حکومتی ارکان کی ججز کی تقرریوں پر چیف جسٹس سے ڈیل؟ اسد طور کے تہلکہ خیز انکشافات

حکومتی ارکان کی ججز کی تقرریوں پر چیف جسٹس سے ڈیل؟ اسد طور کے تہلکہ خیز انکشافات
گذشتہ جوڈیشل کمیشن میں چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی جانب سے پیش کیے گئے پانچ ناموں کے 28 جولائی کے اجلاس میں مسترد ہونے اور اس کے نتیجے میں کھڑے ہونے والے تنازعے کے بعد اب لگتا ہے کہ جوڈیشل کمیشن میں شامل حکومتی نمائندگان یعنی اٹارنی جنرل پاکستان اور وزیرِ قانون کی چیف جسٹس کے ساتھ کسی قسم کا سمجھوتہ ہو گیا ہے۔

یہ دعویٰ کیا ہے صحافی اسد علی طور نے اپنے تازہ ترین ویڈیو بلاگ میں جس میں وہ بتاتے ہیں کہ معزز چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے جوڈیشل کمیشن آف پاکستان کے لئے چار ججز کو نامزد کیا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ کل پانچ ججز کی جگہ سپریم کورٹ میں خالی ہے لیکن حیرت انگیز طور پر صرف چار ناموں کا اعلان کیا گیا ہے۔

ان میں سے ایک اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ ہیں۔ ایک لاہور ہائی کورٹ سے جسٹس شاہد وحید۔ تیسرا نام سندھ ہائی کورٹ کے جسٹس حسن اظہر رضوی کا ہے۔ یہ دونوں جج حضرات اپنی اپنی ہائی کورٹس میں سنیارٹی لسٹ میں چوتھے نمبر پر ہیں۔ چوتھا نام سندھ ہائی کورٹ سے جسٹس شفیع صدیقی کا ہے جو سنیارٹی لسٹ میں چھٹے نمبر پر ہیں۔

جسٹس اطہر من اللہ کو چھوڑ کر باقی تینوں نام وہی ہیں جنہیں 28 جولائی کو ہوئے آخری کمیشن کے اجلاس میں مسترد کیا جا چکا ہے۔ اکثریتی ووٹ ان ناموں کے خلاف آئے تھے۔ سپریم کورٹ کی روایت کے مطابق اگر ایک نام مسترد ہو چکا ہو تو اس پر دوبارہ تقرری کے لئے غور نہیں کیا جاتا۔ ایک صورت میں کوئی نام دوبارہ پیش کیا جا سکتا ہے کہ اس پر رائے دینے سے اکثریتی ارکان نے احتراز برتا ہو اور اسے مستقبل کے لئے اٹھا رکھا ہو۔ دوسری صورت یہ ہو سکتی ہے کہ اس نام پر ووٹ برابر ہو جائیں۔ اب یہ تین نام دوبارہ کس طرح آ گئے، اس پر اسد علی طور کی جن وکلا سے بات ہوئی ہے، ان کے مطابق جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے چیف جسٹس کو ایک خط لکھا ہے جس میں انہوں نے ان تینوں ناموں پر اعتراض اٹھایا ہے کہ یہ نام مسترد ہو چکے ہیں اور جب یہ بات ہو چکی ہے کہ سنیارٹی کے اصول کو اس وقت تک مدِ نظر رکھا جائے گا جب تک کہ ایک نیا طریقہ کار نہیں وضع کر لیا جاتا، تو جب یہ طریقہ کار ابھی تک وضع ہی نہیں ہوا تو دوبارہ جونیئر ججز کے نام کیوں سامنے لائے گئے ہیں۔

سندھ بار کونسل نے بھی ایک قرارداد پاس کی ہے جس میں خاصے سخت الفاظ استعمال کیے گئے ہیں۔ اس قرارداد میں سوال اٹھایا گیا ہے کہ سندھ ہائی کورٹ سے چوتھے اور چھٹے نمبر کے ججز کو نامزد کرنے کی کیا وجہ ہے جب کہ یہ نام مسترد ہو چکے ہیں۔

اسد علی طور کا کہنا ہے کہ لاہور ہائی کورٹ کے چند سینیئر وکلا کے مطابق جسٹس عمر عطا بندیال جن جج صاحب کو یہاں سے سپریم کورٹ لے جانا چاہ رہے ہیں، یہ ان کے بہت قریبی سمجھے جاتے ہیں اور یہ انہیں چیف جسٹس بننے سے پہلے بھی سپریم کورٹ میں لانا چاہتے تھے۔ یاد رہے کہ اگر جسٹس شاہد وحید کا نام سپریم کورٹ میں تقرری کے لئے منظور ہوتا ہے تو یہ 2032 میں جسٹس عائشہ ملک کے بعد چیف جسٹس بھی بنیں گے۔

سندھ ہائی کورٹ کے دو جج صاحبان کو ان کے سینیئر ججز پر فوقیت دی جا رہی ہے۔ ان میں سے ایک سینیارٹی لسٹ میں تیسرے نمبر پر موجود جسٹس عقیل عباسی ہیں۔ ان کے بارے میں وکلا کی رائے ہے کہ انتہائی قابل جج ہیں۔ ان کے نام پر ماضی میں جسٹس عمر عطا بندیال نے اعتراض کیا تھا کہ یہ غصے کے تیز ہیں۔ تاہم، کمیشن کے گذشتہ اجلاس میں جسٹس سرمد جلال عثمانی نے کہا تھا کہ وہ ان جج صاحب کے ساتھ کام کر چکے ہیں اور ان کا ایسا کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ اسد علی طور کے مطابق معاملہ مزاج کا نہیں ہے۔ چند سینیئر وکلا کے مطابق ریٹائرڈ جسٹس فیصل عرب کے بیٹے کی شادی پر جسٹس عقیل عباسی کا سپریم کورٹ کے جسٹس محمد علی مظہر سے کچھ سخت الفاظ کا تبادلہ ہوا تھا اور جسٹس سجاد علی شاہ کو یہاں بیچ بچاؤ کروانا پڑا تھا۔ اطلاعات کے مطابق جسٹس منیب اختر بھی ان کے حق میں نہیں اور دونوں جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس منیب اختر چونکہ چیف جسٹس کے بہت قریب ہیں تو یہ ان دونوں کو ناراض کر کے جسٹس عقیل عباسی کو نامزد نہیں کرتے۔ اس کے علاوہ ریٹائرڈ جسٹس سجاد علی شاہ بھی کہتے تھے کہ جسٹس عقیل عباسی ریٹائرڈ جسٹس مقبول باقر کے قریبی رہے ہیں اور انہی کی طرح کی باتیں کرتے ہیں۔ وکلا برادری کا کہنا ہے کہ ایسی کوئی بات نہیں لیکن ہاں یہ جسٹس مقبول باقر کی طرح کھری بات کرنے اور دباؤ کے بغیر فیصلے کرنے کے عادی ہیں۔

یہاں یہ امر بھی قابلِ ذکر ہے کہ جسٹس حسن اظہر رضوی تو جسٹس محمد علی مظہر جو خود سندھ ہائی کورٹ کی سنیارٹی لسٹ میں چھٹے نمبر سے براہِ راست سپریم کورٹ پہنچے تھے، ان کے سمدھی بھی ہیں۔

جسٹس شفیع صدیقی کے بارے میں بھی وکلا ذرائع نے اسد طور کو بتایا کہ جب سپریم کورٹ میں 28 جولائی کو جسٹس سجاد علی شاہ رکن بنے جوڈیشل کمیشن کے اور اچانک پانچ ججز کو نامزد کیا گیا تو جسٹس سجاد علی شاہ کی ریٹائرمنٹ سے قبل ہی ان کے جانشین کو نامزد کر دیا گیا تھا۔ ذرائع کے مطابق جسٹس سجاد علی شاہ نے اسی شرط پر جسٹس عمر عطا بندیال کے امیدواروں کو ووٹ دیا تھا کہ جسٹس شفیع صدیقی کو سپریم کورٹ لایا جائے حالانکہ سجاد علی شاہ خود 17 روز بعد ریٹائر ہو رہے تھے۔

اسد طور کا کہنا تھا کہ وہ جسٹس حسن اظہر رضوی، جسٹس شفیع صدیقی یا جسٹس شاہد وحید کی قابلیت پر سوالات نہیں اٹھا رہے لیکن اس طریقہ کار پر سوالات اٹھا رہے ہیں کہ جس میں ذاتی قربتوں اور رشتہ داریوں کی بنیاد پر فیصلے کیے جا رہے ہیں۔

حکومتی ارکان کی جسٹس عمر عطا بندیال کے نامزد کردہ ججز کی حمایت کا فیصلہ؟

گذشتہ ماہ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے عدالتی سال کے آغاز کے موقع پر تقریر میں کہا کہ حکومتی ووٹ یعنی اٹارنی جنرل اشتر اوصاف اور وزیرِ قانون اعظم نذیر تارڑ نے ان کی نامزدگیوں کے خلاف اس لئے ووٹ دیا تھا کیونکہ وہ پنجاب وزارتِ اعلیٰ کے مقدمے میں حمزہ شہباز کے خلاف دیے گئے فیصلے کا بدلہ لینا چاہتے تھے۔

اگر واقعتاً چیف جسٹس کے خیال میں یہی وجہ تھی تو پھر اسد علی طور سوال اٹھاتے ہیں کہ کیا اس بار انہیں عدالتی ریلیف کی امید دلائی گئی ہے جو وہ آپ کے حق میں ووٹ کرنے جا رہے ہیں؟ انہوں نے حکومتی ارکان سے بھی یہی سوال کیا کہ اگر پچھلی مرتبہ سنیارٹی کے اصول پر سمجھوتہ نہیں کیا گیا تھا تو اب کیسے یہ سمجھوتہ کر لیا گیا ہے؟ اب آپ لوگوں نے ایسا کیا حاصل کر لیا ہے جو آپ اپنے 28 جولائی کے فیصلے کے خلاف جا رہے ہیں؟

یاد رہے کہ اٹارنی جنرل اشتر اوصاف علی نے ووٹ کے وقت اور بعد ازاں اپنے چیف جسٹس کے نام خط میں واضح کیا تھا کہ وہ جسٹس سردار طارق مسعود کے ان ناموں کو مسترد کرنے کے حق میں دیے گئے دلائل سے مکمل طور پر متفق ہیں۔

چند روز قبل سینیئر صحافی حسنات ملک نے رپورٹ کیا تھا کہ وزیرِ قانون اور اٹارنی جنرل کی چیف جسٹس سے ملاقات ہوئی ہے جس میں جوڈیشل کمیشن آف پاکستان میں ججز کو نامزد کرنے پر مفاہمانہ انداز میں آگے بڑھنے پر بات کی گئی ہے تاکہ آئندہ اس اجلاس میں تنازع نہ ہو۔