جانبداری دکھانے سے صحافی اور صحافت دونوں کو نقصان اٹھانا پڑتا ہے

کسی بھی صحافی کا ٹوئٹر اکاؤنٹ دیکھ کر با آسانی اس کی جانبداری کا پتہ لگایا جا سکتا ہے کہ وہ کس سیاسی جماعت کی حمایت کر رہا ہے۔ صحافیوں کو سیاست زدہ ہو جانے پر کئی نقصانات کا سامنا ہوتا ہے جس کے بعد انہیں سکیورٹی کی اشد ضرورت پڑ جاتی ہے۔ مخالفین سے قتل کی دھکمیاں ملنے لگتی ہیں اور ان کے ساتھ ہراسانی کے واقعات پیش آتے ہیں۔

جانبداری دکھانے سے صحافی اور صحافت دونوں کو نقصان اٹھانا پڑتا ہے

ملک میں جاری سیاسی محاذ آرائی میں صحافت بری طرح پامال ہو رہی ہے۔ گذشتہ چند سالوں سے پاکستان میں جاری سیاسی بحران میں ملکی میڈیا بری طرح تقسیم ہو چکا ہے۔ میڈیا ہاؤسز فریق بن کر اپنے اپنے مخالفین پر لفظی گولہ باری میں پیش پیش دکھائی دیتے نظر آ رہے ہیں۔ اس کے باعث ایک جانب جہاں صحافت متاثر ہو رہی ہے، وہیں بعض صحافی بھی عدم تحفظ کا شکار ہو رہے ہیں۔ ایسا لگ رہا ہے کہ پاکستان میں صحافی اور صحافت نایاب ہو چکی ہے۔ مخاطب ہونے والا صحافی اب کسی نہ کسی سیاسی جماعت کی ترجمانی کرتا دکھائی دیتا ہے۔ اگر کوئی صحافی کہہ دے کہ وہ کسی سیاسی جماعت کو سپورٹ نہیں کرتا تو یہ بات ناقابل یقین سی لگتی ہے۔

کسی بھی صحافی کا ٹوئٹر اکاؤنٹ دیکھ کر با آسانی اس کی جانبداری کا پتہ لگایا جا سکتا ہے کہ وہ کس سیاسی جماعت کی حمایت کر رہا ہے۔ صحافیوں کو سیاست زدہ ہو جانے پر کئی نقصانات کا سامنا ہوتا ہے جس کے بعد انہیں سکیورٹی کی اشد ضرورت پڑ جاتی ہے۔ مخالفین سے قتل کی دھکمیاں ملنے لگتی ہیں اور ان کے ساتھ ہراسانی کے واقعات پیش آتے ہیں۔ سیاست دان اور صحافی میں یہ فرق ہوتا ہے کہ سیاست دان اکثریت کی حمایت کی تلاش میں ہوتے ہیں اور صحافی سچ کی تلاش میں ہوتا ہے۔ اگر ایک سیاست دان یا ادارہ جھوٹ کو سچ بنا کر پیش کر رہا ہو تو ایک غیر جانبدار صحافی کا کام ہے کہ خبر کی کھوج لگا کر حقیقت عوام کے سامنے لائے۔ اندرونی خبروں کے حصول کے لیے ہر صحافی سیاست دانوں یا پھر دیگر حلقوں کی قربت چاہتا ہے لیکن دوسری جانب عوام کے سامنے ایک صحافی کی غیر جانبداری ہی اس کا سب سے بڑا اور اصلی سرمایہ ہوتی ہے۔ اگرچہ غیر جانبداری نہ دکھانے والے صحافی زندگیوں سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔

جیو نیوز کے سینیئر کالم نگار اور سیکرٹری جنرل پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس مظہر عباس کہتے ہیں کہ دیکھیں صحافت کا کام خبر کو تلاش کرنا اور اپنی رائے شامل کئے بغیر اس کو اخبار یا ٹیلی وژن چینل کو دینا ہے۔ اگر کوئی تجزیہ کرتا ہے، کسی سیاست دان یا کسی سیاسی جماعت کے بارے میں تو یہ اس صحافی کی اپنی ایک رائے ہوتی ہے، ایک پوائنٹ آف ویو ہوتا ہے۔ بہت سے لوگ مختلف قسم کے ٹیلی وژن پروگراموں میں سیاسی جماعتوں، سیاست دانوں پہ تنقید بھی کرتے ہیں۔ ان کی اچھائی اور برائی بھی بیان کرتے ہیں کیونکہ یہ ایک تجزیہ نگار کا کام ہے، لیکن ضروری نہیں کہ جو تجزیہ نگار نے کہا ہے وہ درست ہوگا، وہ غلط بھی ہو سکتا ہے۔

میں یہ نہیں کہتا کہ صحافی سیاست پر بات نہ کریں بلکہ سیاست، جمہوریت اور صحافت یہ ایک پلر ہیں، جہاں سیاست ہو گی وہاں جمہوریت بھی ہو گی اور صحافت بھی ہو گی لیکن پھر صحافت کرنے کے بھی کچھ اصول ہیں۔ صحافی جب سیاست زدہ ہو جائے تو اپنا تحفظ کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ انہیں جانی خطرہ لاحق ہو جاتا ہے۔ پروٹیکشن کے بغیر وہ کہیں جا نہیں سکتا کیونکہ وہ کھلے عام صحافت کے پلر سے کسی ایک پارٹی کا حمایتی بن جاتا ہے۔ ایسے معاملات پر کئی ایسے واقعات پیش آ چکے ہیں جن کے باعث کچھ صحافی قتل بھی ہوئے ہیں تو کئی تشدد کا نشانہ بنے ہیں اور کسی کو اغوا کیا گیا ہے۔

صحافتی اصول یہ ہے کہ اپنے پیشے سے ایمانداری کا حق ادا کریں، عوام کے سوا کسی کی سیاست میں آنے سے گریز کریں تو وہ صحافی اپنا تحفظ بھی کر سکتا ہے ورنہ اگر آج کل ایک منٹ کے لیے ہم ٹی وی چینل دیکھیں تو واضح نظر آتا ہے کہ یہ صحافی کس جماعت کے حق میں بات کر رہا ہے۔ تو پھر اس طرح دوسری جماعت کے لوگ ان کی جان کے دشمن بن جاتے ہیں۔

سماء نیوز کے ڈائریکٹر نیوز طارق محمود کا کہنا ہے کہ صحافت سے وابستہ شخصیات کا حکومت یا سیاسی جماعت کا حصہ بننا کوئی نئی یا اچنبھے کی بات نہیں ہے، البتہ اس رجحان میں اب اضافہ ہو رہا ہے جس کے برے اثرات بھی نظر آرہے ہیں۔ آئے روز صحافیوں کو قتل کیا جا رہا ہے۔ وجہ یہی بنتی ہے کہ وہ کسی پارٹی کے حمایتی ہوتے ہیں۔ اس لیے صحافیوں کو احتیاط کرنی چاہئیے۔ آج کل تو کچھ صحافی نگران سیٹ اپ کے ذریعے اس میدان میں اترے ہیں تو کچھ نے سیاسی جماعتوں میں شمولیت اختیار کر لی ہے اور کچھ نے تو مستقل بنیادوں پر یہ پیشہ اختیار کر لیا ہے۔

کسی بھی صحافی کی جانب سے حکومت یا سیاسی جماعت میں شامل ہونے کے فیصلے نے ہمیشہ ہی ایک بحث کو جنم دیا ہے اور اس کے حق اور مخالفت میں دونوں طرح کی آرا موجود ہیں۔ تاہم اکثریت اس عمل کی ناقد رہی ہے۔ پنجاب میں نگران وزیر اعلیٰ کے لیے ایک میڈیا گروپ کے مالک کا انتخاب ہوا تو یوں حکومت کا حصہ بننے اور سیاست میں آنے والے صحافیوں کی فہرست میں ایک اور کا اضافہ ہو گیا جس کے بعد سوشل میڈیا پر ایک بحث بھی چھڑ گئی۔

ابتدائی طور پر حکومت اور حزبِ اختلاف میں نگران وزیر اعلیٰ کے ناموں پر اتفاق نہیں ہو سکا تھا جس کے بعد الیکشن کمیشن نے آئین کے تحت اختیار کا استعمال کرتے ہوئے سید محسن رضا نقوی کو نگران وزیر اعلیٰ کے لیے منتخب کر لیا۔ محسن نقوی دوسرے صحافی ہیں جو نگران وزیر اعلیٰ کے عہدے پر فائز ہوئے ہیں۔ اس سے پہلے یہ اعزاز نجم سیٹھی کو ملا تھا۔ نجم سیٹھی نے 2013 کے عام انتخابات سے قبل پنجاب کے نگران وزیر اعلیٰ کے طور پر اپنے فرائض انجام دیے تھے۔ اس لیے مختلف دور میں صحافی سیاست دان بنتے رہے ہیں۔ میرے خیال میں صحافیوں کو اپنے کام پر ترجیح دینی چاہئیے، یہی بہتر رہے گا۔

ویسے تو ڈاکٹر حسن عسکری رضوی کا تعلق شعبہ تدریس سے رہا ہے لیکن کالم لکھنے اور نیوز چینلز پر تجزیہ نگار کے طور پر نظر آنے پر انہیں بھی ان صحافیوں کی فہرست میں شامل کیا جا سکتا ہے جو نگران وزیر اعلیٰ مقرر ہوئے۔ ڈاکٹر حسن عسکری رضوی 2018 میں قائم ہونے والی نگران پنجاب حکومت کے سربراہ تھے۔ مگر اصل صحافی وہ ہوتا ہے جو اپنے پیشے کے ساتھ سچا ہو۔ سیاست دان حقائق کو عوام سے چھپاتے ہیں مگر صحافی وہ آئینہ ہے جو عوام کو اصل حقائق دکھاتا ہے۔ اس لیے میری رائے ہے کہ کسی بھی صحافی کو سیاست زدہ نہیں ہونا چاہئیے۔ اس کے برے اثرات مرتب ہوتے ہیں کیونکہ اپنا اور اپنی صحافت کا تحفظ کرنا ہمارا اولین فرض ہے۔

صدر سکھر یونین آف جرنلسٹس امداد بزدار کا ماننا ہے کہ پاکستان کے اندر حقیقت پر مبنی صحافت کرنا انتہائی مشکل اور کٹھن کام بن کر رہ گیا ہے کیونکہ جب ایک غیر جانبدار صحافی اپنی خبر یا سٹوری بنا کر اخبار یا ٹی وی چینل کو دیتا ہے تو کہیں نہ کہیں سے کسی نہ کسی طرح یا تو اس رپورٹر کو یا پھر اس کے ادارے پر دباؤ آتا ہے یا کسی نہ کسی طرح انہیں خاموش کرانے یا بیک کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اس کی کئی وجوہات ہیں لیکن دو وجوہات اہم ہیں۔ ان میں سے ایک تو میڈیا پروفیشنل سے زیادہ کمرشل کے طور پر کام کر رہا ہے۔ کئی اداروں کے مالکان کاروباری فرد ہیں۔ ان کی کئی مجبوریاں ہیں جن کی وجہ سے وہ اپنے ادارے کے پلیٹ فارم پر کھل کر بات نہیں کر سکتے۔ دوسری بات یہ ہے کہ صحافی کسی نہ کسی طرح ٹارگٹ بن جاتے ہیں۔

جیسا کہ ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان کے اندر اب تک 150 سے زائد صحافیوں کو شہید کیا جا چکا ہے اور سینکڑوں کی تعداد میں صحافی تکلیف اور کرب سے گزر رہے ہیں۔ حکومت اور ریاست کو چاہئیے کہ پاکستان کے اندر امن و امان کے قیام کو مکمل بحال رکھنے کے ساتھ ساتھ صحافتی اداروں کو تحفظ فراہم کریں۔ میرے خیال میں پاکستان کے اندر پروفیشنل اور تحقیق کرنے والے ہزاروں صحافی موجود ہیں۔ عام لوگوں تک سچائی پہنچانے کے لیے جذبے اور عزم کے ساتھ یہ صحافی فیلڈ میں کام کرنے جاتے ہیں لیکن کسی نہ کسی مجبوری کی وجہ سے وہ کام نہیں کر پاتے۔ حکومت کو چاہئیے کہ وہ عوام تک سچائی کو پہنچانے کے لیے اس طرح کے صحافیوں کو پروموٹ کرے۔ اگرچہ صحافیوں کے قتل ہونے کے واقعات اس لیے رونما ہوتے ہیں کہ وہ سیاست کرنے بیٹھ جاتے ہیں، تاہم انہیں سکیورٹی فراہم کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے۔

شبانہ ملک کشمور کے لیڈیز ونگ کی ضلعی صدر ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ صحافت اور سیاست لازم و مظلوم ہیں، ایک دوسرے کے بغیر نہ سیاست چل سکتی ہے اور نا ہی صحافت۔ میرے خیال میں صحافیوں کو عوام کے مفادات کو دیکھ کر صحافت کرنی چاہئیے۔ ضروری نہیں کہ صحافی سیاست دانوں کے گناہوں کو چھپائیں بلکہ وہ حقیقت بیان کریں جن سے ان کی کمی کوتاہی دور ہو سکے۔ معاشرے میں صحافی عوام کی آواز ہوتے ہیں۔ عوام کی آنکھوں میں دھول نہ ڈالیں، عوام کو حقیقت سے آگاہ کرنے کے لیے کام کیا جائے۔ میں ایک سیاسی رہنما ہوں، مجھے یہ پسند ہو گا اگر مجھے کوئی سچائی کا آئینہ دکھائے۔ ایسا ہرگز نہیں کہ سارے سیاست دان ایک جیسے ہوتے ہیں۔ ہر انسان کی اپنی سوچ ہوتی ہے، پھر بھی آج کل کے دور میں کئے ایسے صحافی یا میڈیا ہائوسز مالکان ہیں جو پولیٹکل رہنماؤں سے ملے ہوتے ہیں۔ ان کی وجہ سے سیاست اور صحافت دونوں بدنام ہوتے ہیں اور دونوں کو نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔

امداد کھوسو صحافی ہیں اور پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق  (HRCP)کے کونسل ممبر ہیں۔ ان کے مطابق یہ حقیقت بالکل عیاں ہے کہ سیاست دانوں اور صحافیوں کے غیر جانبدارانہ عمل سے جمہوریت کی بحالی ممکن ہے۔ اس سلسلے میں ماضی اور حال کی صحافت پر نظر دوڑانے کی ضرورت ہے۔ ماضی میں صحافت نے سیاسی اور جمہوری عمل کے فروغ میں اپنا کردار بہت ہی اچھے انداز میں نبھایا تھا جس کی کئی مثالیں دی جا سکتی ہیں۔ مگر پھر ایسا وقت بھی آیا جب صحافت میں جدت آنا شروع ہوئی تو معاملہ فہمی اور ذاتی فائدہ سر چڑھ کر بولنے لگے۔ مگر اب معاملات اس سے بھی مختلف ہو چکے ہیں۔ موجوده مارکیٹنگ اور رینکنگ کے دور میں صحافی ڈنکے کی چوٹ پر سیاسی جماعتوں کا ساتھ دینے کے دعوے کرتے ہیں۔ وہ سرعام سیاسی جماعتوں کے ترجمانوں کا کام کرتے ہیں جس سے صحافی اور صحافت کو نقصان پہنچتا ہے۔

اگر کوئی صحافی سرعام کسی ایک پارٹی کی ترجمانی کرے گا تو ظاہر سی بات ہے کہ انہیں جانی، مالی اور دیگر نقصان کی دھمکیاں ملتی رہیں گی۔ صحافی خود کو 'غیر جانبدار صحافی یا تجزیہ کار' بھی کہتے ہیں۔ کیا ایسا کرنے سے کوئی نقصان بھی ہوتا ہے۔ سیاسی جماعتوں کی حمایت کرنے سے نامور صحافیوں کی اپنی ساکھ داؤ پر لگ جاتی ہے، صحافت کی ساکھ داؤ پر لگ جاتی ہے۔

ہونا تو یہ چاہئیے کہ صحافی دیانت داری سے کام لے۔ عوام کو حتی الامکان سچ پر مبنی اطلاعات فراہم کرے۔ آپ تجزیے کرتے وقت بھی جہاں تک ممکن ہو سکے غیر جانبدار رہتے ہوئے تجزیے کریں۔ لیکن ایسا اب نہیں رہا۔ پاکستانی میڈیا پر تجزیے اور کالم صحافیوں کے نہیں بلکہ سیاسی کارکنوں، پرجوش کارکنوں، پارٹی ممبران اور ہنٹر صحافیوں کے محسوس ہوتے ہیں۔

عوام میں ایک غیر جانبدار صحافی یا تجزیہ کار کا تاثر قائم رکھنا آسان کام نہیں ہے۔ اس کے لیے شاید ایک صحافی کو اپنے ذاتی مفادات کی قربانی بھی دینا پڑتی ہے اور پاکستان میں شاید اب صحافیوں کے لیے ذاتی مفادات اور ذاتی نظریات کی قربانی دینا ایک مشکل کام بن چکا ہے۔

دوسرے لفظوں میں سیاسی وابستگیاں آپ کے کام کو کھا جاتی ہیں۔ آپ کے علمی قد کو چھوٹا کر دیتی ہیں۔ عوام کا ایک مخصوص طبقہ تو آپ کی عزت کرتا ہے لیکن دیگر معاشرتی طبقات میں آپ قابل اعتماد نہیں رہتے۔ آپ اپنے ساتھ زیادتی کر رہے ہوتے ہیں۔ صحافت جیسے پیشے کے ساتھ زیادتی بھی ہوتی ہے اور یہ عمل آپ کے اپنے مداحوں کے ساتھ بھی زیادتی ہی کے زمرے میں آتا ہے جس کا زیادہ نقصان جمہوری اور سیاسی نظام کو ہوتا ہے، کیونکہ جمہوری عمل میں ایک صحافی کا کردار بطور بالغ نظر کا ہونا چاہئیے جس سے ان قوتوں کو شرمندگی ملے گی جنہوں نے صحافت کو نقصان پہنچانے کا تہیہ کیا ہوا ہے۔ اس لیے صحافی کو سیاسی پارٹی ہرگز نہیں بننا چاہئیے کیونکہ ایسا کرنے سے صحافیوں کو نقصانات پیش آ رہے ہیں۔

سینیئر صحافی مبشر بخاری کہتے ہیں کہ صحافی کا کام یہی ہوتا ہے کہ پارٹی نہ بنے، جو سچ ہو وہ کہے وہی لکھے۔ ہمارے ہاں اس طرح کی کئی مثالیں موجود ہیں۔ ایک صحافی کے نظریات اپنی جگہ پر ہو سکتے ہیں، نظریاتی، سیاسی، مذہبی اور معاشرتی دوستیاں بھی ہوتی ہیں لیکن اچھا صحافی وہ ہوتا ہے جس کی رپورٹنگ میں سیاسی، مذہبی اور معاشرتی وابستگیوں کی جھلک نظر نہ آئے۔ یعنی رپورٹ کرتے ہوئے اپنے نظریات کی بنیاد پر کسی کو کوئی رعایت نہ دے۔ ماضی میں اس کی کئی مثالیں موجود ہیں مثلاً ڈاکٹر مہدی حسن، نثار عثمانی اور حسین نقی صاحب جو بائیں بازو کی سیاست میں شامل رہے جن کی مثالیں آج بھی تاریخ کے اوراق میں شامل ہیں۔

ذوالفقار علی بھٹو جب وزیر اعظم تھے نثار عثمانی کے بہت قریب تھے۔ مجھے یاد ہے میں خود گواہ ہوں کہ بھٹو صاحب نے نثار عثمانی صاحب کو بڑی آفرز بھی دی تھیں، میں نے ان کے منہ سے سنا تھا۔ بھٹو صاحب نے نثار عثمانی کو برطانیہ میں ہائی کمشنر لگانے کو کہا تو نثار عثمانی نے انکار کر دیا۔ اس بات کی میں بھی گواہی دوں گا جب بینظیر صاحبہ کے دور میں فرامبل سے علاج اور گھر کی آفر دی گئی تو انہوں نے آفرز کو بھی ٹھکرا دیا۔ اگرچہ وہ لیفٹ کے سیاست دانوں کے ساتھ تھے مگر انہوں نے کوئی فائدہ حاصل نہیں کیا تھا۔

اس کے علاوہ ڈاکٹر مہدی حسن صاحب بھی پیپلز پارٹی کے ساتھ تھے مگر ایک دن انہیں یوم تاسیس کے پروگرام میں مدعو کیا گیا تو وہاں پر جو انہوں نے تقریر کی، کمال کر دیا۔ تقریر موجودہ حکومت پیپلز پارٹی کے برعکس تھی جس پر محترمہ بینظیر صاحبہ نے لوگوں سے باقاعدہ پوچھا کہ ڈاکٹر صاحب کو کس نے مدعو کیا تھا؟ وہاں پر جو آرگنائزر تھے انہیں تو لینے کے دینے پڑ گئے۔

تیسری مثال حسین نقی صاحب کی ہے جو آج بھی حیات ہیں، جنہوں نے کراچی یونیورسٹی میں ایکٹو ازم کے چکر میں اپنے درجنوں ساتھیوں کو بچانے کے لیے اپنی ہی تعلیم کی قربانی دی تھی، بہت سارے معملات پیش آئے، انہوں نے دیکھا کہ ہمارے ادارے اپنی پالیسی سے انحراف کر رہے ہیں، جس پر انہوں نے دی نیوز سے واک آؤٹ کر دیا تھا۔

اس طرح بہت ساری مثالیں اور بھی ہیں جیسے نصرت جاوید جو کسی کی پارٹی نہیں بنتے تو اس لیے ریڈ لائن میں نہیں آتے۔ بدقسمتی سے پاکستان میں صحافت وہ صحافت نہیں رہی بلکہ کاروبار بن چکا ہے۔ کاروباری تاجر میڈیا ہاؤسز کی دکانیں کھول کر دیگر کاروبار کر رہے ہیں جو سیاست دانوں اور حکمرانوں کے ماتحت ہوتے ہیں اور سچ کو چھپانے کے لیے عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکتے ہیں۔ بس ترجمان، ایجنٹ اور لابنگ کرنے والا صحافی نظر آتا ہے، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ صحافت نیم مردہ ہو گئی ہے اور اسی بنا پر صحافیوں کو خطرات پیش آتے ہیں۔

پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے مرکزی رہنما لالا اسد پٹھان کا کہنا ہے کہ جو صحافی سیاسی جماعتوں کا ساتھ دیتے ہیں وہ صحافت کے معیار کو تو نقصان پہنچاتے ہی ہیں البتہ ساتھ ہی خود کا بھی نقصان کرتے ہیں۔ اکثر اوقات صحافیوں کا قتل سیاست زدہ ہونے کی وجوہات پر مبنی ہوتا ہے اس لیے خدا کے لیے اپنے پیشے پر ایسا داغ نہ لگائیں جس سے صحافت کا مقدس پیشہ بدنام ہو اور خود بھی عدم تحفظ کا شکار ہوں۔

سیاست کا فریق بن کر کام کرنا چاہئیے۔ صحافت ایک کاز ہے جس کے تحت کام کریں۔ اصل حقائق کو دکھانا اور لکھنا ہمارا اصل کام اور فرض ہے۔ کسی بھی سیاسی پارٹی سے لاتعلق ہو کر رپورٹنگ کریں گے تو عوام کے سامنے آپ کا اور آپ کی رپورٹنگ کا معیار بلند ہو گا۔ ایسا کریں گے تو اس طرح کے واقعات رونما نہیں ہو سکیں گے۔

سندھی اخبار روزنامہ دھرتی کے حیدر آباد میں ایڈیٹر ظہیر میرانی کہتے ہیں کہ میڈیا قوانین تو اتنے سخت ہیں کہ اگر ایک پریس کلب کا ممبر صحافی ہو اور اس نے اپنے نام سے پبلشر ڈیکلیریشن کروائی ہے تو وہ پریس کلب کا ممبر نہیں رہتا، ممبرشپ سے بھی خارج ہو جاتا ہے۔ صحافی غیر جانبدار ہوتا ہے۔ اس کا کسی بھی پارٹی میں شامل ہونا یا سیاست کرنا یہ ثابت کرتا ہے کہ وہ صحافی نہیں رہا۔ کسی ادارے میں کام کرنے کے لائق نہیں رہا۔ کوئی ادارہ پھر بھی اس پر مہربان ہو تو وہ الگ بات ہے۔ صحافی اگر سیاست کرتا ہے تو اس کے کئی فوائد اور کئی مسائل ہیں۔

فوائد تو یہ ہیں کہ اس پارٹی سے فنڈنگ ملنے اور وزیر بننے کا موقع ملتا ہے، نقصانات کی اگر بات کی جائے تو وہ جب غیر جانبداری سے ہٹ جاتا ہے تو ایک پارٹی سے منسلک ہونے کے بعد دوسری فریق پارٹیوں کے ساتھ دشمنیاں پیدا ہو جاتی ہیں۔ تب وہی صحافی عدم تحفظ کا شکار ہو جاتا ہے اور اس کے ساتھ ناخوشگوار واقعات پیش آتے ہیں۔ پھر وہی صحافی کا نقاب پہن کر تنظیموں کا سہارا لیتا ہے جو کہ ایسا ہرگز نہیں کرنا چاہئیے۔ چونکہ صحافتی تنظیمیں ایسے شخص کو اگرچہ صحافی مانتی ہیں جو اپنے پیشے سے ہٹ کر سیاست میں لگ جاتا ہے، اپنے مفادات کو پیشے سے زیادہ وقت دیتا ہے تو یہ انتہائی غلط بات ہے۔ میرے خیال میں صحافیوں کو غیر جانبداری کے ساتھ کام کرنا چاہئیے۔ جو بہتر طریقے سے کام کر رہے ہیں، جنہیں شہرت نہیں چاہئیے وہی اصل صحافی ہیں۔ جو اپنا اور اپنے قلم کا تحفظ بھی کر رہے ہیں اور وہی بلاتفریق پیشہ ور صحافی بن کر کردار ادا کر رہے ہیں۔

سینیئر تجزیہ نگاروں، ایڈیٹرز، صحافیوں اور ہیومن رائٹس کے نمائندوں، سیاسی حلقوں کے بیانات سے واضح ہوتا ہے کہ صحافیوں کو سیاست زدہ ہونے سے گریز کرنا چاہئیے جس سے صحافی کو خطرات لاحق ہوتے ہیں۔ اس لیے صحافیوں کو چاہئیے کہ اپنی تنظیموں کو مضبوط بنانے کے لیے سیاسی پارٹی نہ بنیں کیونکہ سیاسی پارٹی بن جانے سے رپورٹنگ کے معیار کو نقصان پہنچنے کے ساتھ ساتھ صحافیوں کی زندگیوں کو بھی خطرات لاحق ہو جاتے ہیں۔

حضور بخش منگی 15 سالوں سے شعبہ صحافت کے ساتھ وابستہ ہیں۔ آج کل کندھ کوٹ میں آج نیوز کے رپورٹر ہیں اور کندھ کوٹ پریس کلب کے جوائنٹ سیکرٹری بھی ہیں۔