’فیئر ٹرائل کا حق چالاک ملزم کیلئے نہیں‘، سائفر کیس کا تحریری فیصلہ جاری

عدالت نے فیصلے میں کہا کہ سائفر کو اپنے لیے استعمال کیا گیا۔ عمران خان اور شاہ محمود قریشی نے بطور وزیراعظم اور وزیر خارجہ اپنے عہد کی خلاف وزری کی جس سے پاکستان اور امریکا کے تعلقات کو نقصان پہنچا۔

’فیئر ٹرائل کا حق چالاک ملزم کیلئے نہیں‘، سائفر کیس کا تحریری فیصلہ جاری

آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت قائم خصوصی عدالت کے جج ابوالحسنات ذوالقرنین نے سائفر کیس کا تفصیلی فیصلہ جاری کردیا ہے۔ تحریری فیصلے میں کہا گیا کہ پی ٹی آئی عمران خان اور شاہ محمود قریشی نے جان بوجھ کر جھوٹ بولا۔ سائفر کے ذریعے دیگر ممالک سے رابطے کے سسٹم کی سالمیت پر سمجھوتا کیا گیا۔ ٹرائل کی کارروائیوں کو طول دینے کے لیے مختلف درخواستیں دائر کرکے اپنے مختلف موقف کو توڑ مروڑ کر پیش کیا۔ فیئر ٹرائل کا حق چالاک ملزم کے لیے نہیں۔

سائفر کیس کی خصوصی عدالت نے کیس میں بانی پی ٹی آئی عمران خان اور شاہ محمود قریشی کو 10،10 سال قید کی سزا سنائی ہے۔

سائفر کیس کا تفصیلی فیصلہ 77 صفحات پر مشتمل ہے۔ فیصلے میں عدالت نے کہا ہے کہ سائفر کیس کا تفصیلی فیصلہ 20 فائڈنگز پر مشتمل ہے۔  فائنڈنگز میں سائفر، چشم دید گواہ اور سیکرٹ دستاویزات کی اہمیت شامل ہیں۔

تفصیلی فیصلے میں عدالت نے لکھا ہے کہ بانی پی ٹی آئی نے سائفر وزارت خارجہ کو واپس نہیں بھیجا۔ سابق وزیر اعظم عمران خان کی ذمے داری تھی کہ وہ بطور وزیراعظم سائفر وزارت خارجہ کو واپس بھیجتے۔انہوں نے اب تک سائفر کی کاپی واپس نہیں کی۔اور اس ضمن میں استغاثہ کی کوئی تردید نہیں کی۔سائفر کے معاملے سے دیگر ممالک کے ساتھ تعلقات پر اثر پڑا، جس سے دشمنوں کو فائدہ ہوا۔سماعت کے دوران وکلاء صفائی غیرسنجیدہ دکھائی دیے۔

فیصلے کے مطابق 17 ماہ کی تحقیقات سے ثابت ہوا کہ سائفر کیس تاخیر سے دائر نہیں کیا گیا۔

فیصلے میں کہا گیا کہ دوران سماعت بانی پی ٹی آئی عمران خان اور شاہ محمود قریشی نے خود ساختہ پریشانیاں بنائیں اور ہمدردیاں لینے کے لئے بےیارومددگار بننے کی کوشش کی۔دونوں ملزمان نے عدالت سے آنکھ مچولی کھیلتے ہوئے مقدمے کو طول دینے کی کوشش کی اور اعلیٰ تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود عدالت میں غیر ذمہ دارانہ رویہ اپنایا۔

فیصلے میں مزید کہا گیا کہ انہوں نے صرف آنکھ مچولی کا کھیل کھیلا اور پوری کارروائی کو طنزیہ انداز میں لیا۔ جس کی قانون میں کوئی ضمانت نہیں ہے اور ان کارروائیوں کو طول دینے کے لیے مختلف درخواستیں دائر کرکے اپنے مختلف موقف کو توڑ مروڑ کر پیش کیا۔ فیئر ٹرائل کا حق چالاک ملزم کے لیے نہیں۔

تازہ ترین خبروں اور تجزیوں کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں

عدالت نے فیصلے میں کہا کہ سائفر کو اپنے لیے استعمال کیا گیا۔ عمران خان اور شاہ محمود قریشی نے بطور وزیراعظم اور وزیر خارجہ اپنے عہد کی خلاف وزری کی جس سے پاکستان اور امریکا کے تعلقات کو نقصان پہنچا۔

فیصلے میں کہا گیا ہے کہ بانی پی ٹی آئی اور شاہ محمود قریشی نے جان بوجھ کر جھوٹ بولا۔ اعظم خان کا بیان سچائی پر مبنی تھا جس نے پراسیکیوشن کے دلائل کو مضبوط بنایا۔ سائفر کے ذریعے دیگر ممالک سے رابطے کے سسٹم کی سالمیت پر سمجھوتا کیا گیا۔ سائفر کے معاملے سے دیگر ممالک کے ساتھ تعلقات پر اثر پڑا جس سے دشمنوں کو فائدہ ہوا۔

عدالت کے تفصیلی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ بانی پی ٹی آئی نے سائفر وزارتِ خارجہ کو واپس نہیں بھیجا۔ سائفر کیس 17 ماہ کی تحقیقات کے بعد دائر کیا گیا۔ 17 ماہ کی تحقیقات سے ثابت ہوا کہ مقدمہ تاخیر سے دائر نہیں کیا گیا۔ بطور وزیراعظم عمران خان کی ذمہ داری تھی کہ سائفر واپس لوٹاتے۔ وزارت خارجہ وزیراعظم سے سائفر واپس نہیں مانگ سکتی۔ اب تک عمران خان نے سائفر واپس نہیں کیا۔

عدالت نے فیصلے میں لکھا کہ کیس سائفر سے متعلق ہے جو وزارتِ خارجہ کو واشنگٹن سے موصول ہوا۔سائفر بہت حساس دستاویز ہے جس سے امریکا پاکستان کا ایک دوسرے پر بھروسا بھی جڑا ہے۔ 25 گواہان کے بیانات قلمبند کیے گئے لیکن وکلاء صفائی غیر سنجیدہ دکھائی دیے۔27 جنوری کو وکلاء صفائی غیر حاضر تھے۔سرکاری وکیل موجود تھا۔

تحریری فیصلے میں لکھا گیا ہے کہ عمران خان اور شاہ محمود قریشی نے سرکاری وکیل کے ساتھ بدتمیزی کی اور فائلیں پھینکیں۔وکلاء صفائی عثمان گل، علی بخاری کے پہنچنے پر جرح کی تیاری کے لیے وقت دیا۔ جب جرح کا کہا تو وکلاء صفائی نے انکار کر دیا۔ جس کے بعد سرکاری وکیل نے جرح کی۔ پراسیکیوشن نے ناصرف گواہان بلکہ دستاویزات پر مبنی ثبوت بھی پیش کی۔ ریکارڈ پر ایسا کچھ نہیں جس سے ثابت ہو کہ پراسیکیوشن کے گواہان میں کمی رہ گئی۔

عدالت کے فیصلے میں کہا گیا ہے کہ عمران خان اور شاہ محمود قریشی کے مختلف وکلاء آئے۔ درخواستیں دےکر تاخیری حربے اپنائے گئے۔ دونوں کے وکلاء نے قانون کا مذاق بنایا، عمران خان اور شاہ محمود قریشی کا رویہ عدالت کے سامنے تھا۔ نقول فراہمی اور فرد جرم پر دونوں نے دستخط نہیں کیے جس سے نامناسب رویہ ثابت ہوا۔

جج ابوالحسنات ذوالقرنین نے فیصلے میں لکھا ہے کہ بانی پی ٹی آئی اور شاہ محمود قریشی نے 342 کے بیان دیے لیکن دستخط نہ کیے۔سابق وزیراعظم اور سابق وزیر خارجہ سے ایسے رویے اور تاخیری حربوں کی توقعات نہیں تھیں۔ فئیر ٹرائل کیا۔مجرمان کو جرح کا مکمل موقع دیا گیا لیکن جان بوجھ کر جرح نہیں کی گئی۔