’’ہر بیماری اپنے ساتھ نئے تقاضے اور کاروبار لے کر آتی ہے‘‘

’’ہر بیماری اپنے ساتھ نئے تقاضے اور کاروبار لے کر آتی ہے‘‘
عید سے پہلے ہوائی حادثہ بہت ہی افسوناک تھا۔ کیوں ہوا، کیسے ہوا یہ بعد کی باتیں ہیں مگر قوم کو عید سے پہلے ہی غمگین کر گیا۔ وزیر صاحب کا دعویٰ ہے کہ جون کی 22 تاریخ کو فضائی حادثہ کی رپورٹ پارلیمنٹ کے سامنے رکھ دی جائے گی، جو دو خوش قسمت مسافر اس فضائی حادثہ میں زندہ بچ گئے ہم ان کو مبارکباد دیتے ہیں۔

دوسری جانب عید کے موقعے پر جس طرح قوم نے عملی طور پر کرونا کا مذاق اڑایا ہے اس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔ میں کوئی مذہبی آدمی نہیں ہوں لیکن میں یہ ضرور سمجھتا ہوں کہ ہر مذہب کے ماننے والوں کو اپنے مذہبی تہوار منانے کا پورا پورا حق ہے۔ عید بھی ان میں سے ایک ہے۔ جب ہم چھوٹے تھے تو نہ اس وقت تک سائنس اتنی ترقی کر گئی تھی اور نہ سیاست کہ رویت ہلال کمیٹی بنائی جاتی۔ لوگ شام کو اپنے اپنے گھروں کے کوٹھوں، چھتوں یا کھلے میدان میں نکل جاتے تھے اور چاند کو دیکھنے کی کوشش کرتے تھے جس کو نظر آجاتا تھا وہ دوسروں کو دیکھنے میں مدد کرتا تھا۔ بچے اور جوان کوٹھے سے ہی شور مچا دیتے تھے کہ چاند نظر آگیا ہے۔ چاند رات مبارک ہو۔ چاند رات کے ساتھ بھی بہت ساری روایات تھیں۔ چاند رات منائی جاتی تھی، لڑکیاں مہندی لگواتی تھیں اور چوڑیاں خریدتی تھیں۔ لوگ اپنے رشتہ داروں خاص کر بیٹیوں کو عیدی دینے نکل پڑتے تھے، مگر میں سمجھتا ہوں کہ دس بجے رات کو عید کے ہونے کا اعلان کر کے ساری روایت اور خوشیوں پر پانی پھیر دیا جاتا ہے۔

چچا غالب نے پتہ نہیں کس وجہ سے، کس موڈ میں اور کن حالات میں یہ مصرح کہا تھا کہ 'اک برہمن نے کہا ہے کہ یہ سال اچھا ہے'۔

مگر ہمارے لئے، بلکہ پاکستان ہی نہیں ساری دنیا کے لئے 2020 کا سال اچھا ثابت نہیں ہو رہا۔ گو انسان کی معلوم اور نامعلوم تاریخ میں، انسان نے معلوم اور نامعلوم وباؤں کا کس طرح مقابلہ کیا اس کے بارے کوئی بات حتمی، یقین اور تحقیق سے نہیں کہی جاسکتی۔ تاریخ نامعلوم میں جب انسان جانور ہی تھا تو ان بلاّوں سے قدرت ہی نے نکالا اور اس کے بارے میں آپ قیاس آرائیاں ہی کر سکتے ہیں۔ لیکن ایک بات یقین سے کہی جاسکتی ہے کہ قدرت انسان پر ہمیشہ مہربان رہی ہے، اسی لئے آج انسان اس قابل ہو گیا ہے کہ ہر قسم کی وبا یا بلّا کا مقابلہ کر سکے۔ اس سال کے شروع ہی میں پتہ چل گیا تھا کہ چین کے شہر ووہان میں ایک وبا پھیل گئی ہے، دھڑا دھڑ لوگ اس کا شکار ہو رہے ہیں اور مر رہے ہیں، کتنے مرے اس کا صحیح اندازہ نہیں لگایا جا سکتا کیوں کہ چین میں ایسا نظام حکومت ہے جہاں سے سرکار کی اجازت کے بغیر ٰکوئی خبر سامنے نہیں آسکتی۔

جب بھی کوئی نئی بیماری یا وبا سامنے آتی ہے تو ہم فورا اس میں جانوروں کو گھسیٹ لاتے ہیں۔ ایک بات جو سامنے آئی وہ یہ تھی کہ کیوں کہ چینی ہر قسم کے جانور کھا پی جاتے ہیں تو یہ چمگادڑوں کے سوپ سے انسان میں منتقل ہوئی، اور یہ ایسی نئی بیماری ہے جو فوراً ایک انسان سے دوسرے انسان میں منتقل ہو جاتی ہے- دوسرا نظریہ جو سامنے آیا کہ ووہان کی لیبارٹری میں سائنسدان چمگادڑوں پر تجربہ کر رہے تھے کہ ایک سائنس دان اس کا شکار ہو گیا اور پھر یہ پھیلتی چلی گئی۔ اس الزام تراشی میں امریکہ اور چین کے درمیان ایک قسم کی سرد جنگ شروع ہو گئی ہے۔

ہم ذرا سا پیچھے جائیں تو ہمیں یہ رویہ کوئی نیا نہیں نظر آئے گا۔ جب ایڈز کی بیماری سامنے آئی تو اس کے بارے میں بھی یہ خیال پھیلایا گیا کہ یہ کسی انسان کی جانور کے ساتھ جنسی اختلات کے نتیجہ میں پیدا ہونے والا مرض ہے، پھر اس میں اخلاقی بے راہ روی کا نظریہ بھی آجاتا ہے۔ پہلے تو یہ کہا گیا کہ ایڈز ہم جنس پرستی کے نتیجہ میں خدا کا عذاب ہے اور طرح طرح کی باتیں سامنے آئیں، پھر جب اس بیماری پر ریسرچ ہوئی تو پتہ چلا کہ ضروری نہیں کہ ہم جنس پرستی یا فاحشہ عورت سے لگے بلکہ یہ سرنج یا خون کی منتقلی سے بھی لگ سکتی ہے۔ جیسے انسان نے سرطان کا علاج ڈھونڈ لیا، ایسے ہی اب ایڈز بھی قابل علاج ہے۔

ہر بیماری اپنے ساتھ نئے تقاضے اور کاروبار لے کر آتی ہے۔ ہمیں یاد ہے کہ ڈاکٹر کے پاس ایک سرنج ہوتی تھی اور وہ اس سے سینکڑوں مریضوں کو انجکشن لگا دیتا تھا۔ پھر یہ ہوا کہ ڈسپوزیبل سرنج سامنے آگئی۔ ہر شخص اپنی سرنج لائے گا اور ڈاکٹر ایک سرنج سے کسی دوسرے کو انجکشن نئے لگائے گا۔ پھر یاروں نے اس استعمال شدہ سرنج کو کوڑے کرکٹ سے نکال کر صاف کر کے دوبارہ بیچنا شروع کر دیا تو یہ طے ہوا کہ ہر سرنج کو استعمال کر کے اسی وقت ڈاکٹر اس کی سوئی کو توڑ دے گا۔

اب جب یہ وبائی مرض جسے کرونا کا نام دیا جاتا ہے، سامنے آئی تو سب سے پہلے یہ کیا گیا کہ ہر مریض کو دوسروں سے الگ رکھا جائے۔ لہذا جب چین میں یہ نسخہ کامیاب ہوا تو ساری دنیا نے اس کو اپنا لیا۔ لوگوں کو حکم ہوا کہ اس بیماری سے بچنے کے لئے گھروں میں نظر بند ہو جائیں۔ ایک دوسرے سے فاصلہ رکھیں، منہ اور ناک پر ماسک پہن کر رکھیں، کاروبار ٹھپ ہو گئے۔ غریب اپنے روزگار سے گیا۔ سرکار نے اس معاشی مسئلہ کا یہ حل ڈھونڈا کہ ہرغریب کو ایک خاص رقم دی جائے تاکہ اس کو روٹی تو مل سکے۔ لوگوں سے اس پر عمل کروانے کے لئے ہر شہر میں فوج بھی بھیج دی۔ گو لوگوں پر پہلے پہل کچھ اثر بھی ہوا لیکن پھر لوگوں نے آہستہ آہستہ باہر ایک یا دوسرے بہانے سے نکلنا شروع کر دیا۔ کیوں کہ بیکریاں، کھانے پینے کی اشیا بیچنے والی، کریانہ سٹور اور دوائیوں کی دوکانیں کھلی تھیں۔ ہر قسم کا چھوٹا بڑا کاروبار بند ہو گیا تھا تو سرکار پر مختلف کاروباری حضرات کی طرف سی دباؤ بڑھنا شروع ہو گیا۔ کہتے ہیں کہ اپنے خاص بندوں کا خیال کرتے ہوئے سب سے پہلے کنسٹرکشن انڈستڑی، غریبوں اور دیہاڑی داروں کے نام پر سندھ میں کھول دی گئی۔

ہر کام میں فوج کا آنا بہت ضروری ہے اس لئے ایک نیا محکمہ ایک سینئر فوجی جرنیل کے زیر سایہ کھول دیا گیا۔ فوج کی طرف سے بھی اس مسئلہ پر بریفنگ آنی شروع ہو گئیں۔ اس وبا کا شکار ساری دنیا کے غریب اور امیر ملک ہوئے، اس کا شکار لوگوں کی تعداد لاکھوں میں چلی گئی اور مرنے والوں کی تعداد بھی لاکھوں سے کم نہیں۔ دوسری طرف پوری دنیا میں سائنسدانون نے اس کے علاج کے لئے دوا یا ویکسین ڈھونڈنی شروع کر دی۔

ابھی تک اس سلسلہ میں کوئی واضح کامیابی سامنے نہیں آئی، صرف فردا کے وعدے ہیں۔ جیسے کہ پہلی وباؤں کے نتیجہ میں نئے کاروبار سامنے آئے تھے اس وبا کے نتیجہ میں بھی ماسک کا کاروبار خوب چمکا۔ اس کے ساتھ ساتھ سینیٹائزر کا بھی کام خوب چلا۔ کہتے ہیں کہ موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے دواؤں کی قیمتیں بھی بڑھا دی گئی ہیں- انفرادی نظر بندی یا سیلف آیسولیشن کے نتیجہ میں نفسیاتی بیماریوں کا بھی لوگ شکار ہونا شروع ہو گئے ہیں۔ اسی سلسلہ میں سندھ اور مرکز میں بھی سیاسی کشمکش سامنے آئی۔ اب اس سارے چیلینجز کو حل کرنا انتظامیہ کا کام ہے مگر ہماری عدلیہ کا اپنا مزاج ہے۔ چیف جسٹس صاحب نے اس کا نوٹس لے کر حکومت کو بلا لیا۔ سپریم کورٹ کی کاروائی سب لوگوں نے پڑھی اور آخر کار جو انتظامیہ کا کام تھا کہ وہ فیصلہ کرے کہ کس قسم کا لاک ڈاؤن ہونا چاہئے، سپریم کورٹ نے ہر قسم کے کاروبار کو کھولنے کی آزادی دے دی۔ اس نے کچھ پابندیاں لگائیں مگر ہم نے دیکھا کہ اس ملک میں پابندیوں کو کوئی نہیں مانتا۔ عوام نے ان پابندیوں کی دھجیاں اڑا دیں۔

اس کا ایک بہت ہی اہم پہلو یہ ہے کہ پاکستان کسی بھی طرح اس وبا کا مقابلہ کرنے کی لئے تیار نہ تھا عام لوگوں کی بات تو بعد کی ہے پاکستان میں ڈاکٹروں کے لئے بھی اس سے بچاؤ کی کٹ یا وردی نہیں تھی اور اب بھی ہر ڈاکٹر کے پاس یہ کٹ نہیں ہے۔ لہذا ہم نے دیکھا کہ بہت سارے ڈاکٹر بھی اس وبا کا شکار ہو کر مر گئے، جن میں چوہدری اعتزاز احسن کے بڑے بھائی سینئر سرجن اعجاز احسن بھی شامل ہیں۔