیدھے جملے بنانے سے قاصر ہیں۔
یہ طبقاتی نظامِ تعلیم معاشرے میں طبقات کو برقرار رکھنے میں کلیدی کردار کا حامل ہے۔ اگر یہ نہ ہو، ملک بھر میں فلاحی ریاستوں کی طرح تعلیم کو مفت کر دیا جائے، ٹیوشن فیس لینے کو جرم قرار دیا جائے، والدین پر لازم ہو کہ بچے کو اپنی یونین کونسل سے باہر کسی سکول میں نہیں بھیجا جا سکتا خواہ آپ کے بینک اکاؤنٹ میں کتنے ہی پیسے ہیں۔ بلکہ اگر ضرورت سے زیادہ ہیں تو محلے کے سرکاری سکول کو بہتر بنانے کے لئے چندہ فراہم کریں کیونکہ آپ کا اپنا بچہ بھی یہیں پڑھتا ہے، تو یہ نظامِ تعلیم خود بخود چند سالوں میں بہتر ہو سکتا ہے۔ یقین جانیے یہ بدل سکتا ہے۔ مگر ہم بضد ہیں کہ منٹو کے افسانے ’یزید‘ کے چودھری کی طرح گالیاں دے کر پیٹ ہلکا کرنا ہے، غاصب سے اپنا پانی چھڑانے کے لئے سیاسی و سماجی جدوجہد پر توجہ نہیں دینی۔ بلکہ کوئی دے رہا ہو تو اس پر بھی ’طلبہ کو سیاسی بنانے‘ کا ’الزام‘ لگا کر دشنام کا حقدار ٹھہرانا ہے۔ جب تک یہ طرزِ عمل جاری رہے گا، آپ یوں ہی نوٹس اور خطوط موصول کرتے رہیں گے، دل میں کڑھتے رہیں گے، گھر میں لڑتے رہیں گے، بہت ہوا تو سوشل میڈیا پر اس کھیت کے ہر خوشہ گندم کو جلا دینے کے مطالبے کرتے رہیں گے۔ مگر خود سے کچھ بھی بدلے گا نہیں۔