Get Alerts

نواز شریف کی پاکستان واپسی پر قانون اپنا راستہ اختیار کرے گا: نگران وزیراعظم

انوارالحق کاکڑ نے کہا کہ انتخابات میں پی ٹی آئی کے ساتھ قطعاً کوئی سختی نہیں برتی جائے گی۔ ہاں اُن لوگوں کے ساتھ قانون کے مطابق ضرور نمٹا جائے گا جو منفی سرگرمیوں میں ملوث پائے گئے۔

نواز شریف کی پاکستان واپسی پر قانون اپنا راستہ اختیار کرے گا: نگران وزیراعظم

نگران وزیر اعظم انوارالحق کاکڑ کا کہنا ہےکہ پاکستان تحریک انصاف کے ساتھ قطعاً کوئی سختی نہیں برتی جائے گی۔ پاکستان مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف پاکستان واپس آئیں گے تو قانون اپنا راستہ خود اختیار کرے گا اور نگران حکومت نے سابق وزیراعظم کی آمد کے حوالے سے منصوبہ بندی کے لیے وزارت قانون سے رابطہ کیا ہے۔

برطانوی نشریاتی ادارے کو انٹرویو میں نگران وزیراعظم انوارالحق کاکڑ کا کہنا تھا کہ ن لیگ کے قائد نواز شریف عدالتی حکم نامے کے ساتھ ملک سے باہر گئے تھے۔ نگران حکومت چاہتی ہے کہ ان کی وطن واپسی سے متعلق قانون اپنا راستہ خود اختیار کرے۔سابق وزیر اعظم کی ممکنہ گرفتاری اور جیل بھیجنے کے بارے میں حکومت نے وزارت قانون سے رائے بھی طلب کی ہے۔ اس بارے میں اجلاس طلب کیا جائے گا۔

انہوں نے نواز شریف کی سزا کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ ایک سزا یافتہ فرد کو ایگزیکٹو نے نہیں بلکہ عدالتوں نے ملک سے جانے کی اجازت دی تھی۔ وہ عدالتی اجازت نامے کے ساتھ ملک سے باہر گئے تھے۔یہ سوال ایگزیکٹو کے پاس نہیں بلکہ عدالتوں کے پاس ہے۔ میں تسلیم کروں یا نہ کروں جب ایک شخص کو اعلیٰ عدالتوں نے غلط یا صحیح طریقے سے سزا سنا دی ہے تو میرے کہنے سے نہ وہ سزا ختم ہو سکتی ہے نہ بڑھ سکتی ہے۔ نواز شریف کے خلاف جو فیصلہ آیا تھا وہ ایک فردِ واحد کے خلاف فیصلہ تھا۔ جس پر کچھ نے شادیانے بجائے لیکن ان کی جماعت نے اگلے انتخابات میں 90 کے قریب نشستیں بھی حاصل کی تھیں۔

انتخابات میں غیرجانبداری یقینی بنانے سے متعلق سوال پرانوارالحق کاکڑ نے کہا کہ پی ٹی آئی کے ساتھ قطعاً کوئی سختی نہیں برتی جائے گی۔ ہاں اُن لوگوں کے ساتھ قانون کے مطابق ضرور نمٹا جائے گا جو منفی سرگرمیوں میں ملوث پائے گئے اور وہ مخصوص افراد ہیں جو پچیس کروڑ کی آبادی میں پندرہ سو، دو ہزار بنتے ہوں گے۔ اُنہیں پی ٹی آئی سے جوڑنا منصفانہ تجزیہ نہیں ہو گا۔ 

نگران وزیراعظم کا مزید کہنا تھا کہ عدالتوں سے ریلیف نہ ملا تو چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کو بدقسمتی سے نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا۔ موجودہ صورتحال میں لگتا ہے کہ عمران خان کا مقابلہ فوج سے نہیں ریاست سے ہے۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ تحریک انصاف کیخلاف کارروائی کا جنرل ضیاء کے زمانے میں پیپلز پارٹی کیخلاف یاجنرل مشرف کے زمانے میں مسلم لیگ کیخلاف ہونے والی کارروائی سے موازنہ کرنا ’بیہودہ تجزیہ اورغلط بات‘ ہو گی۔

جب ان سے سوال پوچھا گیا کہ اگر چند سیاسی رہنماؤں کو الیکشن میں حصہ لینے کی اجازت نہ دی گئی تو کیا ملک میں جاری سیاسی بحران میں اضافہ ہو گا تو انوار الحق کاکڑ نے کہا کہ یہ کہنا قبل از وقت ہے۔ ہم قیاس آرائیاں نہیں کر سکتے کہ اس کا نتیجہ کیا ہوگا چونکہ یہ ہمارے مینڈیٹ سے باہر ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ جہاں تک میری حکومت کا تعلق ہے تو ہمارا مقصد بحران روکنا یا بحران پیدا کرنا نہیں ہے۔ ہمارا کردار قانون کے مطابق انتخابات میں جانا ہے اور اگر انتخابات کے نتیجے میں بحران پیدا ہوتا ہے تو پھر یہ پورے معاشرے اور ریاست کے لیے سوال ہے۔ یہ نگران حکومت کے لیے نہیں ہے۔