دنیا بھر میں لوگ ملازمت کے بجائے اپنے کاروبار کو ترجیح دیتے ہیں اور اپنے کام میں بھی اسٹارٹ اپ کا آئیڈیا سب سے زیادہ فروغ پا رہا ہے۔ اس کی سب سے اہم وجہ ترقی کے بے پناہ مواقع ہیں اسی لیے بدلتی دنیا کے ساتھ پاکستان میں بھی تبدیلی نظر آرہی ہے۔ جہاں ایک پاکستانی بزنس سٹوڈنٹ "ہدی غریب" نے تہیہ کیا ہے کہ پاکستانی طالبعلموں کو سکول کی سطح پر اسٹارٹ اپ کلچر سے روشناس کرایا جائے اور ساتھ ہی ساتھ ان میں آنٹرپرینیورشپ سکلز کو پروان چڑھایا جائے۔ اس مقصد کے تحت ہدی غریب نے کراچی شہر کے مختلف سکولز کے طلبہ و طالبات کو " ای میجین" کے زیر اہتمام "بزنس آئیڈیاز" ڈیئر ٹو امیجن ویژنز تھری پوائنٹ زیرو کا انعقاد کیا۔ جہاں سو سے زائد سکولز کے کم و بیش چار سو طلبہ و طالبات نے شرکت کی۔ اس ایونٹ کا فارمیٹ جہاں ان سٹوڈنٹس کے لئے دلچسپ تھا وہیں ان کی سکلز کے نکھار کے لئے منفرد بھی تھا۔
پروگرام کے پہلے حصے میں ہر سٹوڈنٹ گروپ نے بزنس لیڈرز کے ساتھ بیٹھ کر اپنے آئیڈیاز کو ریفائن کیا اور دوسرے حصے میں ان آئیڈیاز کو ججز اور حاضرین کے سامنے پریزنٹ کیا۔ اس موقع پر ایڈورٹائزنگ گرو جناب جاوید جبار نے کہا کہ یہ خوش آئند بات ہے کہ پاکستانی سکولز اپنے طلبہ و طالبات کو بزنس کے وہ گر سکھا رہے ہیں جو شاید انہیں یونیورسٹیز کی سطح پر جا کر پتہ چلتے، جو کہ واقعتا ایک بڑی تبدیلی ہے۔ جس کا ہمیں شدت سے انتظار تھا اور اس کا سارا کریڈٹ ہدی غریب کو جاتا ہے۔ جنہوں نے ان سکولز کی میجمینٹ کو قائل کیا کہ وہ اپنے طلبہ و طالبات کو اس مقابلے کا حصہ بنائیں۔
ٹیک پاکستان کے سی ای او کنول مسعود کا کہنا تھا کہ یورپ اور امریکہ میں سمر سکولز بچوں میں بزنس کرنے اور انہیں آئیڈیاز پر کام کرنے کی تربیت دیتے ہیں لیکن ہماری بد قسمتی رہی کے ہم نے اپنے نصاب کو تبدیل نہیں کیا۔ لیکن، ہدی غریب کا اس طرح سے بچوں کو ایک پلیٹ فارم مہیا کرنا قابل تحسین ہے۔ پاکستانی سکولز کو اس مقابلے میں اس قدر دلچسپی سے شرکت کرنا میرے لئے حیران کن بھی ہے اور باعث مسرت بھی۔ کیونکہ، یہ میری زندگی کا مشن ہے کہ پاکستان کے ہر سکول تک پہنچوں اور انہیں سمال بزنس اور اسٹارٹ اپس کی جانب لے کر آوں، تاکہ یہ ملکی معیشت کو مستحکم کرنے اور بیروزگاری کے خاتمے کے لئے مددگار ثابت ہوسکیں اور یہ سب ممکن ہوگا۔ آپ کی لگن، جذبے اور محنت سے کیونکہ ہمیں اس قوم کے لئے معاشی جانباز بننا ہے جو بہتر سے بہترین بنائے اس ملک کی معیشت کو۔
ان مقابلوں کی خاص بات طلبا کا ملک کی معیشت کو مستحکم بنانے کا عزم اور باقاعدہ حکمت عملی سے بزنس کرنا تھا۔ تاکہ بیروزگاری ختم کر کے ملک کو ترقی یافتہ ملکوں کی فہرست میں شامل کیا جا سکے۔ ان منفرد مقابلوں کی خالق ہدی غریب کا کہنا تھا کہ ہمیں پاکستان میں بزنس اسٹارٹ اپس کو سکول کی سطح پر نصاب کا حصہ بنانا ہوگا تاکہ معیشت کو دنیا کی مستحکم معیشتوں میں شامل کرا سکیں۔
اس مقابلے میں بہترین بزنس آئیڈیا کا ایوارڈ پہلی پوزیشن کے ساتھ سٹی سکول معمار کیمپس کے طالبعلم انعم کاشف اور زوہیب صدیقی سمیت ٹیم نے حاصل کیا۔ جنہوں نے بارش کے بعد سڑکوں پر جمع ہونے والے گندے پانی کی ری سائیکلنگ اور انہیں بروقت قابل استعمال بناکر ان ایریاز تک پہنچانے کے آئیڈیا کو پیش کیا۔ دوسرا انعام بھی سٹی سکول درخشاں کیمپس کی سیدہ حور عین اور انکی ٹیم نے نابینا افراد کے لئے ایک ڈیوائس کا آئیڈیا پیش کیا جس کی مدد سے ان کی بینائی واپس لائی جاسکے گی۔ تیسرا انعام بیکن لائٹ سکول کے محمد بلال قریشی اور ان کی ٹیم نے حاصل کیا جنہوں نے سکول کے طالبعلموں کے لئے ایک اسمارٹ پیجر کا آئیڈیا پیش کیا، جس کے ذریعے وہ روزانہ کے سکول، کالج اور یونیورسٹی ورک کو بخوبی انجام دینے کے ساتھ ساتھ بیگ کے بوجھ سے بھی آزاد ہو جائیں گے۔
اس کے علاوہ ان مقابلوں میں کئی سکولز کے طلبہ و طالبات نے منفرد آئیڈیاز بھی پیش کیے جن میں ماحولیاتی تبدیلی کے حوالے سے سماجی مسئلے کا حل اور کچرے کو ری سائیکل کے ذریعے منفرد پراڈکٹس کے آئیڈیاز کو بھی حاضرین نے خوب سراہا۔ پاکستان میں سکولز کی سطح پر ایسے مقابلوں کا انعقاد یقننا ایک قابل فخر کارنامہ ہے اور ایک لڑکی کے عزم اور ہمت کی داستان بھی کسی بھی قوم کی ترقی کا راز محنت اور تربیت میں پوشیدہ ہے اور اس کا نکتہ آغاز نسل کی سربراہ سے ہی تعبیر ہے۔