نگران وزیراعظم انوارالحق کاکڑ نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 78 ویں اجلاس سے خطاب میں مطالبہ کیا ہے کہ ہندوتوا انتہاپسندی سے متاثر سمیت ہر قسم کی دہشت گردی کا انسداد کیا جائے اور مسئلہ کشمیر کے حل کو پاک- بھارت امن کی بنیاد قرار دیا۔
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے نگراں وزیراعظم نے کہا کہ پاکستانی حکومت اور عوام کی جانب سے اجلاس کے کامیاب انعقاد پر مبارک باد پیش کرتا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلی اور کورونا کی وجہ سے معاشی بحران پیدا ہوا۔ دنیا کو مل کر اقدامات کی ضرورت ہے۔
انوار الحق کاکڑ نے کہا کہ دنیا سرد جنگ کی متحمل نہیں ہوسکتی کیونکہ ہمارے سروں پر موسمیاتی تبدیلیوں کی آفت کھڑی ہوئی ہے۔ پاکستان وہ ملک ہے جسے سب سے زیادہ موسمیاتی تبدیلیوں کے نقصانات کا سامنا ہے۔ سیلاب کی وجہ سے ہمارے 1700 شہری جاں بحق جبکہ ہزاروں گھر تباہ اور ہزاروں ایکڑ اراضی مکمل تباہ ہوئی۔
نگران وزیراعظم انوارالحق کاکڑ نے کہا کہ ہم جدید تاریخ کے نازک موڑ پر مل رہے ہیں۔ یوکرین میں تنازع جاری ہے اور دنیا کے دیگر 50 مقامات پر بھی تنازعات ہیں۔ عالمی طاقتوں کے درمیان کشیدگی بڑھی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ایک ایسے وقت میں نئے اور پرانے عسکری بلاکس اور جیو پالیٹکس ہو رہی جب معیشت کو اولیت ملنی چاہیے۔
ان کا کہنا تھا کہ دنیا سرد جنگ کی متحمل نہیں ہوسکتی۔ اس سے کئی زیادہ خطرناک چینلجز کا سامنا ہے۔ جس کے لیے عالمی تعاون اور مشترکہ کارروائیوں کی ضرورت ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان دنیا میں معاشی لحاظ سے غریب ریجنز میں سے ایک میں واقع ہے۔ پاکستان کا ماننا ہے ریجن اتحاد سے ترقی کرتا ہے اور ترقی کا انحصار امن پر ہے۔ اسی لیے پاکستان اپنے تمام ہمسائیوں بشمول بھارت سے پرامن اور تعمیری تعلقات کا خواہاں ہے۔ بھارت کے ساتھ امن کیلیے مسئلہ کشمیر کا اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل ہونا ضروری ہے۔
نگران وزیراعظم نے کہا کہ جموں و کشمیر کا تنازع سلامتی کونسل کے پرانے تنازعات میں سے ایک ہے۔ بھارت نے سلامتی کونسل کی قراردادوں پر عمل درآمد سے گریز کیا ہے جو کہتی ہیں کہ مقبوضہ کشمیر کا حتمی فیصلہ وہاں کے لوگ اقوام متحدہ کی نگرانی میں رائے شماری کے ذریعے کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ 5 اگست 2019 سے بھارت نے غیرقانونی طور پر قبضہ کیے ہوئے جموں و کشمیر میں اپنی فیصلہ مسلط کرنے کے لیے 9 لاکھ فوج تعینات کر رکھی ہے۔اس حوالے سے بھارت نے لاک ڈاؤن، کرفیوز نافذ کردیا اور کشمیر کی سیاسی رہنماؤں کو گرفتار کیا۔ پرامن احتجاج کو طاقت سے دبایا۔ جعلی انکاؤنٹرز میں معصوم کشمیریوں کو ماورائے قانون قتل کیا گیا۔
ان کا کہنا تھا کہ اقوام متحدہ مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے اپنی قراردوں پر عمل درآمد یقینی بنائے۔ بھارت اور پاکستان میں فوجی مبصرین کو دوبارہ تعینات کردینا چاہیے۔ عالمی طاقتوں کو چاہیے کہ وہ نئی دہلی کو قائل کریں کہ پاکستان کی سٹریٹجک اور روایتی ہتھیاروں کے استعمال سے گریز کی پیش کش قبول کرے۔
نگران وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان شام اور یمن میں تنازعات کے خاتمے کا خیرمقدم کرتا ہے. خاص طور پر سعودی عرب اور ایران کے درمیان تعلقات کی بحالی کا بھی خیرمقدم کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ بدقسمتی سے فلسطین میں اسرائیل فوج کی کارروائیاں، فضائی حملے، آبادکاری میں توسیع اور فلسطینیوں کے انخلا کے ساتھ ظلم جاری ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پائیدار امن صرف دو ریاستی حل سے ممکن ہے اور 1967 سے قبل کی سرحدوں کے ساتھ فلسطینی ریاست کے قیام سے امن ہوگا جس کا دارالحکومت القدس شریف ہو۔
افغانستان کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے بات کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ افغانستان میں امن پاکستان کے لیے سٹریٹجک حوالے سے اہم ہے۔ پاکستان بھی عالمی برادری کی طرح افغانستان میں خواتین کے حقوق سے متعلق تشویش میں شامل ہے جبکہ افغان عوام کی انسانی بنیاد پر امداد کی وکالت بھی کرتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کی اولین ترجیح ہے کہ افغانستان سے ہونے والی ہر قسم کی دہشت گردی روکنا ہے۔ پاکستان کالعدم ٹی ٹی پی(تحریک طالبان پاکستان)، داعش اور افغانستان سے سرگرام دیگر گروپس کی دہشت گردی کی مذمت کرتا۔
انوارالحق کاکڑ نے کہا کہ ہمیں بڑھتی ہوئی انتہائی دائیں بازو کے انتہاپسند اور فاشسٹ گروپس سمیت ہر قسم کی دہشت گردی کا بلاامتیاز انسداد کرنا چاہیے۔ ہندو توا سے متاثر انتہاپسند بھارت کے مسلمانوں اور عیسائیوں کی نسل کشی کی دھمکی دے رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں ریاستی دہشت گردی کی بھی مخالفت کرنے کی ضرورت ہے۔ دہشت گردی کی اصل وجہ پکڑ لی جائے۔جیسا کہ غربت، ناانصافی اور بیرونی قبضہ شامل ہے اور حقیقی آزادی کی تحریکوں اور دہشت گردی میں فرق کرنے کی ضرورت ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان عالمی انسداد دہشت گردی حکمت عملی کے چاروں ستونوں پر متوازن عمل درآمد کے لیے جنرل اسمبلی کی کمیٹی کے قیام کا خیرمقدم کرتا ہے۔ ہماری تاریخ تعاون سے بھری ہوئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ تہذیبوں کا تصادم بڑھانے کے بیانیے سے انسانی ترقی کو بڑی حد تک نقصان ہوا ہے۔ اس طرح کے خیالات سے انتہاپسندی، نفرت اور اسلاموفوبیا سمیت مذہبی عدم برداشت بڑھی ہے۔
نگران وزیراعظم نے کہا کہ ہمیں وسعت اور زندگی کے انداز پر خوش ہونا چاہیے۔ باہمی احترام، مذہبی شعائر کی حرمت یقینی بنانا چاہیے۔
ان کا کہنا تھا کہ نائن الیون حملوں کے بعد یہ مسلمانوں کی منفی تصویر کشی، مسلمانوں اور مسلمانوں کی علامتوں پر حملے کرکے تفریق کو فرض کرلیا گیا ہے۔ جس کی تازہ مثال قرآن پاک کو نذر آتش کرنے کے واقعات ہیں۔
انہوں نے کہا کہ گزشتہ برس اس اسمبلی نے او آئی سی کے توسط سے پاکستان کی تجویز کردہ قرارداد منظور کی تھی اور 15 مارچ کو انسداد اسلاموفوبیا کے طور پر منانے کا اعلان کیا تھا، اسی طرح رواں برس کے اوائل میں ہیومن رائٹس کونسل نے او آئی سی کی قرارداد منظور کی۔ جس سے پاکستان نے پیش کیا تھا، جس میں ریاستوں پر زور دیا گیا تھا کہ وہ قرآن کو نذر آتش کرنے اور اس طرح کے اقدام کے لیے اکسانے کو غیرقانونی قرار دیا جائے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم ڈنمارک اور سویڈن کی جانب سے کی گئی قانون سازی کا آغاز کرنے کا خیرمقدم کرتے ہیں۔ پاکستان اور او آئی سی اسلاموفوبیا روکنے کے لیے مزید اقدامات تجویز کرتے ہیں۔جس میں نمائندہ خصوصی کی تعیناتی سمیت اسلاموفوبیا ڈیٹا سینٹر کا قیام، متاثرین کو قانونی تعاون اور اسلاموفوبیا جرائم پر سزا کے لیے احتساب کا نظام وضع کیا جائے۔