امریکی محکمہ خارجہ کی انسانی حقوق سے متعلق سالانہ رپورٹ میں غیر قانونی، اور ماورائے عدالت قتل اور گمشدگیوں کی نشاندہی کی گئی ہے جس کو بھارت اور پاکستان دونوں نے ہی ایک اہم مسئلہ قرار دیا ہے۔
2020 میں پیش آنے والے واقعات کا احاطہ کی کرنے والی رپورٹ میں 2020 کے پہلے نصف میں بھارت کے مقبوضہ جموں و کشمیر میں 32 ماورائے عدالت قتل کے واقعات پر روشنی ڈالی گئی۔
اعدادوشمار میں باغیوں کے حملوں کے نتیجے میں پورے بھارت میں 63 شہریوں، 89 سکیورٹی فورسز کے اہلکاروں اور 284 باغیوں کی ہلاکتوں کا ذکر کیا گیا۔
امریکی سرکاری رپورٹ میں جموں و کشمیر کولیشن آف سول سوسائٹی (جے کے سی سی ایس) کی ایک رپورٹ کا بھی حوالہ دیا گیا جس میں بتایا گیا کہ سال کے پہلے 6 ماہ میں 107 کیسز میں 229 ہلاکتیں ہوئی ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ 'جے کے سی سی ایس نے جموں و کشمیر میں سال کے پہلے نصف حصے میں 32 ماورائے عدالت قتل کی بھی اطلاع دی ہے'۔
امریکی رپورٹ میں بتایا گیا کہ بھارتی حکام نے قیدیوں کو محدود رسائی کی اجازت دی ہے جبکہ چند کے اہلخانہ نے دعوٰی کیا ہے کہ حکام نے رشتہ داروں تک رسائی سے انکار کیا، خاص طور پر مقبوضہ جموں و کشمیر سمیت مزاحمتی علاقوں میں۔
اس رپورٹ میں نشاندہی کی گئی کہ بھارت کے قومی انسانی حقوق کمیشن (این ایچ آر سی) کو سال بھر انسانی حقوق کی پامالیوں کے حوالے سے قیدیوں کی شکایات موصول ہوئی ہیں اور انہوں نے اس کی تحقیقات بھی کی ہیں، 'تاہم سول سوسائٹی کے نمائندوں کا خیال ہے کہ جیل کے محافظوں یا عہدیداروں کی جانب سے بدلہ لیے جانے کے خوف سے بہت کم قیدیوں نے شکایات درج کرائیں'۔
اس رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ نئی دہلی کی جانب سے اگست 2019 میں جموں و کشمیر کو خود مختار حیثیت فراہم کرنے والی ایک خصوصی آئینی حیثیت کو منسوخ کرنے کے بعد بھارتی حکام نے بغیر کسی مقدمے کے مقامی سیاستدانوں کو نظربند رکھنے کے لیے عوامی تحفظ کے قانون کا استعمال کیا جبکہ رہائی پانے والے افراد کو سیاسی سرگرمیوں میں ملوث نہ ہونے کے معاہدے پر دستخط کرنے کا پابند کیا گیا۔
امریکی رپورٹ میں کہا گیا کہ پبلک سیفٹی ایکٹ (پی ایس اے) جو صرف مقبوضہ جموں و کشمیر میں لاگو ہوتا ہے، 'حکام کو بغیر کسی الزام کے عدالت میں زیر جائزہ افراد کو اہلخانہ سے ملاقات کے بغیر دو سال تک نظربند کرنے کی اجازت دیتا ہے'۔
اس رپورٹ کے مطابق بھارت اور پاکستان دونوں میں تشدد اور ظلم، غیر انسانی یا تذلیل کرنے والے سلوک یا سزا کے کیسز عام ہیں۔
پاکستان کے چیپٹر میں 'تشدد کی دھمکیوں، بلاجواز گرفتاریوں یا صحافیوں کے خلاف قانونی چارہ جوئی، سوشل میڈیا تقریر اور سنسرشپ کے مقدمے چلانے کے لیے بے بنیاد قوانین کے استعمال اور ویب سائٹ بلاک کرنے کا ذکر کیا گیا ہے'۔
پاکستان میں 'انفرادی کیسز کی تحقیقات اور ان کے خلاف قانونی چارہ جوئی کی گئی تاہم ان پر عمل درآمد، تربیت یافتہ پولیس افسران کی کمی اور عدالتی نظام پر دباؤ کی وجہ سے کم کیسز میں سزا ہوسکی ہے'۔