پاکستان اور ہندوستان کی حکمران اشرافیہ کا وطیرہ رہا ہے کہ مخصوص قومی دنوں کی مناسبت سے ریاستی ادارے ملکی سالمیت و استحکام کا ڈھونگ رچانے کے لیے پرانتشار علاقوں میں سرکاری ملی پروگرامات کرواتے ہیں اور نوجوانوں کو ورغلا یا دھمکا کر یہ پیغام لیے جاتے ہیں کہ اب وہ اپنے ”غلط“ راستوں کو چھوڑ کر قومی دھارے میں شامل ہو رہے ہیں۔
کبھی چھنبل وادی کے ڈکیتوں کے اجتماعی سرنڈر کسی سیاسی شخصیت کی موجودگی میں ہوتے تھے تو کبھی جنوبی پنجاب کے ڈکیتوں کے حوالے سے یہی ڈارمے رچائے جاتے ہیں۔ لیکن جوں جوں ریاست کا داخلی انتشار بڑھتا گیا ہے طبقاتی و قومی حقوق کی جدوجہد کرنے والوں کو بھی بزورِ طاقت ”قومی دھاروں میں شامل“ کرنے کی واردات بڑھتی چلی گئی ہے۔ بلوچستان کے دوردراز اور پشتون بیلٹ کے قبائلی علاقوں میں سرکاری پروگرامات کرائے جاتے ہیں اور ناکوں پر ہر موٹر سائیکل اور کار پر پرچم کے سٹیکر لگا کر تشہیر کی جاتی ہے۔ کشمیر میں بھی اسی قسم کے اقدامات ہوتے رہتے ہیں۔
اس ریاستی واردات کے کئی پہلو ہیں۔ جہاں ایک طرف ریاست کی مضبوط رِٹ کا تاثر دیا جاتا ہے وہیں طبقاتی و قومی جبر کے خلاف لڑائی کو غلط اور گمراہ کن دکھایا جاتا ہے۔ ڈکیتوں، سرمچاروں اور بنیادی معاشی و سیاسی حقوق کی پرامن جدوجہد کرنے والوں کے مابین فرق کو مٹا کر انہیں ایک ہی صف میں کھڑا کر دیا جاتا ہے۔ لیکن اس سب میں ایک قدر مشترک رہتی ہے کہ قومی اور لسانی اعتبار سے محروم علاقوں سے ہی ”قومی دھارے میں شمولیت“ کی ایسی خبریں موصول ہوتی ہیں۔ خواہ پھر وہ تلنگانہ، چھتیس گڑھ، اوڈیسہ و جھارکنڈ کے ہندوستانی علاقے ہوں یا پھر بلوچستان و قبائلی علاقہ جات جیسے پاکستان کے زیر انتظام علاقے۔ لیکن اب یہ واردات سندھ کے ضلع دادو تک آن پہنچی ہے۔
کچھ دن قبل جوہی سے تعلق رکھنے والے انقلابی نظریات کے حامل ایک نوجوان سیاسی کارکن سے سرکاری تحویل میں اسلحہ بردار اہلکاروں کی نگرانی میں دادو پریس کلب میں جبری پریس کانفرنس کروائی گئی جس میں اس کے ہاتھ میں ایک پرچی تھما دی گئی جو اسے پڑھنے پر اسے مجبور کیا گیا۔ اگر نہ پڑھتا یا انکار کرتا تو سنگین نتائج کا سامنا کرنا پڑتا‘ جیسا کہ اسے کہا بھی گیا۔ جوہی کے اس نوجوان کا قصور صرف یہ تھا کہ اس نے وسط مارچ کو اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹ سے برصغیر کے عظیم انقلابی بھگت سنگھ کی تصویر لگائی کیونکہ 23 مارچ کو بھگت سنگھ کا 90 واں یوم شہادت تھا۔ 19 مارچ کی شام جب یہ نوجوان اپنے چھوٹے سے گھر کے ایک کمرے میں بچوں کو ٹیوشن پڑھا رہا تھا (علاقے کے سکولوں کی خستہ حال کیفیت کے پیش نظر نئی نسل میں تعلیم کے فروغ کے لیے اس نوجوان نے اپنے گھر میں ہی ٹیوشن سینٹر بنا رکھا ہے) تو ایک پولیس موبائل کے ہمراہ کچھ باوردی اور کچھ بغیر وردی کے نقاب پوشوں نے گھر پر دھاوا بول دیا۔ ہنگامے کے پیش نظر یہ ریاستی اہلکار اپنے مذموم مقاصد میں ناکام ہو گئے لیکن جانے سے قبل اس نوجوان کے موبائل سے بھگت سنگھ کی پوسٹ کو ختم کر دیا گیا۔ یہ اہلکار اپنے طور پر وارننگ دے کر چلتے بنے۔
دو روز بعد اس نوجوان کو رات گئے فون کر کے ضلع دادو میں موجود ایک ریاستی دفتر میں وضاحت کے لیے طلب کیا گیا۔ 23 مارچ کی صبح اس دفترمیں اس نوجوان کو زد و کوب کیا گیا اور شدید ڈرایا اور دھمکایا گیا۔ اس کے بیوی اور بچوں کے خلاف سنگین کاروائی تک کی دھمکیاں دی گئیں اور کہا گیا کہ بچنے کا ایک ہی راستہ پریس کانفرنس ہے جس کے لیے اس کو ایک صفحہ پر لکھی تحریر پڑھنا ہو گی۔ ہیجان و بے یقینی کی کیفیت میں نفسیاتی اعتبار سے شل اس نوجوان کو چھ اسلحہ برداروں کے سامنے پریس کانفرنس کروائی گئی کہ وہ ماضی میں ایک قوم پرست تنظیم، جس پر اب ریاستی طور پر پابندی عائد ہے، کا کارکن رہا ہے اور آج اس پہ نادم ہو کر راہ راست پر آ رہا ہے۔ حالانکہ اس کا کسی قوم پرست تنظیم سے کبھی کوئی تعلق نہیں رہا۔ اس کاروائی کے بعد بھی اس نوجوان پر مسلسل کڑی نگرانی ہے اور گاہے بگاہے ہراساں کیا جا رہا ہے۔
اہم پہلو یہ بھی ہے کہ یہ نوجوان کئی سالوں سے اس علاقہ میں طلبہ، محنت کشوں اور ہاریوں کی جدوجہد کا حصہ رہا ہے۔ نہ تو اس کا کسی قوم پرست تنظیم سے کبھی کوئی تعلق رہا ہے اور نہ ہی وہ کسی غیر قانونی سرگرمی کا حصہ بنا ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے پیپلز لیبر بیورو کا تحصیل جوہی کا ایک طویل عرصے تک صدر رہا ہے۔ روزگار، تعلیم اور علاج کی سہولیات کے حصول کے لیے مسلسل آواز بلند کرتے اس نوجوان کو زبر دستی ایک ایسی تنظیم کے ساتھ نتھی کر دیا گیا جس سے اس کی وابستگی تھی ہی نہیں اور جھوٹ کے اس پلندے کو سنگینوں کے سائے میں اسی کی زبانی پریس کانفرنس میں نشر کروایا گیا۔ ایسی کٹھن کیفیت اور بے بسی کے عالم کا ہم صرف تصور ہی کر سکتے ہیں۔ لیکن جس پر بیتی ہے اس کے شعور پر یہ آسیب کی طرح کے نقوش شاید ہی مٹ پائیں۔ یہ تو اس نوجوان کی خوش قسمتی ہے کہ وہ آج اپنے پیاروں کے ساتھ گھر پر ہے۔ ورنہ کئی ماؤں کے لخت جگر نہ جانے کن زندانوں میں آج بھی روز مرنے کی دعا کرتے ہوں گے اور انہی گمشدگیوں کو پھر عوام میں خوف و ہراس پھیلانے کے لیے مسلسل استعمال کیا جاتا ہے۔ لبرل دانشوروں کے لیے ماں کا درجہ رکھنے والی یہ ریاست ان گنت ترقی پسند نوجوانوں کے لیے ایک ڈائن بن چکی ہے اوران کے کلیجے چبا رہی ہے۔
لیکن سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ اس سب کا مقصد کیا ہے؟ کیا سندھ میں بھی وہی فارمولا استعمال کرنا مقصود ہے جو بھارتی ریاست نکسل وادیوں کے علاقوں میں کرتی آئی ہے اورجو اس طرف بھی دیکھا جاتا رہا ہے۔ کیا اس جعلی ڈھونگ سے ملکی دھارا تشکیل پا جائے گا یا مزید منافرتیں اور بغاوتیں بھڑکیں گی؟ محرومی کے زخموں کو کرید کر قومی سالمیت کا حصول ممکن نہیں ہے۔ یہ زخم کہیں زیادہ تکلیف کا باعث بنیں گے۔ ایسے میں جہاں ریاست کا یہ گھناؤنا کردار ہے وہیں ترقی پسندی کے لبادے میں چھپے بعض علاقائی شعبدہ بازوں نے بھگت سنگھ کو سکھ اور پنجابی دکھا کر منافقانہ روش اپنائی ہوئی ہے۔ وہ یکجہتی کی بجائے تضحیک اور تمسخر کے ذریعے اس نوجوان اور اس جیسے کئی دوسرے نوجوانوں کی ہمت و حوصلوں کو پست کر رہے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں ان کا کردار بھی ریاست سے مختلف نہیں۔ آخری تجزیے میں یہ دونوں رحجانات محنت کشوں کی جڑت کو توڑنے اور سرمائے کے جبر کے خلاف لڑائی کو پست کرنے کی ہی کوشش کرتے ہیں۔ یہ صورتحال اس ملک کے ہر انقلابی اور ترقی پسند انسان کے لیے لمحہ فکریہ ہے جس کے خلاف مشترکہ جدوجہد کرنے کی ضرورت ہے۔ بھگت سنگھ کے نظریات آج بھی اس خطے کی ہر قوم کے محنت کشوں کی نجات کا واحد ذریعہ ہیں۔ ان انقلابی افکار، طبقاتی جڑت اور جرأت سے ہی ایسے فسطائی رحجانات کا مقابلہ ممکن ہے