بلوچستان: رواں ہفتے کا احوال (9 ستمبر تا 15 ستمبر)

بلوچستان: رواں ہفتے کا احوال (9 ستمبر تا 15 ستمبر)

گذشتہ ہفتے سے بلوچستان کی خبریں


بلوچستان بھر میں نئی بھرتیوں پر پابندی، 5 ہزار تعیناتیوں کی تحقیقات کیلئے کمیٹی قائم


کمیٹی نگران حکومت میں زراعت، بہبود آبادی و دیگر محکموں میں میرٹ کے خلاف بھرتیوں کی رپورٹ وزیراعلیٰ کو دیگی


بھرتیوں سے متعلق ٹیسٹ و انٹریوز منسوخ، اگلے احکامات تک بھرتیاں نہ کی جائیں، تمام محکموں کو مراسلہ


بلوچستان حکومت نے صوبے میں نئی بھرتیوں پر پابندی عائد کر دی جبکہ نگراں دور حکومت میں مختلف محکموں میں 5 ہزار سے زائد سرکاری بھرتیوں کی تحقیقات کیلئے 8 رکنی کمیٹی قائم کر دی جس میں 4 وزراء اور 4 بیوروکریٹس شامل ہوں گے جسکا نوٹیفکیشن جلد جاری کر دیا جائے گا جو نگراں دور میں ہونے والی بھرتیوں کے حوالے سے تحقیقات کر کے رپورٹ وزیر اعلیٰ کو پیش کرے گی جس کے بعد ان ملازمین کے مستقبل کا فیصلہ کیا جائے گا، تفصیلات کے مطابق صوبائی حکومت نے بلوچستان میں سرکاری بھرتیوں پر پابندی عائد کر دی ہے اور تمام محکموں کو ایک مراسلے کے ذریعے ہدایات جاری کی گئی ہیں کہ وہ بھرتیوں کے حوالے سے ہونے والے ٹیسٹ و انٹرویوز فوری طور پر منسوخ کر دیں اور اگلے احکامات تک سرکاری محکموں میں کسی قسم کی بھرتیاں نہ کی جائیں، دوسری طرف عوامی شکایات پر صوبائی کابینہ کے گذشتہ اجلاس میں فیصلہ کیا گیا ہے کہ نگراں دور حکومت میں مختلف محکموں میں ہونے والی بھرتیوں کی تحقیقات کی جائیں، جس کیلئے آٹھ رکنی کمیٹی تشکیل دے دی گئی ہے، جس میں چار وزراء اور چار بیوروکریٹس جو سیکرٹری کے لیول کے ہوں گے پر مشتمل ہوگی جس کا نوٹیفکیشن بھی جلد جاری کر دیا جائے گا، ان بھرتیوں میں ہونے والی بے قاعدگیوں کا جائزہ لے کر کمیٹی رپورٹ صوبائی کابینہ کے اجلاس میں پیش کرے گی جو ان ملازمین کے مستقل کے حوالے سے فیصلہ کرے گی، ذرائع کے مطابق وزیر اعلیٰ بلوچستان کو عوامی شکایات موصول ہوئیں کہ نگران دور حکومت میں زراعت، بہبود آبادی، لائیو سٹاک، ایس اینڈ جی اے ڈی، صحت، تعلیم، بی اینڈ آر سمیت دیگر محکموں میں 5 ہزار سے زائد ملازمین بھرتی کیے گئے جس میں میرٹ کو بری طرح پامال کرتے ہوئے غیر قانونی طور پر لوگوں کو تعینات کیا گیا ہے، ان ملازمین میں ایسے لوگ بھی شامل ہیں جنہوں نے ٹیسٹ دیا نہ انٹرویو لیکن کامیاب امیدواروں کی فہرست میں ان کا نام سب سے اوپر تھا۔






دل کا ہسپتال چھاؤنی منتقل کرنا عوام دشمنی ہے، پشتونخوامیپ


نام نہاد صوبائی حکومت کی کابینہ کی جانب سے انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی کو شہر سے باہر لے جانے کا فیصلہ توہین عدالت ہے


عوام کے خزانے کے اربوں روپے غیر متعلقہ ادارے کو دینے کا مقصد عوام کے خزانے پر ڈاکا ڈالنا ہے، فیصلہ فوری واپس لیا جائے، بیان


پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کی صوبائی پریس ریلیز میں صوبائی کابینہ کے گذشتہ روز کے فیصلے جس میں انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی کے ہسپتال کو کوئٹہ شہر سے باہر اور عوام کی پہنچ سے دور کینٹ میں بنانے کی تجویز تھی کی شدید مذمت کرتے ہوئے اسے معزز عدالت کے واضح فیصلے کی توہین قرار دیتے ہوئے کہا گیا کہ 2009 میں اس وقت کے پنجاب کے وزیر اعلیٰ شہباز شریف نے صوبہ پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی کی طرز پر کوئٹہ شہر میں بھی کارڈیالوجی انسٹی ٹیوٹ بنانے کا اعلان کیا اور اس سلسلے میں 2 ارب روپے کی خطیر رقم عطیہ کی، اور پھر یکم نومبر 2009 کو سپنی روڈ پر 22 ایکڑ وسیع اراضی پر انسٹیٹیوٹ کا باقاعدہ سنگ بنیاد رکھا گیا مگر افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے کہ اس دن سے انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی بنانے کی راہ میں رکاوٹیں ڈالنے کی کوششیں کی جارہی ہیں، سابقہ دور حکومت میں صوبے کی معزز عدالت عالیہ نے بلوچستان بار ایسوسیشن اور دیگر کی جانب سے پٹیشن پر واضح فیصلے میں صوبائی حکومت کو حکم دیا کہ انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی سپنی روڈ کی مختص جگہ پر تعمیراتی کام شروع کیا جائے، بیان میں کہا گیا ہے کہ 2018-19 کے سالانہ پی ایس ڈی پی میں صوبائی حکومت نے ڈھائی ارب روپے کی خطیر رقم مختص کی جو کہ پی ایس ڈی پی میں ریفلیکٹ بھی ہے مگر افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے کہ موجودہ صوبائی حکومت جو حقیقی طور پرعوام کی نمائندہ نہیں نے اپنے گذشتہ روز کے کابینہ کے اجلاس میں صوبے کے اہم اور عوامی ضرورت کے حامل انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی کو متعین کردہ جگہ پر بنانے کی بجائے کوئٹہ چھاؤنی میں بنانے کی منظوری دی، جس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے، دل کی بیماریوں کے حساس اور تمام ایمرجنسی مریضوں کیلئے کینٹ میں ہسپتال کے قیام کا فیصلہ کوئٹہ سمیت صوبے کے تمام غریب عوام کو کسی بھی صورت قابل قبول نہیں اور صوبے کے عوام کے خزانے کے اربوں روپے غیر متعلقہ ادارے کو دینے کا مقصد عوام ہی کے خزانے پر ڈاکا ڈالنے کے مترادف ہے۔






آواران میں آپریشن، 4 دہشتگردہلاک، سپاہی شہید ،جوان زخمی


سیکورٹی فورسز نے آواران کے قریب جھاؤ کے علاقے میں بی ایل ایف کے دہشتگردوں کے خلاف خفیہ معلومات کی بنیاد پر آپریشن کیا


کارروائی میں شہید سپاہی رمز علی کا تعلق صوبہ سندھ کے علاقے خیر پور میرس سے تھا، آپریشن میں نائیک یعقوب زخمی ہوا، آئی ایس پی آر


آپریشن ردالفساد کے تحت سیکورٹی فورسز نے بلوچستان کے ضلع آواران میں کارروائی کرتے ہوئے 4 دہشتگردوں کو ہلاک کر دیا، فائرنگ کے تبادلے میں ایک سپاہی رمز علی شہید ہو گیا، پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر کے مطابق سکیورٹی فورسز نے آواران کے قریب جھاؤ کے علاقے میں بی ایل ایف کے دہشگردوں کے خلاف خفیہ معلومات کی بنیاد پر آپریشن کیا، اس دوران فائرنگ کے تبادلے میں 4 دہشتگرد ہلاک ہوئے جبکہ ان کے قبضے سے اسلحہ اور گولہ بارود بھی برآمد کر لیا گیا، آئی ایس پی آر کے مطابق دہشتگرد رواں سال مشکے میں فوجی قافلے پر حملہ کرنے میں ملوث تھے، اس حملے میں پاک فوج کے 5 جوان شہید ہوئے تھے، آوران کے قریب کارروائی کے دوران فائرنگ کے تبادلے میں سپاہی رمزعلی نے جام شہادت نوش کیا جبکہ ایک اور جوان نائیک یعقوب زخمی ہوا، شعبہ تعلقات عامہ کے مطابق 24 سالہ رمز علی شہید کا تعلق صوبہ سندھ کے علاقے خیر پور میرس سے تھا۔






وزیراعلیٰ اور اپوزیشن وفد کی ملاقات، لیویز کی تنظیم نو اور کوئٹہ میں کینسر ہسپتال کے قیام کا جائزہ


اچھی طرز حکمرانی قائم کرتے ہوئے سب کو ساتھ لیکر چلیں گے، دیرینہ مسائل کے حل کیلئے اپوزیشن جماعتیں حکومت کی رہنمائی کریں، جام کمال


ثناء بلوچ، ملک سکندر، نصراللہ زیرے، صالح بھوتانی، اصغر اچکزئی و دیگر پر مشتمل وفد کی وزیراعلیٰ سے اہم امور پر تفصیلی گفتگو


وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان نے کہا ہے کہ تمام اہم صوبائی امور پر اپوزیشن کو بھی اعتماد میں لیا جائے گا اور انکی رائے اور مشوروں کو اہمیت دی جائے گی اگر حکومت صحیح معنوں میں کام کرنا چاہے تو اس میں اپوزیشن کا بھی اہم کردار ہے، ہم اچھی طرز حکمرانی قائم کر کے سب کو ساتھ لیکر چلیں گے، صوبے کے دیرینہ مسائل کے حل کیلئے اپوزیشن جماعتیں نہ صرف حکومت کی رہنمائی کریں بلکہ ان کے حل کیلئے اپنا مؤثر کردار بھی ادا کریں، ان خیالات کا اظہار انہوں نے متحدہ اپوزیشن کے وفد سے بات چیت کرتے ہوئے کیا، ملاقات میں اپوزیشن کی جانب سے سیندک اور پی پی ایل کے ساتھ گذشتہ دور حکومت میں کیے گئے معاہدوں اور رواں مالی سال کی پی ایس ڈی پی پر تحفظات کا اظہار اور ان معاہدوں اور پی ایس ڈی پی پر نظر ثانی کی ضرورت پر زور دیا گیا، ملاقات میں اس بات پر اتفاق کیا گیا کہ تاخیر کے شکار آٹھویں این ایف سی ایوارڈ کے اجرا کے ساتھ وفاق سے متعلق دیگر تصفیہ طلب امور پر متفقہ لائحہ عمل مرتب کیا جائے گا، ملاقات میں سی پیک منصوبے کو بلوچستان کی ترقی کیلئے اہم قراردیتے ہوئے اس امر پر تشویش کا اظہار کیا گیا کہ گذشتہ دور حکومت میں سی پی منصوبے میں مغربی روٹ، انڈسٹریل زونز کے قیام اور دیگر امور میں بلوچستان کے مفادات کا تحفظ نہیں کیا گیا اور طے پایا کہ سی پیک پر نظرثانی کے عمل میں بلوچستان کے مؤقف کو شامل کرنے کیلئے وفاقی حکومت سے بات کی جائے گی، ملاقات میں کوئٹہ کے مسائل بھی زیر غور آئے اور لیویز کی تنظیم نو اور کوئٹہ میں کینسر ہسپتال کے قیام کے امور کا جائزہ بھی لیا گیا، وزیراعلیٰ نے اپوزیشن کی جانب سے پیش کیے گئے مختلف نکات پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ یہ ہم سب کا صوبہ ہے اور اس کے مسائل کا حل ہماری مشترکہ ذمہ داری ہے، اپوزیشن صوبے اور عوام کی بہتری کیلئے اچھی اور قابل عمل تجاویز سامنے لائے جس کا حکومت خیر مقدم کرتی ہے، انہوں نے کہا کہ عرصہ دراز سے نظام میں پائی جانے والی خرابیوں کو دورکرنے میں کچھ وقت ضرور لگے گا، ہم نے بہتر ماحول میں اپوزیشن کے ساتھ ملکر کام کرنا ہے۔






گورنر ہاؤس بلوچستان کو میوزیم اور بلوچ تاریخ کیلئے مختص کیا جائے گا


گورنر ہاؤس کے وسیع سبزہ زار کو خواتین کیلئے پارک میں تبدیل کیا جائیگا، بلوچستان کا آئندہ گورنر، گورنر ہاؤس میں نہیں رہے گا


وفاقی حکومت نے گورنر بلوچستان ہاؤس کو میوزیم میں تبدیل کرنے کا فیصلہ کر لیا، وزیراعظم کی زیر صدارت اجلاس میں دیگر صوبوں کے گورنر ہاؤسز کی طرح بلوچستان کے گورنر ہاؤس کو بھی عوامی استعمال میں لانے کا فیصلہ کیا گیا ہے، بلوچستان کے آئندہ گورنر، گورنر ہاؤس میں رہائش پذیر نہیں ہوں گے، جبکہ گورنر ہاؤس کو میوزیم میں تبدیل کیا جائے گا، میوزیم کو صوبے کی تاریخ کیلئے مختص کر کے عوام کیلئے کھولا جائے گا، گورنر ہاؤس کے سبزہ زار کو خواتین کے پارک میں تبدیل کیا جائے گا، کوئٹہ کے ریڈ زون میں واقع گورنر ہاؤس وسیع رقبے پر پھیلا ہوا ہے، گورنر ہاؤس کو میوزیم میں تبدیل کرنے کے فیصلے کو عوامی سطح پر پذیرائی ملی ہے، عوامی حلقوں کا کہنا ہے کہ وفاق کی جانب سے اہم عمارات کو عوام کے استعمال میں لانے کا فیصلہ نہایت خوش آئند ہے۔