خیبر پختونخوا میں برسراقتدار پارٹی نے جب سے پایہ تخت سنبھالا ہے وہ صوبے میں کوئی خاطرخواہ بڑا منصوبہ شروع کرنے میں مسلسل ناکام ہے، صحت کارڈ کو میگا پروجیکٹ کہا جاتا ہے اس کے علاوہ سوات موٹروے اور ہزارہ موٹروے کے منصوبے پر بھی سابقہ حکومتیں دعویٰ کر رہی ہیں کہ یہ ان کے منصوبے تھے اور موجودہ حکومت نے صرف تختیاں لگائی ہیں، بی آر ٹی بنائی، قرض لیا اور وہ بھی سالانہ 5 سے 6 ارب روپے سبسڈی پر چل رہی ہے، لیا گیا قرض الگ سے اپنی جگہ پر موجود ہے، منافع بخش منصوبے ناپید ہیں، کوئی بھی اس طرح منصوبہ زیر تعمیر نہیں جس سے صوبے کو ریونیو آئے اور لئے گئے قرض میں کمی کا باعث بنے۔
یہ باتیں تو اپنی جگہ مگر بڑے پروجیکٹ نہ بننے کے باوجود بھی صوبہ مسلسل قرض دار ہو رہا ہے، قرض لیے گئے پیسے کبھی ایک شوق تو کبھی دوسرے میں صرف ہو جاتے ہیں۔ جس کام کے لئے قرضہ لیا ہوتا ہے وہ وہیں کا وہیں رہ جاتا ہے۔ اس کا اندازہ ہم ٹورازم کے لئے حاصل کئے گئے قرض کے ساتھ جو کچھ ہوا اس سے بخوبی لگا سکتے ہیں۔ سرکاری دستاویز کے مطابق خیبر پختونخوا اس وقت 632 ارب روپے کا مقروض ہے جس میں 70 فیصد قرض برسراقتدار پارٹی نے لیا ہے۔ دستمبر میں مزید 93 ارب روپے اضافے کے ساتھ یہ قرض 725 ارب روپے تک پہنچ جائے گا۔ یہ سلسلہ رکے گا نہیں بلکہ خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ صوبے کا قرض تین ہزار 2 سو ارب کا ہندسہ 2030 تک باآسانی عبور کرلے گا اور اس میں اضافہ بھی قسط وائیز اور سال ہا سال ہوتا رہے گا۔
دوسری جانب مشیر خزانہ مزمل اسلم نے خیبر پختونخوا کے قرض کو 'یہ کچھ بھی نہیں' قرار دیا ہے۔ انہوں نے میڈیا کو آئینہ دکھایا ہے کہ پنجاب اس وقت 17 ارب روپے سے زائد کا قرض دار ہے اور سندھ کے قرضہ جات 1000 ارب کا ہندسہ عبور کر چکے ہیں۔ مزمل اسلم کے مطابق پنجاب اور سندھ کے قرضوں پر کوئی بات نہیں کرتا گو کہ پنجاب اس کے علاوہ 500 ارب گندم کی خریداری کی مد میں اور سندھ 400 ارب اس مد میں بھی قرض دار ہے۔ ان کے مطابق خیبر پختونخوا کا قرضہ ایک فیصد شرح سود سے کم پر لیا گیا ہے جس میں سالانہ اضافہ بھی نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے۔ بقول اُن کے اس وقت خیبر پختونخوا کی حکومت صوبے کی تاریخ کے بلند ترین خزانے پر بیٹھی ہے۔ اگر وفاق بجلی و پانی کی مد میں جمع شدہ رائیلٹی اور خالص منافع کے پیسے دے دیتا ہے تو نہ صرف قرضہ صفر فیصد پر آ جائے گا بلکہ ترقیاتی کاموں کے لئے بھی سینکڑوں ارب روپے بچ جائیں گے۔
یہاں مشیر خزانہ کو وفاق کی حالت کو بھی دیکھنا ہو گا کہ وہ اس پوزیشن میں ہے جو یک مشت اتنے پیسے دے سکے؟ اگر وفاق یک مشت 600 ارب بھی دیتا ہے تو وہ 2 ارب ڈالر بنتے ہیں جو ناممکن سی بات ہے۔ دوسری جانب صوبے کو اپنا حصہ وفاق دے رہا ہے ہر 15 اور 30 تاریخ کو۔ باوثوق ذرائع کا دعویٰ ہے کہ خیبر پختونخوا میں ہر سال محتاط اندازے کے مطابق صرف محکمہ صحت میں 44 ارب روپے کی کرپشن ہوتی ہے جو کہ اپنے آپ میں ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔ اسی طرح تعلیم اور باقی محکموں کی بھی حالت مختلف نہیں۔
تحریک انصاف کے اپنے ہی رہنما شیر افضل مروت ماضی قریب میں کئی مرتبہ اس بات کا کھلے عام اظہار کر چکے ہیں کہ خیبر پختونخوا میں سابقہ حکومت میں تاریخ کی بدترین کرپشن ہوئی ہے۔ موجودہ حکومت میں شکیل خان کا استعفیٰ اور کرپشن سے متعلق بیان بازی اس بات کو مضبوط بنیاد فراہم کرتی ہے کہ صوبے میں کرپشن ہو رہی ہے، جس کا سدباب کم از کم تحریک انصاف کے بس کی بات نہیں۔ اسی طرح وزیر اعلیٰ کے بھائی پر لگنے والے الزامات بھی اس سلسلہ کی ایک کڑی ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ اس کا نتیجہ کیا نکلے گا؟ صوبے کو مسلسل مقروض کرنے کے نتائج کیا نکلیں گے؟
اس حوالے سے ماہر معیشت پروفیسر فرحان سید کہتے ہیں خیبر پختونخوا کو جس قسم کے چلینجز کا سامنا ہے ان کے ہوتے ہوئے صوبہ ترقی کرے، قرضہ جات کو دینے کے لئے کوئی بندوبست کرے، ایسا نہ کچھ ابھی نظر آ رہا ہے اور نہ مستقبل قریب میں اس کے امکانات ہیں۔ سرمایہ کاری سے صوبے کی معیشت کو سنبھالا مل سکتا ہے مگر وہاں بھی بدامنی اور غیریقینی صورت حال کی وجہ سے سرمایہ کار صوبے سے بھاگ رہے ہیں۔ ٹیکنکل طور پر اگر دیکھا جائے یہ کوئی زیادہ قرض نہیں تین چار سال میں یہ ختم ہو سکتا ہے اور صوبہ ترقی کی راہ پر چل سکتا ہے مگر اس کے لئے ماحول چاہیے جو ناپید ہے۔
فرحان سید مزید کہتے ہیں کہ موجودہ حکومت کو اپنی ترجیحات کو بدلنا ہوگا۔ اگر وہ صرف بیانیے کے ذریعے حالت بدلنے کا سوچ رہے ہیں تو وہ ناممکن ہے، اس کے لئے عملی اقدامات کرنا ہوں گے۔ ٹورازم، جنگلات، بارڈر ٹریڈ، مختلف قسم کی معدنیات کی موجودگی میں قرضہ جات کوئی سنگین مسئلہ نہیں مگر اس سے فائدہ حاصل کرنے کے لئے قیادت کو سنجیدگی سے اقدامات اٹھانا ہوں گے۔ صوبے کے سالانہ بجٹ کے حساب سے اگر قرض کو اس پر تقسیم کیا جائے تو یہ ایک سال کے بجٹ کا 40 فیصد بن رہا ہے اور ترقیاتی بجٹ سے کہیں زیادہ ہے مگر موجود مواقعوں کی طرف دیکھتے ہوئے یہ نہ ہونے کے برابر ہے۔
سینیئر صحافی عرفان خان کہتے ہیں قرض لینا کوئی بری بات نہیں، نا معاشی ماہرین اس کو برا سمجھتے ہیں مگر قرض جس مقصد یا منصوبے کے لئے لیا گیا ہے کیا یہ منصوبے آپ کو مستقبل میں منافع دے سکتے ہیں؟ یہاں مسئلہ یہ ہے کہ بی آر ٹی بنائی گئی، اس پر سالانہ 6 ارب کی سبسڈی دی جا رہی ہے اور 100 ارب کا قرض الگ سے لیا گیا ہے۔ اسی طرح اور منصوبے بھی ہیں جن کے لئے قرض لیا گیا ہے مگر اس سے منافع ملنے کی امید نہیں۔ اگر خان درانی نے 2005 میں مالاکنڈ تھری ہائیڈ پروجیکٹ کے لئے قرض لیا تو اس کو 2007 میں مکمل کیا، آج وہاں سے 80 میگا واٹ بجلی اور 4 ارب روہے سے زائد کی آمدن بھی آ رہی ہے۔
عرفان خان کے مطابق پنجاب اور خیبر پختونخوا ریونیو اتھارٹی ایک ہی وقت میں بنے ہیں، پنجاب کی ریونیو اتھارٹی سالانہ 600 ارب کا ٹارگٹ پورا کر رہی ہے۔ اس کی ایک وجہ وہاں آبادی اور کاروبار زیادہ ہے لیکن دوسری جانب خیبر پختونخوا کی ریونیو اتھارٹی سالانہ 70 سے 80 ارب روپے کا ٹارگٹ رکھتی ہے اور وہ بھی پورا نہیں کر پاتی۔ یہ مسائل ہیں جن سے صاف ظاہر ہے جو قرض لیا جا رہا ہے یا لیا گیا ہے اس کو واپس دینے کا راستہ فی الحال نظر نہیں آ رہا، کیونکہ وفاق بھی اس پوزیشن میں نہیں کہ صوبے کو کہے یہ لو آپ کے ہزار ارب اور باقی اگلے سال دے دیں گے، کیونکہ ان کے پاس بھی پیسے نہیں اور نہ وہ تین چار سالوں میں بجلی اور پانی کے خالص منافع کے پیسے اتنی جلدی دے سکتے ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ وفاق صوبے کو اپنے حصے کے پیسے بھی تواتر کے ساتھ دے رہا ہے۔
سینیئر صحافی اور سماء ٹی وی کے بیورو چیف محمود جان بابر کہتے ہیں یہاں پر ایک اہم مسئلہ ڈالر کی قیمت کا بھی ہے، اس مسئلے کا سامنا وفاق کو بھی ہے جو تواتر کے ساتھ قرضے لے رہا ہے۔ قرض لینا کوئی بات نہیں مگر ڈالر کی قیمت نے اس میں اضافے کا جو مسئلہ پیدا کیا ہے 100 ارب اگر لئے تھے وہ 300 ارب ہو گئے۔ اگر 300 ارب تھے تو وہ 600 ارب ہو گئے۔ خیبر پختونخوا کا اس سے سنگین مسئلہ حکومتی مشینری کا ہے جس کا حجم بہت بڑا ہے۔ مشینری بڑی ہونے کے باوجود محکموں کی سروس ڈیلیوری نہ ہونے کے برابر ہے۔ پنشن میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے، تنخواہیں بھی زیادہ ہیں، اس کی نسبت نیم سرکاری اور نجی اداروں کی کارکردگی بہت بہتر ہے۔ میرا خیال ہے حکومت یہ پیسے استعمال نہیں کر رہی ڈالر کے ریٹ کی وجہ سے اس میں اضافہ ہو رہا ہے۔
محمود جان بابر کا کہنا تھا کہ نیا پروجیکٹ بن نہیں رہا اور پرانے پروجیکٹس چلانا مشکل ہو رہا ہے۔ صوبے میں ترقی نام کی چیز ناپید ہو رہی ہے۔ اس صوبے کے مسائل باقی صوبوں سے مختلف ہیں اگر حکومت کسی دور دراز علاقے میں کچھ کرنا چاہتی ہے وہ سکیورٹی صورت حال کی وجہ سے نہیں کر پاتی۔ سی پیک ابھی تک فعال نہیں ہو سکا، اُس میں مسائل ہیں۔ وجہ سکیورٹی صورت حال ہے۔ حکومت اگر مائننگ کرنا چاہے وہ نہیں کر سکتی۔ مستقبل میں ترقی کی رفتار سست ہو گی۔ حکومت کی ساری توجہ سیاست پر ہے۔ یہاں وزیر اعلیٰ سیاست اور حکومت کر رہا ہے، دوسرے صوبوں میں حالت مختلف ہے۔ یہاں صرف قرضے نہیں اور بھی بہت ساری وجوہات ہیں جو صوبے میں ترقی کے عمل کو متاثر کر رہی ہیں۔