پاکستان کی قومی اور سیاسی تاریخ میں 1971 کا سال انتہائی افسوس ناک ہونے کے ساتھ ساتھ کئی حوالوں سے خاصا سبق آموز بھی ہے۔ جب کبھی پاکستان کی ریاست سیدھے راستے سے بھٹکنے لگے تو اس کو 1971 کو یاد کر کے اپنی سمت کو درست کر لینا چاہئیے۔ 1971 میں پاکستان کا معاشرہ صوبائی اور لسانی بنیادوں پر تقسیم ہو چکا تھا۔ ملک کا ایک حصہ الگ ہو چکا تھا۔ 90 ہزار سے زیادہ پاکستانی فوجی دشمن کی قید میں تھے۔ عوام اور فوج میں انتہا درجے کی مایوسی پیدا ہو چکی تھی۔ دشمن ملک مشرقی پاکستان کو علیحدہ کرنے کے بعد اب مغربی پاکستان کو بھی توڑنے کے عزائم رکھتا تھا۔ ملک کے پاس سیاسی قیادت کا فقدان تھا۔ ریاست کے امور کو چلانے کے لیے آئین ہی موجود نہیں تھا۔ شہریوں کے پاس شناختی کارڈ اور پاسپورٹ نہیں تھا اور سب سے بڑھ کر قوم میں جینے اور آگے بڑھنے کی امید دم توڑ چکی تھی۔
اس تاریک دور میں ایک آواز اٹھی جس کی گونج ریاست پاکستان کے کونے کونے میں سنائی دی۔ وہ آواز امید، ترقی اور خوشحالی کی آواز تھی جس نے ہر مایوس روح کے اندر زندگی کی شمع روشن کر دی۔ یہ آواز قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو کی تھی جنہوں نے شکست خوردہ اور تقسیم شدہ قوم کو باور کروایا کہ وہ پھر سے اپنا کھویا ہوا مقام حاصل کر سکتی ہے۔ تاریخ نے یہ ثابت کیا کہ پاکستان ایک مرتبہ پھر سے ترقی اور یکجہتی کے راستے پر گامزن ہوا اور چند ہی سالوں میں تیسری دنیا کے رہنما ملک کے طور پر اپنے آپ کو منوانے میں کامیاب ہو گیا۔
آج پاکستان پھر سے شدید اندرونی تقسیم کا شکار ہو چکا ہے۔ صوبائی تعصب انتہائی حدوں کو چھو رہا ہے۔ برادریوں کی سیاست نے قومی یکجہتی کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔ مذہبی انتہاپسندی معاشرتی امن کو تباہ کر رہی ہے۔ نوجوان نسل پاپولسٹ اور بناوٹی سیاست کے جذباتی ریلے میں بہہ کر بے راہ روی کا شکار ہو چکی ہے۔ ملک کی مٹھی بھر اشرافیہ ریاست کے اکثریتی وسائل پر قابض ہے۔ نوجوان بے روزگار ہیں اور مستقبل کی فکر انہیں کھائے جا رہی ہے۔ کسان اور مزدور پھر سے پریشان حال ہیں اور ملکی معیشت کا یہ عالم ہے کہ پاکستان چند ڈالروں کے حصول کے لئے کشکول لے کر در در کی ڈھوکریں کھانے پر مجبور ہو چکا ہے۔
موجودہ دور میں پاکستان پھر سے اپنی منزل کا نشان کھو چکا ہے۔ ان حالات کو دیکھتے ہوئے مولانا ابوالکلام آزاد کی برسوں پہلے والی بات سچ دکھائی دے رہی ہے کہ ایک وقت ایسا آئے گا کہ پاکستان کا نوجوان اس ریاست کے وجود پہ آواز اٹھانے لگ جائے گا۔ 1971 میں بھی ایسی ہی صورت حال تھی۔ مشرقی پاکستان کے الگ ہونے پر یہی سوچ تھی کہ دو قومی نظریے کا خاتمہ ہو گیا ہے جس کی بنیاد پر پاکستان کا قیام عمل میں آیا تھا۔ مگر اس وقت بھٹو صاحب جیسے قومی رہنما نے پاکستانی قوم کو یکجہتی، خوشحالی اور ترقی کے راستے پر ڈال کر ان مفروضوں کو دفن کر دیا۔
پاکستان کے معاشرتی پیرائے میں ایک نکتہ بڑا اہم ہے کہ اس ملک میں کئی مذاہب، فرقوں، رنگوں، قوموں اور زبانوں والے افراد بستے ہیں۔ اس لیے پاکستان کے معاشرے کو ایسے سیاسی نظام کی ضرورت ہے جو اتنی وسعت رکھتا ہو کہ معاشرے کی تمام اکائیوں کو اپنے اندر اس انداز سے سمو سکے کہ اس کے بعد شیعہ، سنی، پنجابی، پٹھان، بلوچی، سندھی، ہندو اور مسلمان کی کوئی تفریق نہ رہے۔ بلاشبہ یہ خوبی ریاست کی بنیادی تعریف میں بھی شامل ہے کہ ریاست کے اندر ہر فرد رنگ و نسل سے بالاتر ہو کر ریاست کے لیے یکساں اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ موجودہ حالات میں بدقسمتی سے اس مساواتی تصور کی عملی تصویر بنتی نظر نہیں آ رہی۔ ریاست کی ہر اکائی الگ الگ راستے پر گامزن ہے۔ ریاست کی اجتماعی فکری سوچ معدوم ہو چکی ہے۔ کوئی بھی ریاست اس قدر تقسیم کے ساتھ زیادہ دیر تک اپنے وجود کو برقرار نہیں رکھ سکتی۔
موجودہ دور میں یہ بات مضحکہ خیز حد تک عجیب لگ سکتی ہے مگر پاکستان کی سیاسی اور معاشرتی حقیقتوں کو دیکھتے ہوئے نظر آتا ہے کہ ایک نظریہ ایسا ہے جو پاکستان کو موجودہ معاشرتی انحطاط اور سیاسی تقسیم سے نکال سکتا ہے۔ یہ ںطریہ پاکستان پیپلز پارٹی کا نظریہ ہے جو کراچی سے لے کر مالاکنڈ تک ہر طبقے کے افراد کو پاکستان کے قومی رنگ میں ڈھال دیتا ہے۔
پاکستان میں موجودہ دور میں مذہب کو بہت خطرناک طریقے سے سیاست میں استعمال کیا جا رہا ہے۔ فرقہ پرستی اور انتہا پسندی نے سیاست کا چہرہ بگاڑ کے رکھ دیا ہے۔ کوئی سیاسی جماعت طالبان کو خاص صوبوں میں حملے نہ کرنے کا کہتی ہے تو کوئی سیاسی جماعت طالبان کی ہر فورم پر وکالت کرتی نظر آتی ہے۔ پاکستان کے نوجوان کو یہ دیکھنے اور سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ایک سیاسی جماعت ایسی ہے جس نے کبھی مذہب، انتہا پسندی اور فرقہ پرستی کی سیاست نہیں کی اور نہ ہی کبھی اس نے سیاست میں آڈیو ویڈیو جیسے اوچھے ہتھکنڈے استعمال کیے ہیں۔ یہ جماعت پاکستان پیپلز پارٹی ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی ملک کی واحد سیاسی جماعت ہے جو انتہا پسندی کے نظریے کے صرف خلاف ہی نہیں بلکہ عرصہ دراز سے اس کے سامنے سینہ سپر ہو کر قربانیاں بھی دے رہی ہے۔
شہید محترمہ بے نظیر بھٹو انتہا پسندی کے خلاف جنگ کرتے ہوئے شہید ہوئیں۔ آج پاکستان میں طالبان مختلف شکلوں میں ہمارے فوجی جوانوں، پولیس اہلکاروں اور عام شہریوں کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ ان خدشات کا اظہار بی بی شہید نے دنیا کے ہر فورم پر کیا تھا۔ ان کو اس بات کا ادراک تھا کہ یہ اتنہا پسند طاقتیں ان کی جان لینے کے درپے ہیں مگر وہ اس کے باوجود پاکستان آئیں، سانحہ کارساز میں بال بال بچ جانے اور سینکڑوں کارکنوں کے قربان ہو جانے کے باوجود وہ اپنے مشن پر ڈٹی رہیں۔ دوسری سیاسی پارٹیوں کے رہنما جیل کے مچھروں کے ڈر سے خود ساختہ جلا وطنی اختیار کر لیتے ہیں اور بعض گولیوں کے چند خول ہی لگنے سے ملک اور قوم کے لیے بڑی قربانیاں دینے کا واویلا اور ڈرامہ شروع کر دیتے ہیں۔ انتہاپسندی کے خلاف جنگ پاکستان پیپلز پارٹی کے نظریے کا تسلسل ہے۔ اسی لیے بلاول بھٹو بے خوف و خطر اپنی ماں کے علم کو تھامے طالبان اور انتہا پسندوں کے ساتھ برسرپیکار ہے۔
پاکستان پیپلز پارٹی بلکہ یوں کہنا چاہئیے کہ ریاست پاکستان کے خلاف غیر جمہوری طاقتوں نے ہمیشہ سے اپنے سیاسی بونے لانچ کیے۔ ان کو طاقت اور پیسہ دے کر ان کی آبیاری کی۔ ہر طرح سے پاکستان پیپلز پارٹی کا راستہ روکنے کی کوشش کی گئی۔ اس کی قیادت کو کبھی طالبان نما جرنیل کے ہاتھوں تختہ دار پر چڑھا دیا گیا تو کبھی 'طالبان سوچ' نے طالبان کے ہاتھوں لیاقت باغ میں پاکستان کی قسمت کو ابدی نیند سلا دیا۔ کربلا کے فاتح نے کہا تھا کہ اگر تمہیں حق کی پہچان میں مشکل پیش آ رہی ہو تو باطل کے تیروں کو دیکھو، وہ جہاں لگ رہے ہوں وہاں حق ہے۔ یہ منظر پاکستان کے عوام اور اقوام عالم نے بھی دیکھا ہے کہ پیپلز پارٹی کے مقابلے میں کبھی تاجر، کبھی مولوی اور کبھی کھلاڑی کو سیاسی نما بنا کر کھڑا کیا گیا مگر اس کا تنیجہ کیا نکلا، ملک معاشی بدحالی، سیاسی ابتری اور مذہبی انتہاپسندی کا شکار ہو چکا ہے۔
پاکستان پھر سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو کر قومی یکجہتی اور ریاستی منزل کھو چکا ہے۔ ان حالات میں ایک نظریہ اور پارٹی جو پاکستان کو پھر سے یکجا کر سکتی ہے وہ بلاشبہ پاکستان پیپلز پارٹی ہے۔ سوشل میڈیا کی مصنوعی چمک سے چندھیائے اور تاریخی سیاق و سباق سے عاری معلومات کے گرداب میں پھنسے پاکستان کے نوجوان کو یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ ریاست پاکستان کے وجود اور اس کی بقا کے لیے کبھی پاکستان پیپلز پارٹی ضروری تھی مگر آج ناگزیر بن چکی ہے۔
عاصم علی انٹرنیشنل ریلیشنز کے طالب علم ہیں۔ انہوں نے University of Leicester, England سے ایم فل کر رکھا ہے اور اب یونیورسٹی کی سطح پہ یہی مضمون پڑھا رہے ہیں۔