پچھلے چار سال سے ملک میں ایک ہی بات سننے کو مل رہی ہے کہ جو موجودہ اپوزیشن جماعتوں کی قیادت ہے یہ کرپٹ ہے انہوں نے ملک کا پیسہ کھایا ہے باہر ممالک میں منتقل کیا ہے اور اسی لیے ملک میں بحران پیدا ہوا ہے۔ ملک قرضوں کی دلدل میں پھنسا ہے، اور انہیں سابقہ حکمرانوں کی وجہ سے ملک میں مہنگائی اور بے روزگاری ہے۔ اس بات پریقین کر کے زیادہ تر لوگوں نے پاکستان تحریک انصاف کو ووٹ دیا، اور اپوزیشن کے الیکشن میں دھاندلی کے الزامات کے باوجود سال ۲۰۱۸ میں پاکستان تحریک انصاف کو وفاق میں حکومت بنانے کا موقع مل گیا۔ موجودہ اپوزیشن نے نہ چاہتے ہوئے بھی پی ٹی ائی کی حکومت کو تسلیم کیا اور تحفظات کے باوجود حکومت کا ساتھ دینے کے لیے راضی ہوگئے۔ گو کہ اس بار کے الیکشن میں بڑے بڑے سیاستدانوں کو ایوان میں جگہ نہ مل سکی، جن میں عوامی نیشنل پارٹی کے سربراہ اسفندیار ولی خان، جمیعت علما اسلام ف کے سربراہ مولانا فضل الرحمان،افتاب احمد خان شیر پاو اور محمود خان اچکزء سمیت بہت سارے ایسے رہنما ایوان سے باہر کر دیے گئے، جن کے بنا ایوان ادھورا ہے، اور ان رہنماوں نے اپنے شدید تحفظات کا اظہار بھی کیا۔ مگر اپوزیشن کی دو بڑی جماعتوں پاکستان مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی نے حکومت کے خلاف ایسی کوئی زبردست اواز بلند نہیں کی جس سے حکومت بننے کو کوئی خطرہ ہوا۔ پاکستان تحریک انصاف نے کچھ ازاد اور کچھ شدید مخالف سیاسی پارٹیوں کو اتحادی بنا کر حکومت بنا لی،اور ایک ہی نعرہ لگایا کہ اب احتساب ہوگا۔ میرٹ کا بول بالا ہوگا کسی بدعنوان کو نہیں بخشا جائیگا۔
اپوزیشن جماعتوں جن میں خاص طور پر پاکستان مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی شامل ہیں۔ ان کے رہنماوں اور قائدین کے خلاف پرانے کیسز نکال کر ان کو جیلوں میں بند کر دیا گیا۔ جن میں اج کل زیادہ تر رہنماوں کے کیس یا تو ختم ہو گئے ہیں۔ یا کچھ ابھی بھی کیس ثابت ہوئے بغیر مقدمات جھیل رہے ہیں اورپنجاب اسمبلی کے اپوزیشن لیڈر حمزہ شہباز، قومی اسمبلی کے سابقہ اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ سمیت کئی اپوزیشن رہنما اب بھی جیل میں ہیں۔ اب چونکہ حکومت کو بنے دو سال سے زیادہ عرصہ ہو چکا ہے، تو ان مقدمات اور دو سال سے زیادہ عدالتوں کا وقت ضائع کرنے کے بعد حکومت نے کیا حاصل کیا اور عوام کو ان مقدمات سے کیا فوائد حاصل ہوئے ۔ اپوزیشن میں عوامی نیشنل پارٹی کے سربراہ اسفندیار ولی خان پر ایک الزام لگایا گیا تھا، کہ انہوں نے مبینہ طور پر پختونوں کے سر پر سودا کیا تھا، اور انہوں نے پشتونوں کا خون بیچا تھا۔ صوبائی وزیر شوکت یوسفزئی کے اس بیان کے خلاف اسفندیار ولی خان عدالت گئے ہرجانے کا دعوہ دائر کیا ، اور دو کچھ دن پہلے عدالت نے اس کیس میں یکطرفہ فیصلہ سناتے ہوئے، شوکت یوسفزئی صاحب کو ہرجانہ ادا کرنے کا حکم دیا۔ جس کے بعد صوبائی وزیر محنت و ثقافت کا یہ موقف سامنے ایا کہ ان کو عدالت کی جانب سے اگاہ نہیں کیا گیا تھا، اور ان کے خلاف یکطرفہ فیصلہ سنایا گیا ہے۔ جس کے خلاف وہ اسی پشاور ہائی کورٹ جائینگے، جہاں سے یہ فیصلہ ایا ہے، یہ تو ہو گئی اپوزیشن کے ایک رہنما کے خلاف بہت بڑےَ الزام کی کہانی، جو کہ ابھی ختم نہیں ہوئی، مگر لگتا یہی ہے، کہ پختونوں کا خون بیچنے کے الزام میں کوئی صداقت نہیں تھی، اس کے علاوہ جے یو ائی ف کے سربراہ مولانا فضل الرحمان ہیں جن کے خلا ف اب تک ایسا کوئی کیس سامنےنہیں ایا کہ انہوں نے کوئی کرپشن کی ہو یا کوئی کمیشن لی ہو۔ ہاں حکومتی وزرا نے ان پر کچھ بھونڈے الزامات ضرور لگائے، جن میں زیادہ لسی پینے کا الزام بھی شامل تھا۔ مگر کچھ نہیں ملا اور وہ باتیں صرف سیاسی باتیں ہی ثابت ہوئی، یہی مثال محمود خان اچکزئی صاحب کی بھی ہے، ان پر ملک دشمنی اور ایسے الزامات لگتے رہے ہیں مگر اب تک کوئی الزام ثابت نا ہوسکا،اب بات کرتے ہیں اپوزیشن کی دو بڑی جماعتوں یعنی پاکستان مسملم لیگ نون اور پاکستان پیپلز پارٹی کی، ان دونوں پارٹیوں کی قیادت کے خلاف پرانے اور کچھ نئے کیس کھولے گئے، اور نون لیگ کے قائد نوازشریف، ان کی صاحبزادی مریم نواز، شہباز شریف اور ان کے صاحبزادوں اور خاندان کے دوسرے افراد کے خلاف بھی پرانے اور نئے کیس کھول دیے گئے۔
سابق وزیراعظم نوازشریف کو تو عدالت نے نا اہل کرکے وزارت عظمہ سے نکالا تھا،اور وہ یہی بولتے تھے کہ پانامہ کے نام پر کیس بنا کر مجھے اقامہ پر نا اہل کر دیا گیا جو کہ زیادتی ہے، اس کے ساتھ سابق وزیرخزانہ اسحاق ڈار صاحب اب تک لندن سے پاکستان نہیں آئے اور دو دن پہلے وفاقی وزیر ریلوے نے یہ بات ڈنکے کی چوٹ پر کہی کہ حکومت اسحاق ڈار کو واپس نا لا سکی تو نوازشریف کو کیسے واپس لا سکتی ہے،میرے خیال میں اسحاق ڈار صاحب کو بھی آکر اپنے خلاف مقدمات کا سامنا کرنا چاہیے، یہاں بات پھر سے سابق وزیراعظم نوازشریف کی شروع ہوگئی، تو نواز شریف صاحب اس سے پہلے بھی کئی بار باہر جا چکے ہیں اور واپس بھی آگئے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ لندن سے اس وقت بھی واپس آئے جب ان کو پتا تھا کہ سیدھا جیل جانا ہے۔ مگر پھر بھی اپنی صاحبزادی مریم نوازسمیت پاکستان واپس ائے قانون اور عدالت کا سامنا کیا۔ اور جیل میں وقت گزارنے کے بعد قانونی طریقہ اختیار کر کے علاج کی غرض سے باہر ملک چلے گئے، اب اسی دوران سابق وزیراعظم کے خلاف فیصلہ دینے والا جج ہی عہدے سے ہٹادیا گیا کیونکہ اس نے عدالت میں مان لیا کہ نوازشریف کے خلاف فیصلہ دینے کے لیے اس پر دباو تھا، اب یہ تو عدالت کا کام ہے، کہ وہ پوچھے بھلا کون ایسے طاقتور لوگ تھے جن کے دباو میں آکر ایک جج نے وزیراعظم کے خلاف فیصلہ دیا، اور عدالت اس فیصلے کو بھی معطل کر دیتی مگر یہ تو عدالت کا اختیار ہے، اور میں چونکہ ایک طالب علم ہوں اس لیے عدالتی کارروائی پر بات نہیں کر سکتا ۔ مگر وہ کیس بھی یکم ستمبر کو سماعت کے لیے مقرر ہے جس میں نوازشریف کو سات سال جیل کی سزا ہوئی تھی، دوسری طرف جس کیس میں سابق وزیراعظم نوازشریف کو عدالت نے بری کیا تھا، نیب کی جانب سے دونوں کیسز میں درخواست دائر کی گءِ ہے، جس کیس میں نوازشریف کو سات سال جیل کی سزا ہوئی ہے، اس کیس میں سزا زیادہ کرنے کی درخواست پر سماعت ہوگی اور جس کیس میں عدالت نے نوازشریف کو بری کیا تھا اس میں بھی نیب نے درخواست دی ہے، کہ اس کیس میں بھی سزا ہوجائے، اب یہ سانپ سیڑھی کا کھیل ہے، روزانہ حکومتی ترجمان اور وفاقی وزرا پریس کانفرنس کرتے ہیں نوازشریف نے یہ کیا تھا، ان کے خلاف یہ ثبوت مل گئے، شہبازشریف نے یہ کیا تھا اور یہ اس کیس کے ثبوت مگر حقیقت میں جب بات عدالت میں ثابت کرنی ہوتی ہے، تب ثبوت کے طور پر اخباری تراشے یا ایسے کسی غیر ملکی اخبار کا ٹکڑا پیش کیا جاتا ہے، دوسری طرف اپوزیشن رہنماوں کی سیاسی ساکھ بری طرح متاثر ہو جاتی ہے، ایسی ایک مثال مسلم لیگ نون کے رہنما حنیف عباسی کی بھی ہے جس کو الیکشن سے کچھ ہی دن قبل گرفتار کیا گیا، اور ایسے ایسے الزامات لگائے گئے کہ ان کو الیکشن کے وقت جیل میں ہی رکھا گیا اور نتیجہ یہ نکلا کہ وہ الیکشن ہار گئے، اب عدالت نے اس کیس میں بری کر دیا ۔ اس کے سارے جائیداد اور اکاونٹ واپس بحال ہوگئے، مگر اس قانون میں پتا نہیں یہ بات کیوں موجود نہیں کہ ایک انسان کی عزت نفس مجروح ہو جاتی ہے، لمبی لمبی خبریں چلتی ہیں فلانے نے ایسا کام کیا ویسا کام کیا مگر جب وہ جرم ثابت نا ہو اور بندہ رہا ہوجائے تو خبر ویسے میڈیا میں نہیں چلائی جاتی، کہ اس بندے نے کچھ نہیں کیا تھا الزام جھوٹ تھا، اب بات کرتے ہیں نوازشریف کے جیل سے نکل کر لندن جانے کی، سابق وزیراعظم نوازشریف لندن سے ہی جیل آئے تھے، اور جیل میں رہتے ہوئے ان کی زوجہ بیگم کلثوم نواز کا انتقال بھی ہو گیا، جو کہ ایک انتہائی بڑا صدمہ تھا۔
مگر پھر بھی نوازشریف نے پوری قانونی کارروائی مکمل کی اور حکومت اور عدالت دونوں کی اجازت سے علاج کی غرض سے لندن چلے گئے، قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا، نوازشریف کو اٹھ ہفتے کی ضمانت ملی تھی مگر دنیا میں کورونا وائرس کی وبا پھیلی، تو نوازشریف صاحب کا بقول نون لیگ کے ترجمانوں کے وہ علاج نا ہوسکا اور اسکے لیے اور وقت درکار ہوگا، اب یہاں حکومت نے پھر رونا پیٹنا شروع کردیا کہ نوازشریف کو ہر صورت واپس لانا ہے، اور وہ دھوکا دے کر ملک سے فرار ہوگئے ہیں ، کچھ دنوں سے یہی خبر میڈیا میں گردش کر رہی ہے کہ نوازشریف کو واپس لانے کے لیے تمام قانونی راستے اور وسائل استعمال کرینگے، مگر جیسے میں نے تحریر میں پہلے کہا کہ بقول وفاقی وزیر ریلوے شیخ رشید احمد جو حکومت پوری کوشش کے باوجود اب تک اسحاق ڈار کو واپس نا لاسکی وہ نوازشریف کو واپس نہیں لاسکتی ۔ مجھے نوازشریف کے واپس انے یا نا انے سے زیادہ مطلب نہیں وہ ایک بڑے سیاستدان ہیں ملک کے تین بار وزیراعظم رہے ہیں ، ان کی سیاست پاکستان میں ہی ہے، اور وہ ضرور پاکستان واپس آئینگے، اور جب واپس جانا چاہینگے پھر بھی ایسے ہی جاءِنگے جیسے جیل سے نکل کر لندن گئے ہیں ، ایسا اس لیے ہے، کہ ایک تو نوازشریف ایک بہت بڑے سیاستدان اور قانونی امور سے واقف ہیں ، ان کو سیاسی داو پیچ کھیلنا بھی اتا ہے،اور قانونی داو پیچ میں بھی مہارت رکھتے ہیں ، یا شاید ان کی ٹیم میں ایسے لوگ موجود ہیں جو ان کے لیے راستہ نکال لیتےہیں ، اس وقت ملک کے عوام کو نوازشریف کے واپس انے سے زیادہ مہنگائی اور بے روزگاری سے پریشانی ہے، عوام کو اب اس بات سے مطلب نہیں کہ نوازشریف واپس ایا یا نہیں کیونکہ نوازشریف جیل بھی گیا مگر نا تو ملکی خزانے کو کوئی پیسہ ملا نا کوئی باہر ملکوں میں منتقل کیا گیا پیسہ واپس لایا جاسکا، جس سے ملکی قرضہ ادا کیاجاسکے یا مہنگائی اور بے روزگاری کو کم کیا جا سکے، حکومت کو اس بات کا بخوبی اندازہ ہے کہ اب نوازشریف یا اپوزیشن جماعتوں کے خلاف باتیں کرنے کی بجائے ان کو عوامی مسائل حل کرنے چاہییں ، کیونکہ عوام نے دیکھ لیا ہے،کہ اپوزیشن رہنماوں کے خلاف اس موجودہ حکومت کے پاس وہ ثبوت موجودنہیں جن کے ذریعے وہ ثابت کر سکیں کہ ملک کا پیسہ لوٹا گیا اور باہر منتقل کیا گیا ۔
اس لیے اب عوام کو اس موضوع میں دلچسپی ختم ہوگئی ہے، اس موضوع میں جان واپس تب آئی جب نیب نے سابق وزیراعظم نوازشریف کی صاحبزادی مریم نواز کو بلایا، وہ پیشی کے لیے تو آئی مگر وہ پیشی ایک روڈ شو بن گئی، مریم نواز نے سیاسی طاقت کا مظاہرہ کیا، نیب اہلکاروں پر پتھروں سے وار کیے گئے، اور نیب دفتر کے سامنے میدان جنگ لگ گیا، جس کے بعد نیب نے مریم نواز کو واپس جانے کی ہدایت کی، اس کے بعدمریم نواز نے ایک دھواں دار پریس کانفرنس بھی کی، جس کی وجہ سے ایک بار پھر نوازشریف اور کرپشن کے معاملے میں جان آئی اور اب حکومت نے ایک بار پھر نوازشریف کے خلاف محاذ سمبھال لیا ہے، حکومتی ترجمان ہر بات میں نوازشریف کا نام لے رہے ہیں اور ان کو واپس لانے کے دعوے کیے جارہے ہیں ،اس کے ساتھ ہی عدالت نے شہبازشریف کے صاحبزدے سلمان شہباز کو بھی طلب کیا ہے، اسی کیس میں شہبازشریف کی دو صاحبزادیوں کو بھی طلب کیا گیا ہے، مگر اس ساری صورتحال میں عوامی مسائل مہنگائی اور بے روزگاری نظر انداز ہے، اور یہی حکومت چاہتی ہے، کہ عوام نوازشریف شہبازشریف اور اپوزیشن جماعتوں کےپیچھے رہے اور ان سے یہ سوال نا ہو کہ بھائی صادق اور امین لوگوں یہ مہنگاءِ کب ختم ہوگی ملک میں روزگار کب شروع ہوگا، کیا نوازشریف کے خلاف پریس کانفرنس کرنے سے عوام کے لیے روٹی اور بجلی سستی ہو جائیگی، کیا عوام کو روزگار کے مواقع ملک جائینگے ;63238;جس کا جواب نفی میں ہی ہے،دوسری طرف احتساب اورمیرٹ پر بنی اس حکومت کا وہ بیانیہ بھِ دم توڑ گیا ہے، کیونکہ ملک میں چینی کا بحران ایا، غریب عوام کے اربوں روپے لوٹ لیے گئے، تحقیقات ہوءِ رپورٹ پبلش کرنے کو ہی احتساب سمجھا گیا، نا تو کوئی مجرم نا کوئی ملزم نا کوئی عوام کا پیسہ واپس ہوا نا کسی کو سزا ہوئی، اس کے بعد ملک میں پٹرول سستا ہوا، تو پٹرول بحران اس میں بھی عوام سے اربوں روپے لوٹ لیے گئے، اور اب تک وہ معاملہ بھی سرد خانے میں پڑا ہے۔
غریب اور بے روزگار عوام کا اربوں روپے کون کھا گیا پتا نہیں چلا ۔ ۔ اب آٹے کا بحران ہے اٹا مہنگا ہوگیا، پھر سے غریب عوام پر بوج بجلی کی قیمت تو بہت ہی زیادہ ہے، مگر حکومت نے عوام کو ایک امید دلائی ہے،،کہ سابقہ دور میں کیے گئے معاہدوں میں بجلی مہنگی مل رہی تھی، جس کی وجہ سے ہم بھی مہنگی بیچ رہے ہیں مگر اب بجلی کے معاملے پر ائی پی پیز سے مزاکرات ہوچکے ہیں ، اور بہت جلد بجلی کی قیمتیں کم ہو جائینگی،، مگر اس کے ساتھ ہی اسی پریس کانفرنس میں وفاقی وزیراطلاعات شبلی فراز صاحب نے یہ بھی کہا کہ اگر بجلی یا گیس اور بھی مہنگا ہوتا ہے، اس کی ذمہ دار بھی سابقہ حکمران ہونگے، جس کا مطلب شاید یہ تھا کہ بجلی اگر ایک مہینے سستی بھی کر دیں تو پھر مہنگی کرنے کے لیے راستہ ہموار ہو، ہم عوام کو اس سے کوئی غرض نہیں کون جیل گیا کون باہر گیا عوام کو غرض ہے کہ ان کو روٹی سستی ملے چینی سستی ملے،پٹرول اور دیگر ضرور کی اشیا سستی داموں دستیاب ہوں ، یہ جو سیاتی کھیل ہے اس میں غریب اور بے روزگار عوام کو کوئی دلچسپی نہیں کیونکہ جو یہ حکومت کر رہی ہے یہی سابقہ حکومتوں میں بھی ہوتا رہا ہے، تقریر میں ایک بات اور حقیقت میں دوسری بات، میں قرض نہیں لونگا سے لیکر میں این ار او نہیں دونگا تک تمام دعووں سے ہوا نکل چکی ہے، این ار اونہیں دونگا تو نوازشریف کو باہر جانے کی اجازت کس نے دی ۔ اور خود وزیراعظم صاحب نے رات کو ایک نجی ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے اعتراف بھی کیا کہ نوازشریف کو باہر جانے کی اجازت دینا غلطی تھی، محترم وزیراعظم صاحب اپ نے جس بات پر سیاست کی جس بات پر ووٹ لیا اگر وہی بات اپ مان رہے ہو، کہ ہم نے غلطی کی ہے، تو پھر اپ کو اس کرسی پر بیٹھنے کا کوءِ حق نہیں ، کیونکہ اپ نے خود اس بات کا اعتراف کر دیا کہ دیا کہ نوازشریف کو جانے کی اجازت دینا غلطی تھی، تو اس قوم کو اپ سے ایسی غلطی کی کوئی امید نہیں تھی، کہ اپ بقول اپ کے اربوں روپے لوٹنے والے انسان کو غلطی سے باہر بھیجنے کی اجازت دینگے ۔