مسلم لیگ کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیجئے، یہ مزاحمت کے لئے بنی ہی نہیں

مسلم لیگ کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیجئے، یہ مزاحمت کے لئے بنی ہی نہیں
سابق وزیر اعظم نواز شریف صاحب جس وقت سیاسی درجہ حرارت کو بڑھانے میں محو تھے، تو بہت سے جمہور پسندوں کو لگ رہا تھا کہ شاید وہ اور ان کی صاحبزادی مریم نواز ملک میں مزاحمت کا ایک نیا استعارہ بن کر ابھر رہے ہیں۔ پاکستان کی ڈرائنگ رومز اور بند کمروں، سات پردوں کے پیچھے ہوئی ملاقاتوں سے چلنے والی سیاست کو بیچ چوراہے میں لا رہے ہیں، عوام کے سامنے رکھ رہے ہیں اور ان سے فیصلہ لینے پر مصر ہیں۔ سہیل وڑائچ نے تو یہاں تک لکھ دیا کہ مریم نواز شریف ایک عام سی لڑکی سے اب قومی لیڈر بننے کی طرف گامزن ہیں اور ’وہ شرمیلی تھی اور اس کے آنسو اس کی ناک پر رکھے ہوتے تھے ادھر کچھ خراب ہوتا، ادھر اس کے آنسو ٹپ ٹپ گرنے لگتے وہی بات بات پر رو دینے والی لڑکی اب مریم نواز بن کر سٹیج پرسے سب طاقتوروں کو للکارتی ہے جیل میں دال روٹی کھاتی ہے مگر مراعات نہیں مانگتی اب اس کی آنکھوں سے آنسو نہیں نکلتے شعلے نکلتے ہیں جو اپنی گفتگو سے مخالفین کو بھسم کرنے کی طاقت رکھتے ہیں‘۔