15 سال بعد بالآخر اسٹیبلشمنٹ مارشل لاء لگانے کی پوزیشن میں آ چکی

15 سال بعد بالآخر اسٹیبلشمنٹ مارشل لاء لگانے کی پوزیشن میں آ چکی
جھوٹ کو سچ ثابت کرنے کے لیے اکثر لفظ سچ کا بار بار تذکرہ کرنا ہوتا ہے، یقین دہانیاں کرانی پڑتی ہیں، 'میں سچ کہتا ہوں، آپ یقین کیجیے، حلفاً اور قسمیہ کہتا ہوں' جیسے فقروں کا سہارا لینا پڑتا ہے کیونکہ عملاً تو کچھ کرنا نہیں ہوتا اور ہمارے ہاں الفاظ عمل سے زیادہ اونچی آواز اور ڈھٹائی سے بولتے ہیں۔ گزشتہ جمعرات سے ملک میں پریس کانفرنسوں کا تانتا بندھ گیا ہے اور ہر پریس کانفرنس میں یہ الفاظ بار بار دہرائے گئے ہیں؛ آئین و قانون، قانون کی حکمرانی، سیاسی مداخلت، عدم مداخلت وغیرہ وغیرہ۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ ہر فریق یہ لفاظی اپنی سہولت، ماضی کی سیاہ کاریاں دھونے لیکن اس کو حال اور مستقبل میں دہرانے اور معصوم بنتے ہوئے مستقبل کی راہیں ہموار کرنے کے لیے استعمال کر رہا ہے۔ اس شاطرانہ کھیل میں کچھ گروہ زیادہ کامیابی حاصل کر رہے ہیں اور کچھ کم لیکن ہار صرف اور صرف ملک اور عوام کی قسمت میں آتی ہے۔

اس لیے، قنوطیت کا خطرہ مول لیتے ہوئے میں تو یہی کہوں گا کہ اپن کو 'نیوٹریلٹی، سیاسی عدم مداخلت یا غیر سیاسی پن' وغیرہ وغیرہ پر اتنا ہی یقین ہے جتنا 'ووٹ کو عزت دو'، 'تبدیلی' اور 'حقیقی آزادی مارچ' کے نعروں اور استعاروں پر ہے۔ علی ہذا القیاس، اب تک زمینی حقائق تو یہ بتاتے ہیں کہ نہ اسٹیبلیشمنٹ اپنے آئینی دائرہ سے باہر موجود سیاسی طاقت کے مراکز سے دست کش ہوئی ہے، نہ غیر سیاسی پن یا سیاست میں عدم مداخلت کا نعرہ مستانہ دل و جان سے نکلتا ہوا نظر آیا ہے بلکہ معروضی سیاسی حالات کو سنبھالنے کے پرانے فارمولے کی نئی شکل ہے۔

ہماری 75 سالہ سیاسی تاریخ اتنے سفاکانہ داؤ پیچ سے عبارت ہے کہ اب چھاچھ کو بھی پھونکنے کے بغیر نہیں پیا جا سکتا۔ ماضی کی ان تلخ حقیقتوں اور موجودہ سیاسی منظرنامے کو ذہن میں رکھتے ہوئے فطری طور پر قنوطیت امید پر چھا جاتی ہے۔ اب 'لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے' بھی نعرہ پژمردہ لگ رہا ہے، اب یہ حال ہے کہ 'کیوں کسی کا گلہ کرے کوئی۔'

ضیاء الحق نے بھی راج ڈھنگ، سیاست و معاشرت پر آہنی چادر ڈال کر اس نظام کی رکھوالی کے لیے اردگرد جمہوریت کی بحالی کے نام پر ریت کی بوریوں کے تہہ در تہہ پشتے لگوا کر خود تادم مرگ ایوان صدر میں جا بیٹھا تھا۔ اس سے پہلے اور بعد والے باوردی مسیحاؤں کا بھی کم وبیش یہی طریقہ واردات رہا۔ یہاں کے اصل حکمرانوں کو لیبل سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ آپ چاہے تو بنیادی جمہوریت، نظام مصطفیٰ، اسلامی جمہوریت، جمہوریت، خلافت، روشن خیال اعتدال پسندی، آئینی عوامی یا پارلیمانی بالادستی کا لیبل چسپاں کریں لیکن نظام کے انجن میں لگائے کل پرزوں کو نہ چھیڑیں تو شانتی ہی شانتی سے لگاؤ اپنی دیہاڑی اور ٹائم کیساتھ۔ جب تک ان کی مرئی حکمرانی کو سنجیدہ خطرہ درپیش نہ ہو وہ آسانی سے سامنے نہیں آتے بلکہ پس پردہ رہ کر آرام سے حکمرانی کی لذتوں سے بغیر کسی لعن طعن کے لطف اندوز ہوتے رہنا چاہتے ہیں۔



پاکستان کا مسئلہ یہ ہے کہ اس کا نظام ظاہری آئینی ریاستی ڈھانچہ نہیں چلا رہا ہے بلکہ ریاست کے اندر مختصر و منظم ریاست اس نظام کو چلا رہی ہے۔ اگر ظاہری ریاستی مشینری وقتی طور پر منتشر یا ناکارہ بھی ہو جاتی ہے تب بھی ریاست کے اندر ریاست کو وسیع تر قومی مفادات کے نام پر مزید تقویت ملتی ہے، کیونکہ اب تک منظم و حقیقی عوامی دباؤ کا کبھی اس نے سامنا نہیں کیا۔ پچھلے پانچ برسوں سے یہ عوامی دباؤ پنجاب میں پیدا ہو رہا تھا۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں پہلی مرتبہ اسٹیبلیشمنٹ کے بارے میں پنجاب میں رائے عامہ منفی ہوتی جا رہی تھی لیکن مسلم لیگ (ن) اور پی ڈی ایم نے عین گرتی ہوئی دیوار کو کندھا دیا جو اب نہ اس دیوار کے بوجھ کو برداشت کر سکتے ہیں اور نہ ہی پیچھے ہٹ سکتے ہیں۔ اب اس وقت اگر ہٹتے ہیں تو گرتی ہوئی دیوار کے ملبے کے نیچے دب جائیں گے اور اگر وہاں کھڑے رہتے ہیں تو رہی سہی عوامی حمایت بھی کھونے کا اندیشہ ہے۔ اس لیے اب یہ بھی اسٹیبلیشمنٹ کے رحم و کرم پر ہیں۔ دوسری جانب عمران خان بھی کلی طور پر عوامی طاقت کے بل بوتے پر نہیں بلکہ اسٹیبلیشمنٹ کے ایک حصے یا عنصر کی شہہ پر زور لگا رہا ہے۔ یوں کھیل اب بھی اسٹیبلیشمنٹ کے ہاتھ میں لگ رہا ہے اور اس کے قواعد و ضوابط اب بھی وہی طے کر رہے ہیں۔ کیونکہ آج تک عمران خان کی مقبولیت بیلٹ اور سوشل میڈیا سے باہر آ کر سڑکوں پر سر چڑھ کر نہیں بول سکی جو ان کے اختراع کردہ انقلاب پر منتج ہو۔

مسلم لیگ (ن) ججوں کے تقرر پر گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہو گئی۔ پچھلے 15 برسوں سے دو منتخب وزرائے اعظموں کو آرمی کی ٹرپل ون بریگیڈ نے گرفتار کرکے گھر نہیں بھیجا بلکہ یہ کام اس عدلیہ نے کیا جو موجودہ طریقہ تعیناتی کے نیتجے میں وجود میں آئی ہے۔ پی ٹی ایم کو اب تک میڈیا بلیک آؤٹ کا سامنا ہے۔ اس کے رہنماؤں اور کارکنان پر اب تک تقریر، تحریر، اظہار رائے اور جلسوں جلوسوں میں شرکت کی پاداش میں قید و بند، مقدمات اور شیڈول 4 کا سامنا ہے۔ منظور پشتین کے خلاف پچھلے ہفتے عاصمہ جہانگیر کانفرنس میں تقریر کرنے اور شرکا کی جانب سے نعرے بازی کے جرم میں لاہور میں نیا مقدمہ درج ہو گیا۔ سب کو معلوم ہے کہ اس قسم کے مقدمات کے اندراج کا حکم کہاں سے آتا ہے۔ صرف کندھا حکومت کا استعمال ہوتا ہے لیکن سیاسی قیادت پھر بھی اس پر اف تک نہیں کر سکتی۔ اس کانفرنس میں شرکا نے بلاول بھٹو زرداری کے خطاب کے دوران ممبر قومی اسمبلی علی وزیر کی رہائی کے لیے نعرے بازی اور احتجاج کیا تو بلاول سے صرف یہ جواب بن پڑا کہ جس نے گرفتار کیا ہے جاؤ ان کے خلاف نعرے بازی کرو حالانکہ علی وزیر پر غداری کا مقدمہ پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت کی مدعیت میں درج کیا گیا تھا۔

اس طرح آج تک پی ٹی آئی کی صوبائی حکومت، بذات خود عمران خان اور نہ اس کی جماعت کے کسی اور رہنما نے علی وزیر، منظور پشتین اور پی ٹی ایم کے ساتھ روا رکھے گئے سلوک پر اف تک کہا ہے۔ اعظم سواتی نے خود پر مبینہ تشدد کے خلاف ایک لمبی چوڑی پریس کانفرنس کھڑکائی، بار بار ممبر سینیٹ ہونے کا استحقاق جتایا لیکن ممبر قومی اسمبلی علی وزیر کے بارے میں ایک لفظ تک نہیں بولا جو ان کے اس پورے عمل میں کچھ کریڈیبلٹی کا رنگ بھر سکتا تھا لیکن اس صورت میں اصل سرخ لائن کراس ہو جاتی جسے مبینہ طور پر آزاد سیاسی ماحول میں کراس کرنے کی جرات نہ تو عمران خان کر سکتا ہے اور نہ ہی پی ڈی ایم میں اتنی جرات ہے۔

جہاں تک اسٹیبلشمنٹ کی اندرونی گروہی لڑائی کی بات ہے تو مجھے تو یہ بھی قرین قیاس نہیں لگتا بشرطیکہ بعض عالمی طاقتوں کی شہہ و منشا اس میں شامل نہ ہو۔ سب کو پتہ ہے کہ اس صورت میں جیت کسی کی نہیں ہوگی بلکہ کلی انتشار، طوائف الملوکی جو 75 سالوں سے ڈنڈے کے نظام کے تحت چلائی جانے والی ریاست کے وجود کو خطرے میں ڈال سکتی ہے اور اس دفعہ اسٹیبلشمنٹ کی حکمرانی کو برقرار رکھنے کے لیے کوئی مغربی بازو نہیں بچے گا۔ اس کے برعکس اگر عمران خان دو تہائی اکثریت سے آیا تو پھر نہ جمہوریت ہوگی اور نہ اسٹیبلشمنٹ بلکہ صاف شفاف 'عمران الملوکی' ہو گی اور اس کا انجام فاشسٹ اٹلی اور جرمنی سے زیادہ بھیانک ہو سکتا ہے۔ اس کے نتیجے میں تو جان و مال کا نقصان ہوا تھا لیکن کم ازکم اٹلی اور جرمنی بطور ریاست باقی رہے تھے۔

یوں ایک مرتبہ پھر اسٹیبلیشمنٹ فائدے میں ہے کیونکہ پچھلے دس پندرہ سالوں کی پولیٹیکل انجینئرنگ اور اس کے نتیجے میں ہونے والی سیاسی و معاشی تباہ کاریوں کے بوجھ کو کامیابی سے کسی اور کے کندھوں پر ڈالا جا چکا ہے، اب وہ پھر سے اس پوزیشن میں ہیں کہ وسیع تر قومی مفادات کے نام پر خود آ کر گدی پر بیٹھ جائیں یا اگر خود نہیں بیٹھنا چاہتے تو جسے چاہتے ہیں اسے بٹھا دیں۔ قیمت تو عوام نے چکانی ہے جو اب عوام کی قسمت بن چکی ہے۔ اللہ اللہ خیر سلا!

طالعمند خان فری لانس صحافی ہیں اور نیا دور کے لئے لکھتے ہیں۔