اٹک  جیل میں سماعت  کا مقصدعمران خان کی جان کو تحفظ فراہم کرنا ہے: خصوصی عدالت  

عدالت نے کہا ہے کہ کسی بھی انسان کی زندگی اہم ہے۔ معلوم نہیں کہ عمران خان کو اٹک جیل سے باہر لانے پر کوئی حادثہ پیش آجائے۔ عمران خان کو  جوڈیشل کمپلیکس میں پیش نہ کرنے اور اٹک جیل میں سماعت کی وجہ ان کی جان کو تحفظ فراہم کرنا ہے۔ چیئرمین پی ٹی آئی کی غیر حاضری پر ان سے قانونی حق نہیں چھینا جائے گا۔

اٹک  جیل میں سماعت  کا مقصدعمران خان کی جان کو تحفظ فراہم کرنا ہے: خصوصی عدالت  

خصوصی عدالت  کی جانب سے آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت سائفر کیس  کی سماعتوں کا حکمنامہ جاری کرتے ہوئےسماعت اٹک  جیل میں کرنے کے حوالے سے کہا کہ جوڈیشل کمپلیکس میں پیش نہ کرنے کی وجہ چیئرمین پاکستان تحریک انصاف ( پی ٹی آئی) عمران خان کی جان کو تحفظ فراہم کرنا ہے۔

خصوصی عدالت کے جج ابوالحسنات ذوالقرنین نے چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کے خلاف 16 اور 30 اگست کو سائفرکیس کی سماعتوں کا  دو دو صفحات پر مشتمل تحریری حکم نامہ جاری کردیا۔

تحریری فیصلے میں کہا گیا ہے کہ عمران خان کے خلاف سائفر کیس کی 16 اگست کی سماعت جوڈیشل کمپلیکس میں ہوئی۔  ایف آئی اے نے تفتیش کے لیے 16 اگست کو عمران خان کا 14 روزہ جسمانی ریمانڈ مانگا۔ عمران خان پہلے سے ہی توشہ خانہ کیس میں بطور مجرم اٹک جیل میں قید تھے۔ سیکرٹ ایکٹ 1923ء کے تحت کورٹ کے پاس اختیار ہے کہ ملزم کا جسمانی، جوڈیشل یا ضمانت منظور کرے۔

عدالت نے کہا ہے کہ کسی بھی انسان کی زندگی اہم ہے۔ معلوم نہیں کہ عمران خان کو اٹک جیل سے باہر لانے پر کوئی حادثہ پیش آجائے۔ غیر معمولی صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے عمران خان کا جسمانی ریمانڈ منظور نہیں کیا جاسکتا۔  جوڈیشل کمپلیکس پیش نہ کرنے کی وجہ چیئرمین پی ٹی آئی کی جان کو تحفظ فراہم کرنا ہے۔

حکمنامے میں کہا گیا ہے کہ سائفرکیس عام نوعیت کا نہیں۔سائفر جیسے حساس کیسز میں ریاست کی خودمختاری بھی شامل ہوتی ہے۔ سپرٹنڈنٹ جیل کو چیئرمین پی ٹی آئی کو 14 روزہ جوڈیشل ریمانڈ پر اپنی تحویل میں لینے کا حکم دیا جاتا ہے۔ عمران خان کو جان کے خطرے اور خدشات کے پیش نظر حاضری سے استثنا دیاگیا۔

جج نے تحریر کیا ہے کہ عمران خان کو  جوڈیشل کمپلیکس میں پیش نہ کرنے اور اٹک جیل میں سماعت کی وجہ ان کی جان کو تحفظ فراہم کرنا ہے۔ ان کی حاضری جوڈیشل کمپلیکس میں تصور کی جاتی ہے۔ عمران خان کی غیر حاضری پر ان سے قانونی حق نہیں چھینا جائے گا۔ عدالت نے سپرٹنڈنٹ جیل سے بھی اٹک جیل میں عمران خان کی حاضری کی یقین دہانی لی۔ اٹک جیل سے جوڈیشل کمپلیکس منتقلی کی صورت میں جیل سپرنٹنڈنٹ کو سخت سیکیورٹی انتظامات کا جائزہ لینے کا حکم ہے۔

فیصلے میں کہا گیا ہے کہ 30 اگست کے فیصلے کے مطابق عدالت کو وزارت قانون سے عمران خان کا ٹرائل اٹک جیل میں کرنے کا نوٹیفکیشن موصول ہوا۔ اس مقدمے کی سماعت درج بالا وجوہات کے سبب ڈسٹرکٹ جیل کے احاطے میں ہوئی۔  30 اگست کے حکم نامے کے مطابق عدالت نے گزشتہ سماعت پر چیئرمین پی ٹی آئی کے جوڈیشل ریمانڈ میں 14 روز کی توسیع کی۔ عدالت نے سپرٹنڈنٹ جیل کو اٹک جیل میں سیکرٹ ایکٹ عدالت میں چیئرمین پی ٹی آئی کو پیش کرنےکا حکم دیاتھا۔

عدالت نے عمران خان سے جیل میں حالات، مسائل اور ٹریٹمنٹ کے حوالے سے پوچھا۔ عدالت نے جیل سپرنٹنڈنٹ کو عمران خان کو جیل قانون کے مطابق تمام سہولیات مہیا کرنے کی ہدایت کی۔ عمران خان صحت بہت اہم ہے۔ سپرٹنڈنٹ جیل تمام تر اقدامات اٹھائے۔

تحریری حکم نامے میں مزید کہا گیا ہے کہ وکیل صفائی نے وزارت قانون کا نوٹیفکیشن کالعدم اور سائفرکیس کو اوپن کورٹ میں کرنے کی درخواست دائر کی۔

علاوہ ازیں آفیشل سیکرٹ ایکٹ عدالت کے جج ابوالحسنات ذوالقرنین نے چیئرمین پی ٹی آئی کو اپنے بیٹوں سے ٹیلیفون پر بات کرنے کی اجازت دےدی۔

چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان نے اپنے وکیل عمیر نیازی اور شیراز احمد کے ذریعے اپنے بیٹوں قاسم اور سلیمان سے ٹیلیفون پر بات کرنے کی درخواست دائر کی تھی جو کہ عدالت نے منظور کر لی۔

درخواست میں موقف اختیار کیا کہ اپنے بیٹوں قاسم اور سلیمان سے ٹیلیفون یا واٹس ایپ پر بات کرنا چاہتا ہوں۔

جج ابوالحسنات نے سپرنٹنڈنٹ اٹک جیل کو والد سے بیٹوں کی ٹیلیفون پر بات کرانے کے انتظامات کرنے کی ہدایت کردی۔