عید سے پہلے کا پورا ہفتہ پاکستان کی پارلیمانی تاریخ میں ایک مصروف ترین ہفتہ گزرا اور پارلیمان کے دونوں ایوانوں میں اپوزیشن اور حکومتی بنچوں کے درمیان ایک جنگ کی سی صورتحال تھی۔ اپوزیشن اور سرکاری بنچوں نے انسداد دہشت گردی ترمیمی بل 2020 اور اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل ترمیمی بل شامل تھے، پر ایسی صورتحال بنی کہ ایسا لگ رہا تھا کہ یہ دونوں بل کسی بھی صورت پارلیمان منظور نہیں کر سکے گا۔ ان دونوں بلوں کا تعلق فائنانشل ایکشن ٹاسک فورس سے تھا، جن کی پارلیمان سے منظوری کو پاکستان کو ٹاسک فورس کی گرے لسٹ سے نکلنے کے لئے لازم و ملزوم سمجھا جا رہا ہے، ورنہ پاکستان کو بلیک لسٹ میں بھی ڈالے جانے کی خدشات کا اظہار کیا جا رہا تھا۔
دونوں جانب سے ایک دوسرے پر دقیق حملے کیے گئے، ذاتی الزامات سے بھی گریز نہیں کیا گیا اور اپوزیشن کی طرف سے تقریروں میں کھل کر کہا گیا کہ یہ دونوں بل پاکستان کی سالمیت اور اس کی آزادی کے خلاف ہیں۔ یہاں تک کہ بلوں پر کمیٹیوں میں اور ان کی ترامیم پر بھی مصلحت سے کام لیا گیا۔ حکومت نے بل پارلیمان کا مشترکہ اجلاس بلا کر دونوں بلوں کو منظور کرا لینے کا عندیہ دے دیا۔
تاہم، ساری صورت حال کا ڈراپ سین قومی اسمبلی کے سپیکر اسد قیصر کے گھر اپوزیشن اور سرکاری بنچوں کے اراکین پارلیمنٹ کے درمیان ہونے والی ملاقات میں مفاہمت کے بعد ہوا جس میں آج کل ہارڈ لائن اختیار کیے ہوئے مولانا فضل الرحمان کی جماعت جمعیت علما اسلام کے ارکان کو شرکت کی دعوت ہی نہیں دی گئی، کیونکہ سب کو خطرہ تھا کہ ان کی شمولیت سے پیپلز پارٹی اور نون لیگ کی سہولت کاری ناکام ہو سکتی ہے۔ مولانا صاحب کی جماعت نے اپوزیشن کی سہولت کاری پر ٹی وی شوز میں کھل کر اظہار کیا اور شدید تنقید کی۔
2018 کے انتخابات کے بعد کی صورتحال ہو یا پھر اس سے پہلے، اپوزیشن کی سہولت کاری کوئی نئی بات نہیں، اور جب وقت آتا ہے تو ایوانوں میں بیٹھے عوام کے نمائندے اور پارٹی لیڈر عوام کے مفادات کو پس پشت ڈال دیتے ہیں اور ذاتی مفادات کو اولیت اور اہمیت دیتے ہیں۔ جون کے مہینے میں بجٹ کی منظوری کو ہی دیکھ لیں یا پھر آرمی چیف کی ایکسٹنشن کے لئے قانون سازی، دونوں موقعوں پر تقریروں میں ایک دوسرے پر حملوں کے علاوہ کس بھی سیاسی جماعت کو اور اس کے راہنماؤں اور ارکان پارلیمنٹ کو کہیں بھی عوام کے مفاد یا پھر ان کی تکلیف اور مالی مشکلات، غربت افلاس اور بھوک کا احساس کرتے کہیں بھی دیکھا گیا۔
پورا ملک اور عوام اس وقت کورونا کی وبا کی وجہ سے اس سال مارچ کے مہینے سے شدید مالی مشکلات کا شکار ہیں۔ صرف کورونا ہی نہیں، حکمران جماعت کی ناقص اقتصادی پالیسیوں سے سال کے آغاز اور کورونا کی وبا کے پھوٹنے سے بہت پہلے اس بات کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا تھا کہ ملکی معشیت کو شدید جھٹکا لگنے والا ہے۔ ایک طرف ناقص پالیسی سازی، دوسری طرف کورونا کی وبا نے معیشت کو ٹھپ کر کے رکھ دیا۔ دہاڑی دار سے لے کر دکاندار ہو یا پھر بڑے کاروباری حضرات ہوں سب کے کاروبار ٹھپ ہو کر رہ گئے۔ عام آدمی کی تو کمر ٹوٹ کر رہ گئی اور شاید ابھی ان کی تکالیف کا سفر لمبا ہے کیونکہ کورونا کی وبا کے خطرات کم ضرور ہوئے ہیں، ختم نہیں۔
اقتصادی اور معاشی ماہرین بجٹ کی منظوری سے بہت پہلے کہہ رہے تھے کہ اس سال کے بجٹ میں کرونا کی وبا اور اس سے پیدا ہونے والی صورتحال سے نمٹنے کے لئے خصوصی رقوم مختص کرنا ہوں گی، خاص کر تعلیم اور صحت کے شعبوں میں ماضی کے مقابلے میں کئی گنا اضافہ کرنا ہوگا تاکہ ہم اپنے بچوں کو وبا سے محفوظ تعلیمی ماحول دے سکیں اور وبا کے دوران آن لائن تعلیم اور اس کے نقصانات سے بچا سکیں، ساتھ ہی صحت کی سہولتوں کو اس معیار پر لے جائیں کہ آئندہ ایسی صورتحال میں بزرگ، بڑے، بچوں کو وبا سے بچایا جا سکے۔
پاکستان کے ممتاز ماہر اقتصادیات اور معیشت ڈاکٹر قیصر بنگالی کہ مطابق 2020-21 کے ملی سال کے بجٹ میں غیر ترقیاتی اخراجات اور دفاعی بجٹ میں رکھے گئے نان کمبیٹ، یعنی وہ اخرجات جو جنگی تیاری کے علاوہ ہیں ان میں کمی لا کر 1000 ارب روپے بچا کر اس خطیر رقم کو سوشل سیکٹر، صحت، تعلیم اور وبا سے پیدا ہونے والی صورتحال پر خرچ کیا جا سکتا تھا۔ لیکن عوام، عام آدمی، ریہڑی والا، دہاڑی دار، اینٹ گارے اور سڑک کوٹنے والے مزدور کی سیاستدانوں، حکمرانوں کی نظر میں بس اتنی اہمیت ہے کہ وہ انتخابی مہم کے دن سے لے کر ووٹ ڈالنے کے دن تک انتخابی امیدواروں کا شہزادہ ہوتا ہے بلکہ راج دلارا ہوتا ہے، اس کا سارا خاندان امیدوار کی آنکھ کا تارہ ہوتا ہے۔ لیکن جوں ہی انتخابات ختم ہوئے تو کہا جاتا ہے کہ ’تو کون تے میں کون؟‘
اراکین پارلمینٹ ہوں یا ہماری اسٹبلشمنٹ، ان کے احساسات عوام کی تکلیفوں اور بھوک افلاس سے عاری ہو چکے ہیں۔ اور اس کی بہترین مثال حال ہی میں پارلیمان کے ارکان اور ان کے اہل خانہ کے لئے سفری اخراجات کی منظوری اور اسلام آباد میں راول جھیل کے کنارے پاکستان نیوی کے ایک عالیشان محل نما کلب کا افتتاح ہے۔ کوئی حساب نہیں۔ کوئی پوچھنے والا نہیں کہ یہ اخراجات جو کہ عوام اپنا پیٹ کاٹ کر ادا کرتے ہیں کیوں کیے گئے، کس لئے ہوئے، کیا اراکین پارلیمنٹ پر اتنی بھوک ننگ ہے کہ وہ اپنے خاندان کے سفری اخراجات برداشت نہیں کر سکتے؟ کیا عوام دفاعی بجٹ اس لئے دیتے ہیں کہ اس رقم سے محل نما کلب بنیں؟
سرکاری ملازمین کی تنخواہیں اس لئے نہیں بڑھائی گئیں کہ مشکل حالات ہیں، پنشنر اپنے واجبات کے لئے تین، تین سال سال سے دھکے کھاتے پھر رہے ہیں۔ ان کی کوئی شنوائی نہیں۔ دوسری طرف شدید مالی نقصان کا شکار اداروں میں بیس، پچیس لاکھ کی تنخواہوں پر بھرتیاں جاری ہیں۔ پہلے سے موجود ملازمین کو گھر بھیج بھیج کر اور منافع کے جھوٹے دعوے کر کے کرپشن کے ریکارڈ توڑے جا رہے ہیں۔
یہ ہے نیا پاکستان، جہاں سرنگ کے اس پار اب دور دور روشنی بھی نظر نہیں آ رہی۔
جب تک ملک میں یہی نظام چلتا رہا، حکومت میں بیٹھی پارٹی شعبدے بازیاں کرے گی اور اپوزیشن کی پارٹیاں عوام کے سینے پر مونگ دل کر سودے بازی اور سہولت کاری کرتی رہیں گی۔ میں برملا کہہ سکتا ہوں کہ ’پاکستان کرپٹ حکمران طبقات کے ذاتی مفادات کا شکار ہے‘۔
مضمون نگار سینیئر براڈکاسٹ جرنلسٹ ہیں۔ ان سے asmatniazi@gmail.com اور ایکس پر @AsmatullahNiazi پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔