ہندومسلم اتحاد کے سفیر پاکستان کے بابائے قوم کیسے اور کیوں بنے؟

انتقالِ اقتدار کے بعد خاص طور پربہت سی شہادتیں سامنے آئیں۔ اہم دستاویزات تک عوامی رسائی ہونے کے بعد ابھرنے والی تصویر اُس سے بہت مختلف ہے جو لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے پینٹ کی ،اور مسٹر جناح کو قربانی کابکرا بنا کر انڈیا سے شرمناک طریقے سے فرار ہونے کا جواز پیش کیا ۔ ڈاکٹر عائشہ جلال کی یادگار تنصیف، ’’واحد ترجمان‘‘، اوربھارتی جج ایچ ایم سروائی کی کتاب ’’تقسیمِ ہند : افسانہ اور حقیقت‘‘ ایک متبادل تصور پیش کرتے ہیں جو مغربی تعلیمی اداروں کے اعلیٰ علمی ماحول میں تقسیم ہند کا مطالعہ کرنے والوں میں مقبول ہوچکا ہے ۔ جناح صاحب نے یہ جانتے بوجھتے ہوئے، پورے اعتماد کے ساتھ پاکستان کا مطالبہ کیا تھا کہ کانگرس اس مطالبے کو کسی طور تسلیم نہیں کرے گی، اور اس کی بجائے وہ اُن سے’’ انڈیا کے مسلمانوں کے واحد ترجمان‘‘ کے طور پر ڈیل کرتے ہوئے آزادی کے بعد کے انڈیا کی بابت تفصیل طے کرے گی ۔ اس طرح پاکستان کا مطالبہ متبادل پلان تھا۔ تاہم مذاکرات کرتے ہوئے اس متبادل پلان کو موثر اور جاندار بنانے کے لیے جناح صاحب کو یہ ظاہر کرنا تھا کہ انڈیا کے مسلمان پاکستان کے مطالبے میں انتہائی سنجیدہ ہیں۔ مذاکرات کا یہ کھیل بہت اونچے اسٹیک رکھتا تھا، اور جناح صاحب 1946 کے کیبنٹ مشن کی صورت میں کم وبیش اپنے مقصد میں کامیاب ہوہی چلے تھے جب جواہرلال نہرو نے اسے سبوتاژ کردیا اور بات تقسیمِ ہند کی طرف چلی گئی ۔ یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ جناح صاحب نے تقسیم کی آخری وقت تک مزاحمت کی تھی ، اور اس کی وجہ صرف یہ نہیں تھی کہ یہ تقسیم پنجاب اور بنگال کے قلب پر لکیر کھنچتی تھی ، اوریہ دونوں صوبے انڈیا کے اندر رہتے ہوئے ہندووں اور مسلمانوں کے درمیان ایک وفاقی سمجھوتے کے لیے بہت اہمیت رکھتے تھے ۔ صرف ڈاکٹر امبدکار، جو ایک اہم وکیل اور قانون ساز تھے ، جناح صاحب کی حکمتِ عملی کو بھانپ گئے تھے ۔ اُن کی کتاب، ’’پاکستان اورتقسیم ہند ‘‘بذاتِ خود ایک ایک مقصد کو سامنے رکھ کر لکھی جانے والی تصنیف تھی جو اس موضوع پر ہونے والی بحث کو ہندووں اور مسلمانوں کے باہمی اطمینان کے مطابق حل کرتی ہے ۔ اس کتاب کا مرکزی نقطہ امبدکار کے فارمولے کے گرد گھومتا ہے جس کے مطابق برٹش انڈیا کی پاکستان اور ہندوستان کی صورت آل انڈیا کونسل کی زیرِ نگرانی عارضی تقسیم کی جانی تھی ، اوراس کا آزمائشی دورانیہ دس سال تھا۔ اس عرصے میں فریقین ایک دوسرے سے مذاکرات کرتے ہوئے اپنے تنازعات طے کرکے ایک بار پھر متحدانڈیا کی طرف آسکتے تھے ۔ جناح صاحب یہی چاہتے تھے ۔ ا س میں حیرت کی کوئی بات نہیں کہ جب گاندھی جی نے جناح صاحب سے پوچھا کہ وہ پاکستان کے مطالبے کی وضاحت کریں تو اُن کا جواب تھا کہ گاندھی جی امبدکار کی کتاب پڑھ لیں۔ اس کا منطقی نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ جناح صاحب تقسیم نہیں چاہتے تھے ، بلکہ وہ ایک متوازن نظام کے حامی تھے جو مسلمانوں کے علاوہ اُن اقلیتوں کے حقوق کا بھی تحفظ کرے جنہیں ہندو اکثریت تلے ذات پات کے جابرانہ نظام کا سامنا تھا ۔ جناح صاحب1928 ء سے ہندو قوم پرست جماعت ، ’’ہندو مہا سبھا‘‘ کوبہت قریب سے دیکھ رہے تھے کہ کانگرس ، جس کے ہندو رہنماؤں کو عام طور پر سکیولر سمجھا جاتا تھا، نے مہاسبھا کی ہدایت پر چار ترمیمی بلوں کو مسترد کردیا جو کانگرس کی طرف جھکاؤ رکھنے والی مسلم لیگ کے دھڑے نے پیش کیے ۔ اس دھڑے کی قیادت خود محمد علی جناح کررہے تھے ۔ مسلمانوں کی مخصوص نشستوں کے ذریعے شراکتِ اقتدار کے فارمولے پرہونے والے ناکام تجربے کے بعد جناح صاحب نے نتیجہ نکالا کہ کا غذ ی کارروائی کی حد تک مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ بے معانی ہے ، اس کے لیے موثر اور واضح خطوط طے کرنے ہوں گے ۔ یہ وہ وقت تھا جب دوقومی نظریے نے جنم لیا ۔اس انقلابی تصور نے اکثریت اور اقلیت کے اعدادوشمار کو الٹ کر رکھ دیا ۔ تاریخ کے اس مطالعے کو بہت سے حلقے تسلیم نہیں کرتے ۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ یہ گاندھی اور نہروجیسی شخصیات ، جو جدید بھارتی شناخت کا مرکزی کردار ہیں، کی تقدیس کے درجے کو چیلنج کرتی ہے ۔ تاہم جو چیز تاریخ کی کتب میں بالکل واضح اور دوٹوک ہے ، وہ یہ کہ جناح صاحب ایک خودمختار پاکستان سے کسی درجے کم سمجھوتے پر راضی ہونے کے لیے تیار تھے ۔ یہ کانگرس تھی جس نے تمام آپشنز مسدود کرتے ہوئے مسلم لیگ کے قائدِ اعظم کو شدید دھچکا پہنچایا ۔ اس کے بعد لارڈ ماؤنٹ بیٹن کی خرابی اپنی جگہ پر موجود ہے ۔ لارڈ ماؤنٹ بیٹن اکیلے ہی انتہائی تباہ کن طبعیت کے مالک تھے ۔ اس کی وجہ شاید اُن کی حدسے بڑھی ہوئی انا اور کسی بھی مہارت یا صلاحیت کا فقدان تھا ۔ تقسیم اور آزادی جیسے پیچیدہ مسائل پر اُن کے اناڑی پن، اور جلدی بازی کا شکار ہوتے ہوئے انڈیا کو مقرر ہ وقت سے دس مہینے پہلے آزاد کرنے سے دونوں ریاستوں کے درمیان اُس دشمنی اور خونی رقابت کا آغاز ہو ا جس کے زخم آج بھی تازہ ہیں۔نہایت افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ آج Viceroy’s House جیسی فلمیں بنا کر لارڈ ماؤنٹ بیٹن کے گھناؤنے کردار پر پردہ ڈالنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ ایک مرتبہ جب پاکستان کے وجود میں آنے کا امکان ہاتھ آگیا ، جو اُن کا مطالبہ تو تھا لیکن جس کی اس طرح ہاتھ لگنے کی توقع نہیں تھی، تو جناح صاحب نے فوراً ہی مسلم قومیت کا لبادہ اتار پھینکا اور اُس لبرل سکیولر ازم کی طرف واپس لوٹ آئے جو زندگی بھر اُن کا خاصہ رہا تھا ۔ اُنھوں نے واشگاف الفاظ میں بتادیا کہ پاکستان ایک جمہوری ریاست بنے گا کہ جہاں ریاست کو عقیدے سے کوئی سروکار نہیں ہوگا۔ اُنھوں نے ایک ہندو کو وزیرِ قانون مقرر کرتے ہوئے یہ بات واضح کردی کہ یہ نوزائید ریاست صرف مسلمانوں کے لیے ہی نہیں ، بلکہ اقلیتیں بھی اس کی مساوی شہری ہیں، چاہے اُن کا جو بھی عقیدہ ہو۔ بدقسمتی سے آج، جبکہ اُنہیں دنیا سے رخصت ہوئے 69 سال بیت چکے ہیں، اُن کا تصور بھی تحلیل ہوچکا ہے ۔ نہ ہی اُن کا اختیار کردہ طویل سیاسی سفر باقی ہے جس کے ذریعے پاکستان کے قومی شعور میں ان کی جھلک مل سکے ۔




(یاسر لطیف ہمدانی)


گیارہ ستمبر1948وہ دن تھا جب بابائے قوم، مسٹر محمد علی جناح قیامِ پاکستان کے چند دن بعد اس قوم کو بے سمت اوربے آسر ا چھوڑ کر اس جہانِ فانی سے رخصت ہوگئے۔ قوم تو باقی ہے ، لیکن مسٹر جناح کا تصور، جسے وہ عملی شکل نہ دے سکے، آج کہیں دکھائی نہیں دیتا۔ پاکستان کا قیام متنازع تھا۔ اس تنازع کے مرکز میں جسمانی طور پر نحیف و ناتواں،لیکن لند ن سے تعلیم یافتہ ایک بیرسٹر اور سیاست دان اپنی موجودگی کا توانا احساس دلارہے تھے جنہوں نے اپنے سیاسی سفر کا آغاز انڈین نیشنل کانگرس کے پلیٹ فارم سے کیاتھا، اور جو کبھی ’’ہندو مسلم اتحاد کے سفیر ‘‘ کہلائے تھے ۔ درحقیقت یہ بات کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ تھی کہ بمبئی کی اشرافیہ سے تعلق رکھنے والے ، برٹش انڈیا کے چوٹی کے وکیل اور انتہائی قوم پرست مسٹر جناح یوں قلابازی کھاتے ہوئے اُس اتحاد کی جڑ کاٹ دیں گے جس کی آبیاری اُنھوں نے خود اپنے کیئریر کے آغاز میں کی تھی ۔ اگر اُس وقت کوئی اُن سے کہتا ہے کہ وہ ایک روز مسلمانوں کے لیے ایک الگ سرزمین حاصل کریں گے جو فوراً ہی اسلامی ریاست بن جائے گی، تو مسٹر جناح، جن کی زندگی پر مذہب کی جھلک نمایاں نہیں تھی ، ایک قہقہہ لگاتے اور اس تصور کو سختی سے رد کردیتے ۔ 1904ء ، جب محمد علی جناح نے کانگرس کے پہلے اجلاس میں شرکت کی ،اور 1947 ء ، جب اُنھوں نے پاکستان کی نوزائیدہ ریاست کے پہلے گورنر جنرل کا حلف اٹھایا ، کے درمیان ایسا کیا ہوا تھا جس نے اب تک مورخین کو حیران کیا ہوا ہے ؟ ان کے پاکستان میں جانثار مداح، اور اُن کے ناقدین اکثر یہ جاننے کی کوشش میں مرکزی کہانی سے گریز کا پہلو اختیار کرجاتے ہیں کہ یہ حیران کن انقلابی تبدیلی کیا تھی اورکیونکر واقع ہوئی ؟ اگر وہ اپنی زندگی میں کسی قدر مذہبی یا قدامت پسند بن جاتے تو بھی ایک بات تھی ۔ پھر اس تبدیلی کی وضاحت کرنا آسان ہوتا، لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا۔ پھر دوسری سہل ناقدانہ توجیح یہ ہے کہ وہ اقتدارکے متمنی ایک سیاست دان تھے جنہوں نے اس کے حصول کے لیے مذہب کی سیڑھی استعمال کی ۔ یہ وضاحت مسٹر جناح کی زندگی سے لگّا نہیں کھاتی کیونکہ اُنہیں کئی مواقع پر سر کے خطاب، گورنرکے عہدے اور ہائی کورٹ کے جج کے عہدے کی پیش کش ہوئی لیکن اُنھوں نے ان سب کو مسترد کردیا ۔ ڈاکٹر بی آر امبدکار اپنی کتاب میں لکھتے ہیں...’’یقیناًبھارت میں کوئی اور سیاست ایسا نہیں جن کے بارے میں پورے وثوق سے کہا جاسکے کہ اُنہیں کوئی چیز بدعنوانی پر نہیں اکسا سکتی ۔ ہر وہ شخص جو جانتا ہے کہ اُن کے برطانوی حکومت کے ساتھ کس طرح کے تعلقات تھے ، وہ تسلیم کرے گا کہ وہ برطانوی حکومت اگر دشمن نہیں تو بھی ناقد ضرورتھے ۔ اُنہیں کوئی نہیں خرید سکتا تھا۔ اُنہیں اس بات کا کریڈٹ دینا پڑے گا کہ وہ کبھی بھی دولت اور عہدوں کے پیچھے نہیں بھاگے‘‘ (پاکستان اور تقسیمِ ہند، صفحہ 323)۔ مسٹر جناح کے کردار کی صداقت کی تصدیق ایچ وی ہڈسن ، جو ریفارمز کمشنر تھے اور اُنہیں ذاتی طور پر جانتے تھے ، نے بھی کی۔ وہ لکھتے ہیں...’’ ایک بات یقینی ہے کہ دولت کی تمنا اُنہیں تبدیل نہیں کرسکتی تھی ۔ اُن کے سیاسی حریفوں نے بھی جناح پر کبھی بدعنوانی یا ذاتی مفاد پرستی کا الزام نہیں لگایا تھا ۔ کوئی بھی اُنہیں کسی بھی قیمت پر نہیں خرید سکتا تھا ۔۔۔وہ اپنے نظریات پر راسخ ،ا ور اپنے وقار کا خیال رکھنے والے انسان تھے ۔‘‘(Great Divide; Chapter Two Great Personalities)۔





DAWN newspaper- September, 1948



انتقالِ اقتدار کے بعد خاص طور پربہت سی شہادتیں سامنے آئیں۔ اہم دستاویزات تک عوامی رسائی ہونے کے بعد ابھرنے والی تصویر اُس سے بہت مختلف ہے جو لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے پینٹ کی ،اور مسٹر جناح کو قربانی کابکرا بنا کر انڈیا سے شرمناک طریقے سے فرار ہونے کا جواز پیش کیا ۔ ڈاکٹر عائشہ جلال کی یادگار تنصیف، ’’واحد ترجمان‘‘، اوربھارتی جج ایچ ایم سروائی کی کتاب ’’تقسیمِ ہند : افسانہ اور حقیقت‘‘ ایک متبادل تصور پیش کرتے ہیں جو مغربی تعلیمی اداروں کے اعلیٰ علمی ماحول میں تقسیم ہند کا مطالعہ کرنے والوں میں مقبول ہوچکا ہے ۔ جناح صاحب نے یہ جانتے بوجھتے ہوئے، پورے اعتماد کے ساتھ پاکستان کا مطالبہ کیا تھا کہ کانگرس اس مطالبے کو کسی طور تسلیم نہیں کرے گی، اور اس کی بجائے وہ اُن سے’’ انڈیا کے مسلمانوں کے واحد ترجمان‘‘ کے طور پر ڈیل کرتے ہوئے آزادی کے بعد کے انڈیا کی بابت تفصیل طے کرے گی ۔ اس طرح پاکستان کا مطالبہ متبادل پلان تھا۔ تاہم مذاکرات کرتے ہوئے اس متبادل پلان کو موثر اور جاندار بنانے کے لیے جناح صاحب کو یہ ظاہر کرنا تھا کہ انڈیا کے مسلمان پاکستان کے مطالبے میں انتہائی سنجیدہ ہیں۔ مذاکرات کا یہ کھیل بہت اونچے اسٹیک رکھتا تھا، اور جناح صاحب 1946 کے کیبنٹ مشن کی صورت میں کم وبیش اپنے مقصد میں کامیاب ہوہی چلے تھے جب جواہرلال نہرو نے اسے سبوتاژ کردیا اور بات تقسیمِ ہند کی طرف چلی گئی ۔ یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ جناح صاحب نے تقسیم کی آخری وقت تک مزاحمت کی تھی ، اور اس کی وجہ صرف یہ نہیں تھی کہ یہ تقسیم پنجاب اور بنگال کے قلب پر لکیر کھنچتی تھی ، اوریہ دونوں صوبے انڈیا کے اندر رہتے ہوئے ہندووں اور مسلمانوں کے درمیان ایک وفاقی سمجھوتے کے لیے بہت اہمیت رکھتے تھے ۔ صرف ڈاکٹر امبدکار، جو ایک اہم وکیل اور قانون ساز تھے ، جناح صاحب کی حکمتِ عملی کو بھانپ گئے تھے ۔ اُن کی کتاب، ’’پاکستان اورتقسیم ہند ‘‘بذاتِ خود ایک ایک مقصد کو سامنے رکھ کر لکھی جانے والی تصنیف تھی جو اس موضوع پر ہونے والی بحث کو ہندووں اور مسلمانوں کے باہمی اطمینان کے مطابق حل کرتی ہے ۔ اس کتاب کا مرکزی نقطہ امبدکار کے فارمولے کے گرد گھومتا ہے جس کے مطابق برٹش انڈیا کی پاکستان اور ہندوستان کی صورت آل انڈیا کونسل کی زیرِ نگرانی عارضی تقسیم کی جانی تھی ، اوراس کا آزمائشی دورانیہ دس سال تھا۔ اس عرصے میں فریقین ایک دوسرے سے مذاکرات کرتے ہوئے اپنے تنازعات طے کرکے ایک بار پھر متحدانڈیا کی طرف آسکتے تھے ۔ جناح صاحب یہی چاہتے تھے ۔ ا س میں حیرت کی کوئی بات نہیں کہ جب گاندھی جی نے جناح صاحب سے پوچھا کہ وہ پاکستان کے مطالبے کی وضاحت کریں تو اُن کا جواب تھا کہ گاندھی جی امبدکار کی کتاب پڑھ لیں۔ اس کا منطقی نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ جناح صاحب تقسیم نہیں چاہتے تھے ، بلکہ وہ ایک متوازن نظام کے حامی تھے جو مسلمانوں کے علاوہ اُن اقلیتوں کے حقوق کا بھی تحفظ کرے جنہیں ہندو اکثریت تلے ذات پات کے جابرانہ نظام کا سامنا تھا ۔ جناح صاحب1928 ء سے ہندو قوم پرست جماعت ، ’’ہندو مہا سبھا‘‘ کوبہت قریب سے دیکھ رہے تھے کہ کانگرس ، جس کے ہندو رہنماؤں کو عام طور پر سکیولر سمجھا جاتا تھا، نے مہاسبھا کی ہدایت پر چار ترمیمی بلوں کو مسترد کردیا جو کانگرس کی طرف جھکاؤ رکھنے والی مسلم لیگ کے دھڑے نے پیش کیے ۔ اس دھڑے کی قیادت خود محمد علی جناح کررہے تھے ۔ مسلمانوں کی مخصوص نشستوں کے ذریعے شراکتِ اقتدار کے فارمولے پرہونے والے ناکام تجربے کے بعد جناح صاحب نے نتیجہ نکالا کہ کا غذ ی کارروائی کی حد تک مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ بے معانی ہے ، اس کے لیے موثر اور واضح خطوط طے کرنے ہوں گے ۔ یہ وہ وقت تھا جب دوقومی نظریے نے جنم لیا ۔اس انقلابی تصور نے اکثریت اور اقلیت کے اعدادوشمار کو الٹ کر رکھ دیا ۔ تاریخ کے اس مطالعے کو بہت سے حلقے تسلیم نہیں کرتے ۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ یہ گاندھی اور نہروجیسی شخصیات ، جو جدید بھارتی شناخت کا مرکزی کردار ہیں، کی تقدیس کے درجے کو چیلنج کرتی ہے ۔ تاہم جو چیز تاریخ کی کتب میں بالکل واضح اور دوٹوک ہے ، وہ یہ کہ جناح صاحب ایک خودمختار پاکستان سے کسی درجے کم سمجھوتے پر راضی ہونے کے لیے تیار تھے ۔ یہ کانگرس تھی جس نے تمام آپشنز مسدود کرتے ہوئے مسلم لیگ کے قائدِ اعظم کو شدید دھچکا پہنچایا ۔ اس کے بعد لارڈ ماؤنٹ بیٹن کی خرابی اپنی جگہ پر موجود ہے ۔ لارڈ ماؤنٹ بیٹن اکیلے ہی انتہائی تباہ کن طبعیت کے مالک تھے ۔ اس کی وجہ شاید اُن کی حدسے بڑھی ہوئی انا اور کسی بھی مہارت یا صلاحیت کا فقدان تھا ۔ تقسیم اور آزادی جیسے پیچیدہ مسائل پر اُن کے اناڑی پن، اور جلدی بازی کا شکار ہوتے ہوئے انڈیا کو مقرر ہ وقت سے دس مہینے پہلے آزاد کرنے سے دونوں ریاستوں کے درمیان اُس دشمنی اور خونی رقابت کا آغاز ہو ا جس کے زخم آج بھی تازہ ہیں۔نہایت افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ آج Viceroy's House جیسی فلمیں بنا کر لارڈ ماؤنٹ بیٹن کے گھناؤنے کردار پر پردہ ڈالنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ ایک مرتبہ جب پاکستان کے وجود میں آنے کا امکان ہاتھ آگیا ، جو اُن کا مطالبہ تو تھا لیکن جس کی اس طرح ہاتھ لگنے کی توقع نہیں تھی، تو جناح صاحب نے فوراً ہی مسلم قومیت کا لبادہ اتار پھینکا اور اُس لبرل سکیولر ازم کی طرف واپس لوٹ آئے جو زندگی بھر اُن کا خاصہ رہا تھا ۔ اُنھوں نے واشگاف الفاظ میں بتادیا کہ پاکستان ایک جمہوری ریاست بنے گا کہ جہاں ریاست کو عقیدے سے کوئی سروکار نہیں ہوگا۔ اُنھوں نے ایک ہندو کو وزیرِ قانون مقرر کرتے ہوئے یہ بات واضح کردی کہ یہ نوزائید ریاست صرف مسلمانوں کے لیے ہی نہیں ، بلکہ اقلیتیں بھی اس کی مساوی شہری ہیں، چاہے اُن کا جو بھی عقیدہ ہو۔ بدقسمتی سے آج، جبکہ اُنہیں دنیا سے رخصت ہوئے 69 سال بیت چکے ہیں، اُن کا تصور بھی تحلیل ہوچکا ہے ۔ نہ ہی اُن کا اختیار کردہ طویل سیاسی سفر باقی ہے جس کے ذریعے پاکستان کے قومی شعور میں ان کی جھلک مل سکے ۔