اسٹیبلشمنٹ اور عمران خان میں مفاہمت کی کوششیں دم توڑ گئیں

ایک طرف مفاہمت کی باتیں کرنے اور دوسری طرف پارٹی کے وفاداروں کی طرف سے سوشل میڈیا پر افواہیں پھیلانے اور فوج کے خلاف الزامات لگانے سے اب مفاہمت کی تمام تر کوششیں ناکام ہوتی جا رہی ہیں۔

Muzamal Suharwardy

پاکستان تحریک انصاف کے رہنما علی محمد خان اور محمد علی درانی حالیہ دنوں میں پی ٹی آئی کی طرف سے مفاہمت کے ایسے حامیوں کے طور پر سامنے آئے ہیں جو اسٹیبلشمنٹ سے مفاہمت کی بات کرتے اور اس کی ممکنہ صورتوں کو بیان کرتے نظر آتے ہیں۔ تاہم اُن کا یہ عمل خود تحریک انصاف کے اُس طرزعمل سے واضح طور پر متصادم ہے جس میں پی ٹی آئی فوجی قیادت پر عمران خان کو ہٹانے کے الزامات تسلسل کے ساتھ لگا رہی ہے۔

ایک طرف محمد علی درانی، علی محمد خان، اسد قیصر اور بیرسٹر سیف مفاہمت کے گیت گا رہے ہیں۔ دوسری طرف سوشل میڈیا پر پی ٹی آئی نواز آوازیں بھی ابھی تک اسٹیبلشمنٹ مخالف زہر ہی اگل رہی ہیں جو کہ ناصرف پارٹی سے اٹھنے والی مفاہمت کی خبروں کی تردید کرتی ہیں بلکہ پارٹی کے اندر پائے جانے والی دوہری پالیسی کو بھی واضح کرتی ہیں۔

عمران خان ایک طرف اسد قیصر کی محمد علی درنی سے میٹنگ کی توثیق بھی کرتے ہیں۔ اس میٹنگ کو تحریک انصاف کے ٹوئٹڑ ہینڈل سے جاری بھی کیا جاتا ہے۔ دوسری طرف سوشل میڈیا پر تحریک انصاف کے حامی مسلسل اسٹیبلشمنٹ پر چڑھائی کیے ہوئے ہیں۔ یہ دوہری پالیسی نہیں چل سکتی۔ آپ کے کچھ لیڈر مفاہمت کی بات کریں اور دوسری طرف باہر سے گالیاں بھی جاری رہیں۔

یہ ایک ایسی صورتحال ہے جس میں گالیاں اور دوستی کے گیت اکٹھے چلانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ایک طرف تو پاکستان تحریک انصاف فوج کے ساتھ اعتماد بحال کرنے کی کوششوں کی بات کر رہی ہے اور دوسری طرف پی ٹی آئی کے سابق وزیر خزانہ شہزاد اکبر نے ڈی کلاسیفائیڈ یوکے نامی ویب سائٹ پر ایک مضمون شائع (27 ستمبر 2023) کیا ہے جس میں یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ انگلستان اُن کی قید و بند پر خاموش رہا اور وہی پاکستانی جرنیلوں کی معاونت کر رہا ہے۔ شاہین صہبائی نے (20 ستمبر 2023 کو اسلام آباد انسائٹ میں) یہ کہہ کر چیف آف آرمی سٹاف کی شخصیت سے متعلق اپنی نفرت کا زہر اگلا ہے کہ وہ ایک بے بصیرت شخصیت ہیں اور انہیں صرف انتقام سے غرض ہے۔ وجاہت ایس خان بھی نوجوانوں کی توجہ حاصل کرنے کے لئے فوج کے خلاف مسلسل سنسنی خیزی پھیلانے میں مصروف ہیں۔ (حوالہ 25 ستمبر 2023)۔

ایک طرف مفاہمت کی باتیں کرنے اور دوسری طرف پارٹی کے وفاداروں کی طرف سے سوشل میڈیا پر افواہیں پھیلانے اور فوج کے خلاف الزامات لگانے سے اب مفاہمت کی تمام تر کوششیں ناکام ہوتی جا رہی ہیں۔

تاہم، ایسا لگتا ہے کہ مفاہمت کا یہ بیانیہ پارٹی کے ٹکٹ ہولڈرز کو پارٹی کی طرف متوجہ رکھنے اور باندھے رکھنے کی ایک کوشش ہے تاکہ پارٹی کے لوگ انتخابات جیتنے کی امید بنائے رکھیں اور انتخابات کے لئے مالی معاونت حاصل کی جا سکے۔ دیکھا گیا ہے کہ سیاسی فوائد کے حصول کے لئے، پاکستان تحریک انصاف نے مزاحمت کی بجائے مفاہمت کا لب و لہجہ اختیار کیا ہے۔ 27 ستمبر 2023 کو علی محمد خان نے مفاہمت کے بارے ڈان نیوز کے توسط سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ضرورت اس امر کی ہے کہ ایک دوسرے کی غلطیوں کو معاف کر کے آگے کی طرف بڑھا جائے۔ اگر سیاسی و فوجی قیادت مل کر بیٹھے تو یہ ملک میں جاری سیاسی و معاشی مسائل کا مستقل حل تلاش کر سکتی ہے۔

علی محمد خان کے علاوہ ایک نسبتاً غیر فعال سیاست دان محمد علی درانی بھی حالیہ دنوں میں میڈیا کی زینت بنتے اور یہ کہتے دکھائی دیے کہ انتخابات سے پہلے فوج اور تحریک انصاف کے درمیان مفاہمت ہونی چاہیے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ جب پاکستان مخالف، فوج مخالف اور جمہوریت مخالف بیانیوں کی بات چلے تو سیاسی جماعتوں کو اپنے سیاسی سفر کے لئے اجتناب کی راہ اختیار کرنی چاہیے۔

لیکن چند دن کی مفاہمتی گفتگو کے بعد اب یہ مفاہمت دم توڑ رہی ہے۔ اسٹبلشمنٹ نے واضح پیغام دیا ہے کہ دوہری پالیسی نہیں چل سکتی۔ اس لئے ذرائع یہی بتا رہے ہیں کہ اب مفاہمت کے دروازے پھر بند ہو گئے ہیں۔ تحریک انصاف مفاہمت کو صرف انتخاب میں اپنے امیدواروں کو قائم رکھنے کے لئے استعمال کر رہی تھی۔ ورنہ اس میں اس کی کوئی سنجیدگی نہیں تھی۔ اس لئے یہ ناکام ہو گئی ہے۔