انتہا پسندی کو مرکزی دھارے میں لانے کی کوشش

انتہا پسندی کو مرکزی دھارے میں لانے کی کوشش
رابعہ محمود، وقار گیلانی


این اے 120 میں ہونے والے ضمنی انتخابات کے دوران دو انتہائی نظریات رکھنے والے اسلامی گروہوں ، تحریک لبیک پاکستان، اور ملی مسلم لیگ کے سیاسی اکھاڑے میں قدم رکھنے نے سیاسی مبصرین کو چونکا دیا ۔ ان گروہوں نے روایتی طور پر پاکستان مسلم لیگ (نواز) کا گڑھ سمجھے جانے والے اُس حلقے میں بالترتیت تیسری اور چوتھی پوزیشن حاصل کی ۔

انتہا پسند تنظیموں کی پشت پناہی رکھنے والی یہ دونوں نو زائیدہ سیاسی جماعتیں متضاد نظریات کی حامل ہیں۔ تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کا تعلق بریلوی مسلک سے ہے ، جبکہ ملی مسلم لیگ (ایم ایم ایل ) فکری اعتبار سے اہلِ حدیث مسلک کے قریب ہے ۔ جنوبی ایشیا میں پروان چڑھنے والے یہ مذہبی گروہ ایک دوسرے کے عقیدے کو غلط قرار دیتے ہیں۔ان دونوں گروہوں نے ڈالے گئے ووٹوں کا گیارہ فیصد حاصل کرلیا ۔ محترمہ کلثوم نواز، جو سابق وزیرِ اعظم نواز شریف کی زوجہ ہیں، اپنی حریف ، ڈاکٹر یاسمین راشد، جو پاکستان تحریکِ انصاف کی امیدوار تھیں، کو شکست دے کر قومی اسمبلی کی نشست حاصل کرنے میں کامیاب تو رہیں لیکن فتح کا مارجن کم ہوگیا ۔

ٹی ایل پی ممتاز قادری کی پھانسی کے بعد وجود میں آنے والی سنی بریلوی تحریک ، لبیک یارسول اﷲﷺ کا سیاسی چہرہ ہے ۔ پولیس کمانڈو، ممتاز قادری نے چار جنوری 2011 کو اُس وقت کے گورنر پنجاب، سلمان تاثیر کو فائرنگ کرکے ہلاک کردیا تھا کیونکہ گورنر تاثیر ایک مسیحی عورت کی حمایت کررہے تھے جو مبینہ توہین کے الزام میں گرفتار تھی ۔ ٹی ایل پی کی جڑیں ’غازی رہائی تحریک ‘‘ میں پیوست ہیں۔ ممتاز قادری کی پھانسی کے بعد یہ تحریک پی ایم ایل (ن) کے خلاف ہوگئی اور اسلامی انتہا پسندوں نے حکمران جماعت کو قادری کی موت کا ذمہ دار قرا ر دیا۔ ٹی ایل پی کی ویب سائٹ پر اس کی شناخت ’’اسلامی سیاسی جماعت‘‘ کے طور پر اجاگر کی گئی ہے ۔ اس کے امیدوار، شیخ اظہر حسین رضوی نے این اے 120 کے ضمنی الیکشن میں 7,130 ووٹ حاصل کیے ۔

لبیک تحریک کی قیادت بے لچک عقائد رکھنے والے بریلو ی مسلک کے عالمِ دین، خادم حسین رضوی کے ہاتھ میں ہے۔ اُن کی وجہ شہرت شعلہ بیانی اور سنی اسلام کے غلبے کے انتہائی نظریات ہیں۔ ٹی ایل پی کے امیدوار، چالیس سالہ شیخ اظہر رضوی لاہور کے قدیم حصے میں فرنیچر پالش کا چھوٹا سا کاروبار چلاتے ہیں۔ اُنھوں نے ’نیا دور ‘‘ سے بات کرتے ہوئے کہا ...’’ ہمیں میڈیا کوریج اور فنڈز کی کمی کی وجہ سے توقع سے کم ووٹ ملے ۔ ہم نے 2016 ء میں اگلے عام انتخابات میں حصہ لینے کا اعلان کردیا تھا۔ ‘‘ رضوی نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا...’’اب ہم الیکشن کمیشن آف پاکستان میں رجسٹرڈ ہیں۔ پی ایل پی کا نعرہ توہین کو چیلنج کرتا ہے ۔ ہم ملک میں رسول اﷲ ﷺ کا اسلامی نظام چاہتے ہیں، اور ہم مذہبی معاملات ، خاص طور پر توہین کے ایشو پر کسی قسم کا سمجھوتہ نہیں کریں گے۔ ‘‘

خادم حسین رضوی اور اُن کی جماعت کے ارکان نے احمدیوں کے خلاف بھی مہم چلارکھی ہے ۔وہ احمدیوں، جو اس ملک کی ایک مظلوم اقلیت ہیں ، کے خلاف تشدد کا پرچار کرتے ہیں اور اُن کامطالبہ ہے کہ اقلیتی برادری کے افراد کے خلاف توہین کے مقدمات قائم کیے جائیں۔ اُنھوں نے دسمبر 2016 ء میں چکوال میں احمدیوں کی ایک مسجد پر حملے سے پہلے اور بعد میں بھرپور مہم چلائی ۔ رضوی کو یقین ہے کہ سابق وزیرِ اعظم ، نواز شریف شرعی عدالت سے پھانسی ، یا کم از کم چالیس کوڑوں کی سزا کے مستحق ہیں کیونکہ اُنھوں نے احمدیوں کو دوست قرار دیا تھا ۔ رضوی کا کہنا تھا...’’شریف اور اس کی حکومت حضرت محمدﷺ کی ختم نبوت کے عقیدے کو تبدیل کرانے کے عالمی اور مغربی ایجنڈے کی پیروی کررہی ہے ۔‘‘ انھوں نے اپنی بات میں اضافہ کرتے ہوئے کہا...’’ہم دیکھ رہے ہیں کہ دنیا مسیحی عورت، آسیہ بی بی کے لیے عالمی ایوارڈز کا اعلان کرتے ہوئے کس طرح اس کی حمایت کررہی ہے ۔ آسیہ بی بی کو توہین کا ارتکاب کرنے پر پاکستان میں سزائے موت سنائی گئی ۔ ہم ایک پرامن اسلامی پاکستان چاہتے ہیں جس میں اسلامی قوانین نافذ ہوں۔ ‘‘رضوی کا کہنا ہے کہ اُن کے دیگر سیاسی مقاصد میں پاکستان کو بدعنوانی سے پاک کرنا اور سیاسی دانوں کو عوام اور عدالتوں کے سامنے احتساب کے کٹہرے میں کھڑا کرنا ہے ۔

ملی مسلم لیگ متنازع جماعت الدعوۃ کا سیاسی چہرہ ہے ۔جماعت الدعوۃ کی قیادت حافظ سعید کے پاس ہے جو وزارتِ داخلہ کی واچ لسٹ میں شامل ہیں۔ ایم ایم ایل کے حمایت یافتہ ایک ’’آزاد ‘‘ امیدوار نے بھی این اے 120 کے ضمنی انتخابات سے حصہ لیا اورکم از کم چھے ہزار ووٹ حاصل کیے ۔ جماعت الدعوۃ بھارت کے زیرِ انتظام، جموں اور کشمیر میں جہاد کی کھل کر حمایت کرتی ہے ۔ بھارت الزام لگاتاہے کہ یہ تحریک سرحد پار جہادی سرگرمیوں میں ملوث ہے ۔ اس کی سیاسی جماعت ، ایم ایم ایل اگست میں وجود میں آئی اور الیکشن کمیشن آف پاکستان نے اسے رجسٹرڈ کرنے سے انکار کردیا ۔

الیکشن کمیشن آف پاکستان کا کہنا تھا کہ یہ پہلے وزارتِ داخلہ سے کلیرنس حاصل کرے ۔ اس سے پہلے وزارتِ داخلہ نے الیکشن کمیشن کو ایم ایم ایل پر پابندی لگانے کا کہا تھا ۔ جماعت الدعوۃ ’’فلاحِ انسانیت فاؤنڈیشن ‘‘(ایف آئی ایف) کے پلیٹ فارم سے فلاحی سرگرمیوں کی بھی شہرت رکھتی ہے ،اور یہ تنظیم بھی وزارتِ داخلہ کی واچ لسٹ پر ہے ۔

پارٹی کی ویب سائٹ کے مطابق اس کی مرکزی ٹیم سات ممبران پر مشتمل ہے ۔ ایم ایم ایل کے امیدوار ، شیخ یعقوب نے ’نیا دور ‘ سے بات کرتے ہوئے کہا ...’’ہمیں عوام کے ردِ عمل سے بہت حوصلہ افزائی ملی ہے ، اور ہم اگلے عام انتخابات میں نمایاں کارکردگی دکھائیں گے ۔ ہم یقین رکھتے ہیں کہ پاکستان کا بچاؤ نظریہ پاکستان کے ساتھ وابستہ رہنے میں ہے ۔ نظریہ پاکستان ملک کو اسلامی فلاحی ریاست بنانے اور اس میں اسلامی شریعت کے نفاذ کی ہدایت کرتا ہے ۔ ہماری اہم ترین ترجیح اس کے غریب عوام کے مسائل حل کرنا ہے ۔ ‘‘شیخ یعقوب کا کہنا تھا کہ اُنھوں نے الیکشن میں آزاد امیدوار کے طور پر حصہ لیاجبکہ اُنہیں ایم ایم ایل کی بھرپور حمایت حاصل تھی ۔ شیخ یعقوب، جو ایک مقامی بزنس مین

ہیں،جماعت الدعوۃ اور حافظ سعید، جنہیں وہ اپنا لیڈر قرار دیتے ہیں، کے ساتھ دیرینہ وابستگی رکھتے ہیں۔ چھبیس اکتوبر کو این اے 4 (پشاور) میں ہونے والے ضمنی انتخابات میں بھی ملی مسلم لیگ کے ایک اور امیدوار، لیاقت علی خان نے حصہ ليا۔

فرقہ وارانہ بنیادیں رکھنے والی مزید پاٹیوں کاسیاسی منظر نامے پر ابھرنا بے حد تشویش ناک ہے ۔ اگر یہ گروہ سیاسی لبادے پہن کر سامنے آتے رہے یہاں تک کہ وہ دائیں بازو کے ووٹ بنک کی حمایت حاصل کرلیں تو وہ قومی سیاست میں فیصلہ کن کردار ادا کرنے کی پوزیشن میں آجائیں گے ۔ مرکزی سیاسی جماعتوں کے امیدواروں کی جیت کا مارجن پہلے ہی کم ہونے کا رجحان نمایاں ہے ۔ پاکستان کے مرکزی سیاسی دھارے میں ایک اور انتہائی نظریات رکھنے والا اسلامی گروہ سپاہِ صحابہ پاکستان ہے ۔

بنیادی طور پر شیعہ مخالف یہ سیاسی جماعت اہل سنت والجماعت کہلاتی ہے ۔ اگرچہ حکومت نے اس پر پابندی لگارکھی ہے ، لیکن یہ کئی سالوں سے دیگر جماعتوں کی صفوں سے الیکشن لڑنے والے امیدواروں پر اثر انداز ہوتی رہی ہے تا کہ وہ اہل سنت والجماعت کی حمایت حاصل کرتے ہوئے اسمبلیوں میں جانے کے لیے اپنے سیاسی ایجنڈے پر سمجھوتہ کر لیں۔سپاہِ صحابہ پاکستان یا اہل سنت والجماعت کے امیدواروں نے کئی مرتبہ خود بھی انتخابات میں حصہ لیا ہے ۔ ٹی ایل پی کا منصوبہ ہے کہ وہ اگلے عام انتخابات میں ملک بھر سے امیدوار کھڑے کرے گی۔ دوسری طرف ایم ایم ایل کا فوکس مخصوص حلقوں پر ہے ۔

تجزیہ کاروں کے نزدیک ملٹری اسٹبلشمنٹ ان مذہبی جماعتوں کو مرکزی سیاسی دھارے میں شامل کرنے کی ذمہ دار ہے ۔ یہ بات قابلِ غور ہے کہ جماعت الدعوۃ فوج کے ساتھ مبینہ طور پر مضبوط روابط رکھتی ہے ۔ دوسری طرف خادم حسین رضوی اور اُن کے پیروکاروں سے بظاہر مذکورہ اسٹبلشمنٹ کے کوئی مفادات نہیں ہیں۔ تاہم گزشتہ اٹھارہ ماہ کے دوران محض ممتاز قادری کے حامی ہونے کا لیبل رکھنے والی لبیک یا رسول اﷲ ﷺ اُس وقت بہت مفید ثابت ہوئی جب جنوری 2017 ء میں چار بلاگرز ’’غائب ‘‘ ہوگئے ۔ اُس وقت غائب ہونے والے( یا جبری طور پر غائب کیے جانے والے) بلاگرز کے خلاف آن لائن پراپیگنڈا کرنے میں رضوی کے حامی پیش پیش تھے ۔ فیس بک، ٹوئیٹر اور یوٹیوب پر غائب ہونے والے بلاگرز کے خلاف مہم میں فوج کے حامی بھی سرگرم دکھائی دیے ۔ ڈیجیٹل محاذ پرجماعت الدعوۃ کی ’’سائبر فورس‘‘بھی منظم ہورہی ہے ۔ اس نے پنجاب سے تعلق رکھنے والے سوشل میڈیا صارفین کو کشمیر پر بھارتی بیانیے کا مقابلہ کرنے کی تربیت دی ہے ۔ دونوں جماعتوں کی ویب سائٹس فہرست کشمیر کو اُن کے انتخابی منشور میں مرکزی حیثیت دیتی ہے ۔ ایم ایم ایل کے مرکزی ایجنڈے سے ظاہر ہے کہ اُس کے بیانیے کا فوکس بھارت سے ٹکراؤ ہوگا۔

انتہا پسندوں کو مرکزی سیاسی دھارے میں شامل کرنے کی پالیسی پاکستانی ریاست کے لیے کوئی نئی پیش رفت نہیں ہے ۔ زیادہ عرصہ نہیں گزراجب شیعہ مخالف انتہا پسند گروہ، لشکرِ جھنگوی کے شریک بانی اورسپاہِ صحابہ کے سرگرم کارکن، ملک اسحاق کو چودہ سال بعد جیل سے رہا کردیا گیا، حالانکہ اُس پر اہل تشیع کو ہلاک کرنے کے کئی الزامات تھے ۔ جب ملک اسحاق کو 2011 ء میں رہا کیا گیا تو اُسے اہل سنت والجماعت اور پاکستان دفاع کونسل کے پلیٹ فارم سے اجتماعات کو خطاب کرنے کی اجازت دے دی گئی ۔ ان اجتماعات میں وہ جذباتی انداز میں شیعوں کے خلاف نفرت انگیز اور تشدد کی تحریک دینے والے خطابات کرتا رہا۔ اُسے ’’مرکزی دھارے میں لانے کی کوشش‘‘ نہ صرف رائیگاں گئی ، بلکہ بہت مہلک بھی ثابت ہوئی۔ آخر کار وہ قریبی ساتھیوں اور بیٹے سمیت پولیس مقابلے میں ہلاک ہوگیا ۔

شدت پسندتنظیموں کی سیاسی عمل میں شمولیت پر ترقی پسند حلقوں کا ردِ عمل مبالغہ آمیز نہیں۔ درحقیقت اس رجحان کی مزاحمت کرنی چاہیے ۔ اس عمل کا راستہ روکنے کی ضرورت ہے ۔فرقہ وارانہ اور گروہی تشدد میں ملوث انتہا پسند تنظیموں، جو اقلیتوں پر تشدد کرنے ، توہین کے ایشو پر فساد پھیلانے اوربھارت کے خلاف دشمنی کے جذبات بھڑکانے کی شہرت رکھتے ہیں ، کو جس طرح قانونی چھتری فراہم کی جارہی ہے، اگر یہ عمل پاکستان کے مستقبل کے لیے خطرناک نہ ہوتا تو اسے مزاحیہ ڈرامہ قرار دیا جاسکتا تھا ۔

متعدل مزاج اور اجتماعیت کی طرف مائل معاشرے کے قیام کی جدوجہد کرنے والے سول سوسائٹی کے تمام عناصر کے لیے یہ ایک تشویش ناک پیغام ہے ۔ گزشتہ ایک عشرے سے سول سوسائٹی کی موثر حمایت اور مثبت دباؤ کے نتیجے میں پاکستان کی سیاسی جماعتوں نے آئینی اور قانونی میدان میں پیش رفت کی ہے ، لیکن ایسے شدت پسندوں کوقانونی جواز فراہم کرنا سیاسی دھارے کو مکدر کرنے اور اس ہونے والی سیاسی پیش رفت کا گلا گھونٹنے کے مترادف ہوگا۔ ہوسکتا ہے کہ پاکستانی حکام بھی آر ایس ایس اور شیو سہنا کے مقامی ماڈل تیار کرنا چاہتے ہوں۔ اور ستم ظریفی یہ ہے کہ ہم بھارت میں مذہبی انتہا پسندی کی مثال دیتے ہوئے ان شدت پسند تنظیموں کی طرف انگشت نمائی کیا کرتے تھے-

Photo source: AFP, Dawn