بلوچ سرداروں سے حکومتیں محض بگّی کھنچوانے کا کام لیتی ہیں

سیاسی کلچر کو تباہ کرنا ہو یا وسائل پر قبضہ کرنا، ترقی کا نام نہاد نعرہ لگانا ہو یا ترقی مخالف پروپیگنڈہ کرنا ہو، ہر صورت میں بلوچ سردار مناسب قیمت پر دستیاب ہوتے ہیں۔ پھر ان سرداروں سے بیزار ہو جائیں تو انہی میں سے ان کے مخالف ڈھونڈ کر انہیں نئے سردار بنا کر لانچ کر دیا جاتا ہے۔

بلوچ سرداروں سے حکومتیں محض بگّی کھنچوانے کا کام لیتی ہیں

روزنامہ ڈان کے 16 نومبر کے ایڈیشن میں بلوچستان میں حالیہ شمولیتوں، سیاسی تجربات اور آنے والے الیکشن سے متعلق ایک کارٹون پبلش کیا گیا تھا مگر اس کارٹون سے زیادہ منظرکشی کے لیے بلوچستان میں ایک جملہ استعمال کیا جاتا ہے جو اب محاورے کی صورت اختیار کر چکا ہے کہ 'انگریز کی بگّی اور بلوچ سردار

ایک وقت تھا جب انگریز نے ملکہ کی بگّی کھینچنے کے لیے بلوچ سرداروں سے کہا تو سوائے ایک کے سارے سردار بگّی کو کندھا دینے کے لیے اپنی دستار نیچے رکھ کر آگے بڑھے۔ اب وہ ایک سردار بھی باقی نہ رہا۔ سردار برائے فروخت کل انگریز کے دور میں بھی تھا اور آج انگریز کے تابعداروں کے دور میں بھی ہے۔ اسے سردار کی سادگی کہہ لیں یا بے وقوفی کہ وہ ہمیشہ بگّی کھینچنے کے کام آیا ہے۔ جب سلطنت برطانیہ کو اس خطے میں مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا تو انہوں نے بلوچ سماج اور قبائلی نظام کو برباد کرنے کے لیے اپنے وفادار 'سردار' بنائے۔ پھر انہی سرداروں کو آزمانے کے لیے ان سے ملکہ کی بگّی کھنچوائی۔ جب انہیں یقین ہو گیا کہ یہ ٹولہ سرٹیفائیڈ وفاداروں کا ہے تو یہاں سے نکلتے وقت انہیں اپنے تابعداروں کے حوالے کر دیا۔

پاکستان بننے کے بعد بھی یہاں کے انگریز کے تابعداروں نے بلوچستان کے لیے وہی انگریز والی پالیسی جاری رکھی۔ یہاں کے سیاسی نظام کو متاثر کرنے کے لیے نہ صرف سردار ساتھ ملائے بلکہ وقتاً فوقتاً نئے نئے سردار لانچ بھی کیے۔ پھر انہی وفادار سرداروں کو بلوچستان کی پسماندگی اور بدحالی کی وجہ قرار دے کر بدنام بھی کیا۔ اب اس جدید دور میں جہاں سردار کے متبادل بلوچستان کے کونے کونے میں ہر دلعزیز سماجی و قبائلی شخصیات اور سوشل ایکٹیوسٹ بھی لانچ کیے جا چکے ہیں لیکن سردار کی جدّی پُشتی میراث یعنی بگّی کھینچنے کا کام اب بھی سردار کے ہی پاس ہے۔

جب بھی اسلام آباد کی بگّی کو سہاروں کی ضرورت پڑتی ہے تو ہوائی جہازوں کا رخ کوئٹہ کی جانب ہو جاتا ہے۔ سینیٹ کے الیکشن ہوں یا قومی و صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات، منڈی بلوچستان میں ہی لگتی ہے۔ اب چونکہ وقت گزرنے کے ساتھ نہ تو سبّی میلے کی کوئی اہمیت رہی اور نہ انگریز کا دور رہا۔ اسی لیے اب منڈی کا مقام کوئٹہ کا نجی ہوٹل ہوتا ہے۔ بلوچستان کے دور دراز علاقوں سے سردار مدعو کیے جاتے ہیں، اردو کے چار جملے ادا کیے جاتے ہیں اور پھر اسلام آباد و کوئٹہ کی آسائشوں کی نعمتیں گنوائی جاتی ہیں۔ بس اس کے فوراً بعد بھولے بلوچ سردار ایک مرتبہ پھر اپنی دستار کو سائیڈ پر رکھ کر بگّی کو کندھا دینے کے لیے جُھک جاتے ہیں۔

اسلام آباد کا کوئی عسکری مجاہد ہو یا انقلابی جیالہ، کوئی سونامی ہو یا طوفان، کوئی مُلا ہو یا ووٹ کو عزت دینے والا چوہدری، بلوچ سردار کا استعمال سب کے لیے یکساں اہمیت کا حامل ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے اسلام آباد کو بلوچ سردار سے کبھی کوئی مسئلہ نہیں رہا اور ہوگا بھی کیسے؟ کیونکہ بلوچستان تو اسلام آباد کے لیے ایک تجربہ گاہ ہے اور اس تجربہ گاہ میں مینڈکوں کی کامیاب سرجری کے بعد ہی اس عمل کو اسلام آباد کے لیے اپلائی کیا جا سکے گا۔

مسئلہ تو بلوچ کو ہے۔ اور اس بیان سے ہے کہ بھئی بلوچوں کے تو سردار ہی بلوچستان کی پسماندگی اور بدحالی کے ذمہ دار ہیں۔ اب ایک بلوچ طالب علم جب لاہور یا اسلام آباد کی کسی یونیورسٹی میں اپنے ہم جماعتوں کی زبانی یا میڈیا سے ایسے بیانات سنتا ہے تو اسے بہت زیادہ مسئلہ ہوتا ہے کہ بھئی کون سے بلوچوں کے سردار؟ وہ سردار جنہیں آپ نہ خریدیں تو ان کی قیمت دو ٹکے کی بھی نہ ہو۔ وہ تو بلوچوں پر مسلط کردہ آپ کے نمائندے ہیں، بلوچوں کے ہرگز نہیں۔

اسلام آباد کے لیے بلوچستان زمین کا ایک ایسا ٹکڑا ہے جہاں معدنیات اور سردار بستے ہیں۔ یہ معدنیات کا 'سردار جاہ' ایک تجربہ گاہ یا ایک منڈی ہے۔ یہاں ووٹ کی عزت سے لے کر جمہوریت تک ہر لفظ اپنا معنی بدل لیتا ہے۔ سیاسی کلچر کو تباہ کرنا ہو یا وسائل پر قبضہ کرنا، ترقی کا نام نہاد نعرہ لگانا ہو یا ترقی مخالف پروپیگنڈہ کرنا ہو، ہر صورت میں بلوچ سردار مناسب قیمت پر دستیاب ہوتے ہیں۔ پھر ان سرداروں سے بیزار ہو جائیں تو انہی میں سے ان کے مخالف ڈھونڈ کر انہیں نئے سردار بنا کر لانچ کر دیا جاتا ہے۔

اسلام آباد بہت ہی زیادہ ہوشیار اور چالاک ہے اور یہ بگّی کھینچنے والے بیچارے سادہ لوح۔ لیکن وقت بڑا بے رحم ہے۔ اسلام آباد کا گھوڑا اور ان کی بگّی ہمیشہ کے لیے اس حالت میں نہیں رہ سکتے۔ اب گھوڑا مالک سے ناراض ہے اور بگّی کا وزن بھی اتنا بھاری ہو گیا ہے کہ بیچارے کمزور بلوچ سرداروں کی طاقت وہ نہیں رہی کہ بگّی کا پورا بوجھ اٹھا سکیں۔ سرداروں کی دستاریں تو پہلے ہی گر چکی ہیں، اب اگر بگّی بھی دھڑام سے گر جائے تو اسلام آباد کا تخت مشکل سے ہی سنبھل پائے گا۔

لکھاری بلوچستان کے شہر گوادر سے تعلق رکھتے ہیں اور صحافت کے طالبعلم ہیں۔