Get Alerts

اقتدار کے ایوانوں سے جلد کسی 'بڑی چھٹی' کا امکان ہے؟

اقتدار کے ایوانوں سے جلد کسی 'بڑی چھٹی' کا امکان ہے؟
 

جب کہ اس ہفتے آئی ایس آئی چیف کی نامزدگی پر تنازع ختم ہو گیا۔ اس تعطل کی حقیقت، اس کی ابتدا اور ڈرامائی تاخیر کو آسانی سے بھلایا نہیں جا سکتا۔ اس وقت تحریک انصاف کے ووٹرز جو کہ ایوان اقتدار سے ہزاروں کلومیٹر دور بیٹھے صرف سیاسی تشبیہات اور تصاویر پر ہی ملک میں چلنے والے معاملات پر فتوے صادر کر دیتے ہیں ان سے پوچھا جائے تو وہ اس اعلیٰ سطحی ڈرامائی تین ہفتوں کو ایک عامیانہ سا معاملہ قرار دے رہے ہیں۔ جب کہ عمران خان کی حکومت میں اچانک سے اہم ترین عہدوں پر تعینات ہونے والے گفتار کے غازی کہلائے جانے والے ٹینکوکریٹ ٹائپ لیڈرز کا بھی یہی بیانیہ ہے۔
تاہم، پرانے سیاسی کھلاڑی جو ہر پانچ سال بعد دہاڑی لگنے یا نہ لگنے کی صورت میں شہر سیاست کا کوچہ کوچہ اور گلی گلی گھومتے ہیں ان سے گپ شپ ہو تو وہ ابہام نہیں رکھتے کہ آگے کیا ہونے جا رہا ہے۔ ہر مؤقر صحافتی اشاعت اٹھا کر دیکھ لیں آپ کو کو کیا ہونے جا رہا ہے کے سوال کا واضح جواب ملے گا۔ مثال کے طور پر ڈان اخبار کا اداریہ ملاحظہ ہو۔ اداریہ کہتا ہے کہ وزیر اعظم نے نئے سربراہ کے لئے نوٹیفکیشن جاری کر دیا ہے، لیکن تین ہفتوں کی قیاس آرائیوں، غیر یقینی صورتحال اور سیاسی ڈرامے کے یقیناً سول ملٹری تعلقات کی شکل کے ساتھ ساتھ سویلین اطراف کے نازک تصور پر بھی دیرپا اثرات مرتب ہوں گے۔
اخبار لکھتا ہے کہ اکتوبر کے زیادہ تر عرصے تک، ملک کے چیف جاسوس کا نوٹیفکیشن اسلام آباد اور راولپنڈی دونوں کا واحد مسئلہ تھا۔ وزیر اعظم آفس اور آرمی چیف کے درمیان اعصاب کی جنگ جاری رہنے کی وجہ سے تقریباً باقی سب کچھ رکا رہا۔ اسی کی روشنی میں اگر حالیہ تاریخ کو دیکھ لیں تو معلوم پڑتا ہے کہ یہ معاملات انتہائی خفِیہ رکھے جاتے ہیں۔ لیکن عمران خان نے یہ تکلف بھی ضروری نہ سمجھا۔ اور ایک ایسا تعطل قائم کیا گیا جس پر یہ شعر صائب آتا ہے کہ جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے باغ تو سارا جانے ہے۔
اب بات یہ ہے کہ آگے کیا ہوگا۔ اس کے لئے پیچھے دیکھنا لازم ہے۔ گذشتہ نواز حکومت نے خود کو حکومت بنا کر دکھایا اور بظاہر اسٹیبلشمنٹ سے ہٹ کر ایک اپنا وجود بنانے کی کوشش کی جس کو ان کی قدرے بہتر کارکردگی کا ساتھ حاصل تھا۔ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ تاہم وہ آغاز سے ہی مشرف کے معاملے پر الجھ پڑی تھی۔ لیکن اگر نوٹ کیا جائے کہ چاہے اس مشرفی الجھاؤ کے نتیجے میں دھرنے سہنے پڑے ہوں یا دھاندلی کے الزام، اصل گیم تو ڈان لیکس کے بعد ہی شروع ہوئی۔ یہی کچھ پیپلز پارٹی کی حکومت میں ہوا جس نے کبھی آئی ایس آئی کو وزارت داخلہ کے ماتحت کرنے کی کوشش کی یا پھر میموگیٹ کے شکنجے میں جا پھنسی، جب جب ان حکومتوں نے بطور ادارہ اسٹیبلشمنٹ کی انا کو للکارا، اس کے بعد ہی ان کی گردنیں ناپی گئیں۔
تو اب وزیر اعظم عمران خان نے کیا کیا ہے؟ انہوں نے تو بقول اپوزیشن انتہائی بھونڈے انداز سے کتابی اصول و ضوابط کا سہارا لیتے ہوئے پورے ادارے کو چیلنج کیا اور متواتر تین ہفتے کیے رکھا۔ ظاہر ہے اس کی قیمت اب وزیر اعظم اور ان کی حکومت کو چکانا ہوگی۔ کوئی بعید نہیں کہ اگلا سال تبدیلی کا ہو جائے اور عمران خان اپنے حکومتی کریئر میں باقاعدہ آؤٹ ہو جائیں۔ آنے والے دنوں میں تحریک لبیک کا معاملہ کس رخ بیٹھتا ہے یہ سب کچھ واضح کر دے گا۔
نیا دور کے پروگرام خبر سے آگے میں مرتضیٰ سولنگی کا یہ اشارہ کہ جاوید لطیف نے کہا تھا کہ نواز شریف دسمبر میں آ رہے ہیں جو کہ پہے مذاق لگتا تھا اب نہیں لگتا بہت ہی معنی خیز ہے۔ معلوم یہ پڑتا ہے کہ اس بار سردیاں پڑتے ہی وزیر اعظم عمران خان کو سیاسی میدان میں سے لو کے تھپیڑے آتے محسوس ہوں گے اور اس بار ان کی اتحادیوں کی حمایت جو کہ گذشتہ الیکشن سے لے کر اب تک کسی نا کسی حالت میں ان کے ساتھ ہی تھی وہ بھی ہٹ جائے گی۔ بقول امیر جماعت اسلامی بیساکھیاں ہٹ گئیں تو یہ حکومت کچھ دیر نہ ٹھہر سکے گی۔
لیکن کئی تجزیہ کار اور خاص کرحامیانِ عمران اس بات پر بضد ہیں کہ تین سال کی بدترین پرفارمنس کے باوجود اگر اسٹیبلشمنٹ وزیر اعظم عمران خان کی حکومت کو جاری رکھے ہوئے ہے تو اب آخری دو سال میں وہ اس حکومت کو ہٹا کر گناہ بے لذت کیوں کرے گی؟ جواب آتا ہے کہ کسی حکومت کو ہٹانا اسٹیبلشمنٹ کے لئے گناہ ہے ہی کب جو وہ لذت اور بے لذتی کو غور میں لائے؟ گیلانی کو کب گھر بھیجا گیا؟ نواز کے ساتھ کیا ہوا؟ ان وزرائے اعظم کے بعد پارٹی حکومت کتنی مفلوج رہی گذشتہ دس سال اس سب کے حوالے سے شاہد ہیں۔
اس حوالے سے خبر تو نیا دور کے پروگرام خبر سے آگے میں سے ہی ملی کہ عمران خان کو بتایا گیا تھا کہ ہم 5 سال کے لئے نہیں 10 سال کے لئے آئے ہیں۔ اور چیس بورڈ پر بتایا گیا کہ کونسا مہرہ کب کہاں ہوگا۔ لیکن اچانک خان صاحب کو محسوس ہوا کہ یہ گیم تو ویسے نہیں جا رہی اور ہو سکتا ہے کہ میری پارٹی کی حکومت رہے لیکن میں اس میں نہ ہوں۔ ایسے میں شاید اگلے ماہ و سال عمران اسٹیبشلمنٹَ مڈ بھیڑ کے ماہ و سال ہوں جس کا نتیجہ ایک اور بڑی چھٹی کی صورت میں نکل سکتا ہے۔