27 اکتوبر کے دن ساڑھے 11 بجے آئی ایس پی آر کے آڈیٹوریم میں ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل بابر افتخار جب سینیئر صحافی ارشد شریف کی کینیا میں افسوس ناک ہلاکت سے جڑے اہم حقائق بیان کر چکے اور راقم سمیت وہاں موجود سبھی دفاعی صحافی و اینکرز اپنے اپنے ذہنوں میں نہ صرف ارشد شریف کیس بلکہ اس سے بھی بڑھ کر عمران خان کے لانگ مارچ کے حوالے سے سوچ رہے تھے، عین اس وقت انتہائی غیر متوقع طور پر ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل ندیم احمد انجم کو نمودار ہوتے دیکھ کر خوشگوار حیرت کے ساتھ سب چونک پڑے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کا تسلسل کے ساتھ جھوٹ بولنا ملکی سکیورٹی کے محافظ پریمیئر ادارے کے سربراہ کے کھل کر سامنے آنے کی وجہ بنا ہے۔ یہ احساس اجاگر ہوا کہ ریاست اس ضمن میں بہت ہی سنجیدہ ہے اور تہیہ کر چکی ہے کہ جس جھوٹے کھیل کو رچایا جا رہا ہے اب اس کی حقیقت دنیا کے سامنے آشکار ہو ہی جانی چاہئیے۔ 27 اکتوبر کا دن اس محاورے کی نئی مثال بن گیا:
”وہ آئے، انہوں نے کہا اور سازشوں، مفروضوں کی بنیادوں پر کھڑا کیا گیا جھوٹے بیانیے کا قلعہ دھڑام سے گرا دیا“۔
فوج اور ادارے کی کمزوریوں کی تلاش میں موجود بعض حلقے یہ سوال اٹھا رہے ہیں کہ ڈی جی آئی ایس آئی کو کیوں آنا پڑا، یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ عمران خان نے انہیں سامنے آنے پر مجبور کر دیا۔ کہا جا رہا ہے کہ عمران خان تو اداروں اور ان کے سربراہوں کو للکار رہا ہے۔ لیکن اب کنٹینر کی پہلی تقریر میں جب بات سیکٹر کمانڈر کو للکارنے تک آ گئی ہے تو سمجھ جائیں کہ اس جھوٹے بیانیے کی جنگ ہاری جا چکی ہے۔ کہا جا سکتا ہے کہ پریس کانفرنس نے جعل سازی، مسخ حقائق، جھوٹ پر مبنی ”کنٹینر بیانیے“ کی ساری ہوا سچ اور حقائق کے وار سے نکال دی گئی ہے۔ کیوںکہ جو حقائق انہوں نے بیان کیے ہیں وہ کوئی عام حقائق نہیں ہیں، ایک ایسی شخصیت کی باتیں تھیں جسے عمران خان جیسا جھوٹے بیانیے کا ثابت شدہ ماہر بھی ہزار کوشش کے باوجود نہیں جھٹلا سکا، الٹا 27 اکتوبر کے اس سچ نے عمران خان نیازی کو اتنا بوکھلا دیا کہ اس نے حکومت بچانے کی خاطر آرمی چیف کو غیر معینہ مدت تک توسیع دینے کی آفر کرنے سمیت تمام باتوں کو مان لیا ہے۔
عمران خان کی سیاست تین چیزوں کے گرد گھومتی ہے۔ پہلی یہ کہ مجھے کرپشن اور رشوت برداشت نہیں۔ دوسری یہ کہ میں دباؤ تسلیم نہیں کرتا اور کسی کے سامنے جھکتا نہیں۔ جبکہ تیسری یہ کہ مجھے حکومت اور عہدوں کی ضرورت نہیں۔ میں توسیع پر یقین نہیں رکھتا، خفیہ ملاقاتوں پر یقین نہیں رکھتا۔ لیکن 27 اکتوبر کی پریس کانفرنس سے ثابت ہو گیا کہ عمران خان کے تینوں ظاہری اصولوں کی عمارت کا حقیقت میں تو وجود ہی نہیں تھا، یہ سب تو دکھاوا تھا۔ نواز شریف پر BMW کی رشوت کا الزام لگانے والے، آصف زرداری پر ہارس ٹریڈنگ اور ووٹ خریدنے کی باتیں کرنے والے کی اپنی سچائی یہ ہے کہ حکومت بچانے کی خاطر آرمی چیف کو تاحیات ایکسٹینشن دینے کی آفر کر دی۔ یعنی یہ تو وہی مثال ہو گئی کہ وکیل کرنے کے بجائے جج کر لو۔ خان صاحب نے بھی سوچا ہو گا کہ حکومت لینے کے لیے دائیں بائیں زور لگانے کی بجائے بس اپنا آرمی چیف کر لو اور راج کرو۔ لیکن آخر کار سپائے ماسٹر کے سامنے آنے سے بڑا سرپرائز قوم کے سامنے یہ آیا کہ خان صاحب کو کہہ دیا گیا ہے کہ اب بس کر دو، یہ ڈرامہ بہت ہو چکا۔
پردے کے پیچھے کی ملاقاتوں کی سچائی اور سیاسی و ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے تعلقات کی حقیقت سامنے آنے کے بعد یہ کہا جا سکتا ہے کہ پاکستان میں تبدیلی 2018 میں نہیں بلکہ مارچ 2021 میں آئی جب آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی قیادت میں پاک فوج نے غیر سیاسی رہنے کا نہ صرف فیصلہ کیا بلکہ اس کے بعد ہر طرح سے ٹارگٹ ہونے کے باوجود جی ایچ کیو کی تاریخ کے درست ترین فیصلے پر سختی سے قائم بھی ہیں۔ حتی کہ نیوٹرل لفظ کو گالی بنا دیا گیا، میر جعفر، میر صادق اور غدار تک کہہ دیا گیا مگر پاکستان کو ٹریک پر واپس لانے کے لیے ہر روز برداشت کے نئے پیمانے قائم کیے گئے۔ فوج اور آئی ایس آئی نے جس برداشت کا مظاہرہ کیا ہے، لگتا ہے عمران خان اسے underestimateکر بیٹھے لیکن اب صورتحال، حالات، منظر نامہ سب بدل چکا۔
اس امر کو بھی سمجھنے اور سمجھانے کی ضرورت ہے کہ ذمہ دار ترین پوزیشن پر فائز سپائے ماسٹر نے معاملات بظاہر آخری نہج پر پہنچ جانے کے باوجود راستے بند نہیں کیے۔ پریس کانفرنس میں بار بار خفیہ بات چیت، مذاکرات، رابطے جاری رہنے کی حمایت کی، ان کی یہ اپروچ بذات خود ایک بڑا ثبوت ہے کہ ہمارا ادارہ (صرف آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نہیں، بلکہ پوری عسکری قیادت) متفقہ طور پر حقیقت میں اپنے آئینی کردار پر کاربند رہنے کا حتمی و دائمی فیصلہ کر چکا ہے۔ پاک فوج کی قیادت چاہتی ہے کہ سیاسی عدم استحکام ختم کرنے کے لیے سیاستدان ہی راستہ نکالیں، ایک دوسرے کو برداشت کرنے کی صلاحیت پیدا کریں اور ملک کو آگے لے کر چلیں۔ ملک آگے اسی صورت میں بڑھے گا جب حکومت میں آنے والی سیاسی قیادت کی ترجیح ملک کو درپیش حقیقی چیلنج یعنی کمزور بلکہ دم توڑتی معیشت سے نمٹنا ہوگا نہ کہ حزب اختلاف کو دبانا ترجیح ہو۔
ابھی تو ڈی جی آئی ایس آئی نے بہت سارے سوالات کے جواب نہیں دیے اور بار بار دہرایا کہ 'راز بہت ہیں لیکن بلا ضرورت سچ بولنا شر ہے'۔ یعنی دوسرے لفظوں میں موقع ہے کہ خان صاحب اب بھی انتشاری سے سیاسی ہو جائیں اور تھوڑے کو بہت جانیں، لیکن لانگ مارچ کے پہلے دن عمران خان کے نئے حملوں سے لگتا ہے کہ ان کی سوئی اٹک چکی ہے اور ان کے اردگرد ایسے عناصر کا گھیرا ہے جو تعمیری کے بجائے تخریبی سیاست کا ایجنڈہ رکھتے ہیں۔ اگر آنے والے دنوں میں یہی صورت حال برقرار رہی اور سیاست کے یہ تخریبی عناصر پاکستان کو نقصان پہنچانے کے درپے رہے اور باز نہ آئے تو پھر شاید زیادہ نقصان سے بچانے کے لیے پورے سچ کے سامنے آنے سے ہونے والا نقصان برداشت کرنا پڑ جائے۔
یہ بھی قابل ذکر ہے کہ ڈی جی آئی ایس پی آرلیفٹیننٹ جنرل بابر افتخار نے ہمارے سینئر ساتھی صحافی ارشد شریف کے مبینہ قتل سے متعلق جو حقائق سامنے رکھے ہیں، ان کی بنیاد پر منطقی انجام تک پہنچنے کے لیے ہمیں الزام تراشیوں اور قیاس آرائیوں سے بچنا ہوگا۔ امید ہے کہ ماضی کے برعکس ہائی پروفائل قتل کیس کی سچائی سامنے آئے گی اور صحیح معنوں میں ایک نئی تاریخ رقم ہو گی۔