(پروفیسر منّان احمد)
گزشتہ دنوں میں نے کلاس میں پوچھا کہ کیا نیویارک مقدس مقامات رکھتا ہے ؟ کیا وہاں مزارات وغیرہ ہیں جن کی ’’زیارت‘‘ کی جاتی ہے ؟ فوراً ہی جواب ملا کہ یہ مین ہاٹن( Manhattan)کے مرکز میں گیارہ ستمبر کا یادگاری مقام ہے ۔ جواب درست تھا ، کیونکہ نیا میوزیم اور وہ یادگاری مقام جہاں کبھی جڑواں ٹاورز ( Twin Towers )موجود تھے ، اب ایک طرح کی زیارت گاہ بن چکے ہیں۔ لیکن امریکیوں کو ’’زیارت ‘‘ کی سمجھ کیا آئے گی، وہ اس سرگرمی کو ’’سیاحت ‘‘ خیال کرتے ہیں۔ میں وہاں نہیں گیا ، لیکن وہاں ایک زائر کی بجائے ایک سیاح کے طور پر جانا بہتر ہوگا۔ بلاشبہ نائن الیون کے واقعات اور حقائق ایک روحانی گھاؤ کی طرح آج بھی تازہ محسوس ہوتے ہیں۔ سولہ برس کا طویل عرصہ بیت چکا، ان برسوں کے دوران بہت سی جنگیں لڑی گئیں، لاکھوں جانیں ضائع ہوئیں اور دنیا کے جنوبی علاقوں کو اُس ستمبر کی پاداش میں ان گنت مظالم سہنے پڑے ۔ اپنی موجودہ تاریخ پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ گیارہ ستمبر نے بیسویں صدی کے آخری حصے میں امریکہ کی عالمی سیاست کوبیک وقت زک بھی پہنچائی اور تقویت بھی بخشی۔ جس دوران امریکیوں کو 2017 کے چیلنجز کا سامنا ہے، جیسا کہ غیر شناخت شدہ شہریوں پر بحث (DACA) سے لے کر یمن یا شام میں لڑی جانے والی جنگیں اور ماحولیاتی آلودگی، یہ بات تسلیم کرنا پڑے گی کہ گیارہ ستمبر نقشے پر ایک مقام، یا تاریخ کے ایک واقعے سے زیادہ ایک مخصوص احساس کانام ہے ۔ بعض اوقات یہ احساس صدمے کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہوتا ہے تو بعض اوقات یہ مزاحمت کی تحریک دیتا ہے ۔ لیکن اپنی دونوں جہتوں کے اعتبار سے یہ اتنا واضح نہیں کہ آنکھیں آرام سے اس کا مشاہدہ کرسکیں۔ ایسا کس طرح ہوسکتا ہے ؟ بطور ایک مورخ، میں اکثر صدمے کی مجموعی کیفیت کو سمجھنے سے قاصر رہتا ہوں۔ تقسیم ہند کے دوران ہونے والا عقربی تشدد ایک مجرد کیفیت کی عکاسی کرتا ہوگا لیکن میں ایسا نہیں سمجھتا۔ جب ہم تصور کرتے ایک ہمسایہ، ایک دوست یا ایک شناسااپنے ہمسائے، قصبے یا بازار میں تشدد کررہا ہے تو میں اسے مجموعی طور پر مجسم تشدد کیسے سمجھ سکتا ہوں؟کیا ہجوم یا یہ تشدد عوامی سوچ کا اظہار ہے ؟ جس نفرت اور تعصب نے گیارہ ستمبر کو طیارے اغوا کرنے والوں کو اس تخریبی کارروائی پر اکسایا، وہ آج بھی دنیا میں کئی گنا اضافے کے ساتھ لندن، میڈرڈ، استنبول، لاہور، اسلام آباد، پشاور، ممبئی ، بالی، بغداد ، موصل اور بہت سے دیگر مقامات کو اپنی گرفت میں لیے ہوئے ہے ۔ کہنے کا مطلب یہ نہیں کہ اس نفرت کی بنیاد گیارہ ستمبر سے پڑی، دنیا پہلے بھی نفرت اور تعصب کی تمازت سے دہک رہی تھی ۔ میں یہ کہنے کی کوشش کررہاہوں کہ گزرے ہوئے ان سولہ برسوں نے نیویارک کو نقشوں کا ایک شہربنا دیا ہے جس کے کاغذی پیراہن پر دنیا میں ہونے والا ہر دھماکہ، ہر کار بم ، ہر چاقو کا گھاؤ خون کی سرخی کو گہرا کرتا جاتا ہے ۔ فلسطینی شاعر محمود درویش کا کہنا ہے ...’’گلی میں چلتا ہواہر شخص خوفزدہ ، بہت خوفزدہ تھا۔‘‘ ان سولہ برسوں کے دوران پاکستان نے بھی اہم شہروں میں ہونے والی دھشت گردی کی کارروائیوں اور بلوچستان اور وزیرستان میں ہونے والے ڈرون حملوں کی صورت بے حد تشدد برداشت کیا ہے ، لیکن اس بات کی حقیقی تفہیم موجود نہیں کہ پاکستان کے دیہاتوں، قصبوں اور شہروں میں ہمسایوں کے درمیان تشدد کیوں پروان چڑھ رہا ہے ؟عقیدے، مذہب، استعمار مخالف یا محض قوم پرستی کے لبادے میں لپٹا ہوا دباؤ تنقیدی استفسار کی اجازت نہیں دیتا۔ میڈیا، دانشور طبقہ اور ریاست اس سے اغماض برتتے ہوئے ، یا خاموش تائید کے ساتھ اس صورتِ حال کے ذمہ دار ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ جو لب کشائی کی جسارت کرتے ہیں، یا کوئی سوال اٹھاتے ہیں، یا محض حیرانی کا اظہار ہی کرتے ہیں تو اُنہیں کسی مواخذے کے خوف کے بغیر خاموش کرا دیا جاتا ہے ۔ اس کی ایک سادہ سی مثال اخبارات ، خاص طور پر اردو پریس کے اکثر کالم نگار ہیں جو سازش کی تھیوریاں پھیلانے اور لبرل اور انسانی اقدار کی بات کرنے والوں کے خلاف عوامی جذبات بھڑکانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ ممکنہ حد تک تھوڑی سی مزاحمت کی رمق بھی کہیں دکھائی نہیں دیتی ۔ ایسا عوامی یا فکری حلقہ کہاں ہے جہاں ایسی بحث ہوسکے، یا مزاحمت کی بات کی جاسکے ، یا ان باتوں کا تصور ہی پیش کیا جاسکے ؟اس حوالے سے ، میرا مشاہدہ ہے کہ پاکستان کے تعلیمی شعبے میں مورخین اور انسان دوستی کا پرچار کرنے والے عنقا ہیں ۔ کبھی عمرانی علوم ، ادب اور تاریخ پشاور، لاہور، کراچی ، ڈھاکہ ، جامشورو کی یونیورسٹیوں میں پروان چڑھتے تھے ، لیکن ماضی کی فوجی آمریتوں اور سولین حکومتوں نے ان کا گلا گھونٹ دیا، یا سرکاری افسران کی بدعنوانی کے ہاتھوں اُن کا کام تمام ہوا ۔ آج جو بہت کم باقی بچے ہیں، ہزار وں گم شدہ یا بھولے بسرے ساتھیوں کو یاد کرتے ہیں۔ تنقیدی تاریخ کے علم یا انسانی عوامل کی تحقیق اور جستجو کے فقدان نے پاکستان کے فکری سوتوں کو خشک اور علمی تحریک کو مفلوج کردیا ہے ۔ ان کی غیر موجودگی میں جذباتی اٹھان کو تنقیدی فکر پر مسلط کرنے والے عوامی مقبولیت کی سند پا کر نام نہاد دانشور اور مفکر بنے بیٹھے ہیں۔ گیارہ ستمبر ایک عالمی واقعہ تھا ۔ 2001 ء سے پہلے امریکہ میں مقیم ایک پاکستانی ہونے کے ناتے میں نے اس صدمے کو امریکی، یورپی اور پاکستانی نقطۂ نظر سے دیکھا ہے ۔ ان کا ایک نتیجہ جنگیں اور اسلام فوبیا تھا جن کے خلاف میں نے جدوجہد کی ۔دوسری طرف میں نے ایک مختلف پاکستان کا تصور کرنے کی بھی کوشش کی۔ میں نے محسوس کیا ہے ہماری تاریخ اور ہماری شاعری ، دونوں ژولیدگی کا شکار ہیں۔ میں نے محسوس کیا ہے کہ ہماری سوچ اور ہماری زبان کڑے پہروں کے اندر بند، چنانچہ محدود، ہیں۔بطور ایک مورخ میں جانتا ہوں کہ یہ خاموشی ایک طویل تاریخ رکھتی ہے ۔ ستمبر کی ایک وراثت یہ خاموشی بھی ہے ۔ اس تاریخ کے باوجود ، مجھے کہنے کی اجازت دیجیے، ہمیں نئے مستقبل کے تصور کو زندہ رکھنا ہے ۔ بقول محمود درویش...’’اگر خوشی اچانک آپ کو دوبارہ مل جائے تو اس کی پہلی بے وفافی کا گلہ نہ کریں۔‘‘