پاکستان میں ہر سال کم سے کم 1000 غیر مسلم لڑکیوں کو زبردستی اسلام قبول کروا کے مسلمان لڑکوں سے شادی کروا دی جاتی ہے۔ سندھ میں اس کا شکار سب سے زیادہ ہندو لڑکیاں ہوتی ہیں جبکہ پنجاب اور ملک کے دیگر حصوں میں مسیحی خواتین کے زبردستی اسلام قبول کروائے جانے کی تعداد زیادہ ہے۔
اسی ماہ گھوٹکی کی رہائشی دو ہندو لڑکیوں کو مبینہ طور پر زبردستی اسلام قبول کروا کے ان کی شادی دو مسلمان لڑکوں سے کروانے کے بعد انہیں ہنجاب میں رحیم یار خان منتقل کر دیا گیا۔ لڑکیوں کے والد کا کہنا تھا کہ اس کی بیٹیوں کو زبردستی اغوا کر کے نکاح کروایا گیا ہے جبکہ ان کی عمر 18 برس سے کم تھی اور وہ قانونی طور پر شادی کرنے کی مجاز نہیں تھیں۔
دوسری جانب لڑکیوں کا ہنا ہے کہ ان کی عمر 18 برس سے زیادہ ہے اور وہ اپنی پسند سے شادی کر کے مشرف بہ اسلام ہوئی ہیں۔ لیکن ایسا پہلی بار نہیں ہے۔ اس سے پہلے بھی لڑکیوں کو اغوا کے بعد زبردستی اسلام قبول کروا کے شادی کی جاتی ہے تو ان سے ایسے پیغامات کی ویڈیوز بنوائی جاتی ہیں اور اس کے لئے انہیں دھمکیاں دی جاتی ہیں کہ اگر ایسا نہ کیا تو ان کے گھر والوں کو نقصان پہنچایا جا سکتا ہے۔
بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج نے بھی اس واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے پاکستان میں تعینات بھارتی ہائی کمشنر سے رپورٹ طلب کی تو پاکستان کے وزیر اطلاعات و نشریات فواد چودھری نے انہیں یاد دلایا کہ یہ پاکستان کا اندرونی معاملہ ہے اور انہیں اتنی ہوشیاری اس وقت دکھانی چاہیے جب بھارت میں اقلیتوں پر تشدد کے واقعات پیش آتے ہیں۔
حقیقت بھی یہی ہے کہ جس روز یہ واقعہ پیش آیا، اس کے چند ہی دن بعد بھارت کے شہر گڑگاؤں میں ہولی کے دن چند ہندو غنڈوں نے ایک مسلمان خاندان کے گھر پر حملہ کر کے گھر کے مردوں کو بری طرح سے ڈنڈوں سے پیٹا اور ان کو ’پاکستان جاؤ‘ کہتے رہے۔
یہ دونوں ممالک ایک دوسرے پر جن برائیوں کے الزامات لگاتے ہیں، وہ خود ان میں بھی بدرجہ اتم موجود ہیں لہٰذا بہتر یہی ہے کہ ایک دوسرے کو طعنے دینے کی بجائے اپنے اپنے ملک میں معاملات ٹھیک کیے جائیں۔