پی ڈی ایم اور اسمبلیوں سے استعفوں کا معاملہ: 'زرداری غلط نہیں کہہ رہے'

پی ڈی ایم اور اسمبلیوں سے استعفوں کا معاملہ: 'زرداری غلط نہیں کہہ رہے'
ایک عجیب تماشا سا لگا ہے۔  یوں لگتا ہے کہ اب سے کچھ عرصہ بعد ہم ٹی وی بھی ڈرامے ختم کر کے سیاسی ٹاک شوز شروع کر دیں گا کیونکہ ڈرامے تو اس معاشرے میں بنائے جاتے ہیں جہاں کم از کم ایک خاص حد تک سنجیدگی پائی جائے۔  مگر یہ ہم ہیں، اور یہ ہمارے لوگ ہیں اور ہم ڈرامے بازی کیے جا رہےہیں۔

  بوٹ،  ایک زرداری سب پہ بھاری، پٹواری، یوتھیا، مولانا، گویا مختلف اقساط اور اقسام میں آپ کو یہ ڈرامہ قریباً روزانہ دیکھنے کو ملتا ہے۔
اب سینٹ الیکشن کو ہی دیکھ لیجیئے۔ اب سے دو سال قبل جب مسلم لیگ ن کی حکومت کو کمزور کرنا مقصد تھا تو ساری پارٹیوں نے مل کر صادق سنجرانی صاحب کو سینٹ کا چیئرمین بنا دیا۔ اس کارنامے کے بدلے میں آصف علی زرداری اور خان صاحب دونوں کو معمول کے مطابق رعایات دی گئیں جو کہ جیل سے خلاصی کی صورت میں زرداری کو اور حکومت میں تو خان صاحب آنے ہی والے تھے۔

پھر پی ڈی ایم بنی،  اب پتے کھل چکے تھے تو باری تو کرنی تھی چاہے جس کے پاس جو پتے تھے۔ اچانک سے مارکیٹ میں کسی نے شوشہ چھوڑا کہ اب اسٹیبلشمنٹ نیوٹرل ہو چکی ہے۔ اور یہ بات باور کرانے کے کیے طرح طرح کے دلائل اور حوالے دیئے گیے۔ لیکن جب میں نے یہ بات سنی تو خیال آیا کہ نیوٹرل بھی ہو تو کیا انجن تو سٹارٹ ہے اور کسی بھی وقت گیئر لگ سکتا ہے۔  وہی ہوا اور اب گاڑی دوبارہ سے پانچویں گیئر میں ہے۔

اگر غیر جانبداری سے دیکھا جائے تو مولانا فضل الرحمان اور نواز شریف کا آصف علی زرداری سے یہ گلہ کہ وہ استعفے دینے سے گریزاں ہیں انتہائی نامناسب ہے۔ نواز شریف اور مولانا کے لیے فی الحال کھونے کو کچھ نہیں ہے کیونکہ ان کی کہیں بھی حکومت نہیں ہےاور خاص طور پہ نواز شریف کو پہلے سے ہی سیاسی طور پہ خوب مار پڑ چکی ہے اسٹبلشمنٹ سے لڑائی کے نتیجے میں۔ اس لیے ان کے لیے استعفوں کا معاملہ انتہائی آسان ہے۔ جبکہ پیپلز پارٹی کی سندھ میں حکومت ہے اور اتنے زیادہ عرصہ سے ہے کہ اب اگر پیپلز پارٹی استعفیٰ دے گی تو اس کے لیے اپنے آپ کو بچانے کے لیے کچھ نہیں رہ جائے گا۔ اس ضمن میں ایک چھوٹی سی مثال پیش خدمت ہے۔ آپ کو یاد ہو گا کہ جب ریاست نے اپنا پورا زور اس بات پہ لگا دیا کہ نواز شریف کو زلیل کر کے نکالنا ہے تب تب کے چیف جسٹس جناب ثاقب نثار کو لاٹھی تھمائی گئی تھی۔ کہیں ایسا نا لگے کہ یہ سب صرف مسلم لیگ ن کی تباہی کے لیے کیا جا رہا ہے اس واسطے ثاقب نثار یکے بعد دیگرے پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کو بھی آڑے ہاتھ لیتے تھے اور ان پہ بھی جملے کستے تھے۔جسٹس ثاقب نثار نے ایک مرتبہ اچانک کراچی میں جیل کے ہسپتال کا دورہ کیا اور شرجیل میمن سے مبینہ طور پر شراب کی بوتل برآمد کی اور پورے عملے کو بے عزت کیا۔ میڈیا نے بھی اس بات کو خوب اچھالا اور اس وقت ثاقب نثار کو اپنا ہیرو بنانے کا ایک موقع بھی ہاتھ سے نہ جانے دیا۔  لیبارٹری کی رپورٹ آنے کے بعد پتا چلا کہ اس بوتل میں شراب نہیں بلکہ بالوں کا تیل تھا۔ اگر پیپلز پارٹی آج سندھ حکومت چھوڑ دے تو پھر اس طرح کی رپورٹ نہیں آئے گی۔ ساری انتظامیہ اور ساری کی ساری پولیس اسٹیبلشمنٹ اور عمران خان کے براہ راست تابع ہو جائے گی۔ پھر ایک زرداری کسی پہ بھی بھاری نہیں ہو گا بلکہ خود پہ بھاری پڑ جائے گا۔ اور نتیجتاً پی ڈی ایم بھی کمزور ہو جاتی کیونکہ ساری کی ساری طاقت تحریک انصاف اور ان کے لانے والوں کے پاس رہ جاتی۔
اب بلاول بھٹو اور مریم نواز دونوں ایک دوسرے پر یکے بعد دیگرے جملے کس رہے ہیں۔ پہلے مریم نے بلاول پہ تنز کرتے ہوئے کہا کہ اب یہ خود سیلکٹیڈ بننے کے لیے راہ ہموار کر رہا ہے۔  بلاول بھٹو نے پورے نواز خاندان کو طعنہ دیتے ہوئے کہا کہ سیلکٹیڈ بننے والا خون بھٹو خاندان میں ہے ہی نہیں اور اس کے تانے بانے لاہور سے ملتے ہیں۔ خیر اب ایسی بات تو نہیں ہے۔ تانے بانے تو قریباً سب کے راولپنڈی ہی سے ملتے ہیں اور اس بات پہ کسی بھی پارٹی پہ اعتراض نہیں بنتا کہ وہ پنڈی کی پیداوار ہیں کیونکہ وہی ایک تو سیاسی اکیڈمی ہے جہاں باقاعدہ سیاستدان بنائے گرائے اور تیار کئے جاتے ہیں۔
جو بچوں کا کھیل بلاول اور مریم نے شروع کیا ہے اور جس میں دونوں پارٹیوں کے ممبران بھرپور طور پہ حصہ لے رہے ہیں یہ کھیل آج کا نہیں بلکہ تیس سال پرانا ہے۔ پھر 2007میں میثاق جمہوریت ہوا۔ میثاقِ جمہوریت اصل میں ہے کیا؟  میثاقِ جمہوریت پیپلز پارٹی اور ن لیگ کے درمیان یہ معاہدہ ہے کہ اب کے بعد ہم ایک دوسرے کو خوب گالیاں دیں گے پہلے کی طرح، برا بھلا بھی کہیں گے، چھوٹی موٹی سازشیں بھی کریں گے لیکن اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مل کر ایک دوسرے کی حکومت نہیں گرائیں گے۔ ہوا کیا کہ ان دونوں پارٹیوں کے اس پلین کا ستیاناس کرنے کے لیے اسٹیبلشمنٹ عمران خان کو میدان میں لے آئی اور یوں میثاق جمہوریت کی افادیت نہ ہونے کے برابر ہو گئی۔ وہ ایسے کہ اب باری باری اسٹیبلشمنٹ کبھی پیپلز پارٹی اور کبھی ن لیگ پہ دبائو ڈالتی ہے اور دونوں کو اس پوزیشن میں ڈال دیتی ہے کہ وہ نہ آگے جا سکیں نہ پیچھے۔ زرداری کا استعفے نہ دے پانا اس حقیقت کا ایک شاخسانہ ہے۔
عوام، جن کے نام سے یہ پارٹیاں یکجا ہو کے تحریک انصاف کے خلاف کھڑی ہو رہی ہیں یہ عوام ابھی اس لڑائی کے لیے تیار نہیں ہیں جس لڑائی میں پی ڈی ایم عوام کو دھکیل رہی ہے۔ کیونکہ سیاسی طور پہ لوگ بٹے ہوئے ہیں اور اندر ہی اندر فوج کو اپنا حکمران تسلیم کرتے ہیں چاہے خوشی یا مجبوری میں۔ چاہے مولانا اور نواز شریف اسٹیبلشمنٹ کے خلاف لاکھ تقریریں کریں یہ عوام فی الحال موڈ میں نہیں ہے۔

اسی لیے کہتا ہوں کہ زرداری غلط نہیں کہہ رہے۔