سینئر تجزیہ کار عائشہ صدیقہ نے کہا ہے کہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی تقریر کے بعد وہ لمحہ جس میں ہم انڈیا کیساتھ تعلقات کو بہتر بنا سکتے تھے، وہ عمران خان کی حکومت نے ضائع کر دیا تھا۔ اب بحالی فی الحال مشکل، انڈیا کی نظریں نومبر 2022ء میں پاکستان میں ہونے والی ممکنہ اہم تبدیلی پر لگی ہوئی ہیں۔
نیا دور ٹی وی کے پروگرام ''خبر سے آگے'' میں پاک انڈیا تعلقات پر اپنا تجزیہ پیش کرتے ہوئے ڈاکٹر عائشہ صدیقہ کا کہنا تھا کہ دونوں ملکوں کے درمیان جو بیک چینل چل رہا تھا وہ اجیت ڈوول اور جنرل باجوہ کے درمیان تھا۔ اس کے تحت صرف ایک چیز کو حاصل کی گئی وہ لائن آف کنٹرول پر سیز فائر تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ دونوں ملکوں کے درمیان ایل او سی پر فائر بندی کا معاہدہ سب سے پہلے 2003ء، اس کے بعد 2014ء اور بعد ازاں اس کی دوبارہ توثیق کی گئی، اسی وجہ سے سرحدوں پر گذشتہ ایک سال سے امن ہے۔ لیکن میرا نہیں خیال کہ بات اس سے آگے بڑھی ہے۔
ڈاکٹر عائشہ صدیقہ نے کہا کہ ابھی جو چیز سامنے آئی ہے وہ ٹریک ٹو ہے۔ اس کے تحت سول سوسائٹی، سابق ڈپلومیٹس اور ریٹائرڈ فوجیوں کے درمیان میٹنگز کا اہتمام کیا گیا ہے۔ رواں ماہ ہی دونوں ملکوں کے وفود کے درمیان بینکاک میں دو میٹنگز ہوئی ہیں۔ ان میں سے ایک میٹنگ میں پاکستانی صحافی اور سابق جنرل نے بھی شرکت کی جبکہ دوسری طرف جبکہ دوسری میٹنگ ملٹری ٹو ملٹری تھی۔ لیکن ان میٹنگز کا کوئی خاطر خواہ نتیجہ نہیں نکل سکا ہے۔ میری اطلاعات تو یہ ہیں کہ ان ملاقاتوں کے دوران تھوڑی سے خفگی بھی دیکھنے میں آئی۔
پروگرام میں اپنی بات کو مزید آگے بڑھاتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ میرا اپنا یہی خیال ہے کہ پاکستان اور انڈیا کے درمیان امن کی بات چیت کی زیادہ گنجائش نہیں ہے۔ کیونکہ پہلا طریقہ تو یہ ہے کہ ہم کھل کر سامنے آئیں کہ کشمیر کا مسئلہ تو رہے گا لیکن جو دونوں ملکوں کے درمیان چھوٹے چھوٹے مسائل ہیں ان کا حل ڈھونڈنے کیلئے آگے چلا جائے۔ ان میں آلودگی، موسمیاتی تبدیلیاں اور پانی بھی اہم مسائل ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ دونوں ملک مل بیٹھ کر سب سے بڑا ایشو مسئلہ کشمیر کو حل کریں۔
انہوں نے کہا کہ ان دونوں ملاقاتوں میں جو گفتگو ہوئی ہے وہ یہی ہے کہ آپ کا کشمیر آپ کے پاس جبکہ ہمارا کشمیر ہمارے پاس، چلیں آگے بڑھتے ہیں۔ یکن اس کو توثیق کرنا بغیر کسی سیاسی طور پر بہت ہی مشکل ہے۔ ہندوستانیوں کا کہنا ہے کہ آپ بتائیں کہ ہمارے ساتھ بات کرنے کیلئے راضی بھی ہیں یا نہیں؟ لیکن ہماری طرف سے ایسے اشارے جا رہے ہیں جس سے لگتا نہیں کہ ہم تیار ہوں۔
عائشہ صدیقہ کا کہنا تھا کہ بھارتی نومبر 2022ء میں پاکستان کے ادارے میں ہونے والی ایک اہم تبدیلی کا انتظار کر رہے ہیں۔ یہ سمجھنا کہ انڈیا پاکستان سے بات چیت بڑھانے کیلئے بہت آمادہ ہے تو ایسا نہیں ہے۔ پاکستان کی حکومت بہت کمزور ہے۔